ایک سوچنے والے قاری کا خط

سعد اللہ جان برق  اتوار 2 ستمبر 2012
barq@email.com

[email protected]

جی چاہتا ہے کہ آج ہم اپنے کالم کو ایک مجلہ یا رسالہ سمجھ کر ایک بہترین اور منفرد خط کا ذکر کریں ۔یہ خط جو ہمارے پاس پہنچا ہے کئی سوالات پر مشتمل ہے۔

ہم اسے انعام یافتہ سوال کے بجائے انعام یافتہ مکتوب کہیں گے۔ اسے ہم نے اب تک اپنے پاس آنے والے خطوط میں سب سے بہترین اور انعام یافتہ اس لیے نہیں قرار دیا ہے کہ اس میں کوئی خاص انکشاف کیا گیا ہے بلکہ وجہ یہ ہے کہ پہلی مرتبہ ہمارا جی خوش ہوا کہ ایک پاکستانی، وہ بھی مسلمان اور وہ بھی طالب علم نے ایک ایسا خط بھیجا ہے جس میں نیک باتوں کی تلقین، کسی ملک، مذہب، حکومت یا قوم کے خلاف صف آراء ہونے، دنیا کو مومن کی میراث بنانے، ساری دنیا میں بے تیغ لڑنے اور اپنے علاوہ سارے مسلمانوں کو نیک راہ دکھانے، مسلمانوں کو کافر بنانے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے والوں کی ایسی تیسی کرنے کے بجائے کچھ ’’سوچ‘‘ کا بھی عمل دخل ہے۔

سوچ ’’جو‘‘ سوال کو جنم دیتی ہے اور سوال جو علوم کی ماں ہے اور علوم جس سے مسلمانوں نے مکمل طور پر ’’کُٹی‘‘ کی ہوئی ہے، یہ خط جسے ہم لفظ بلفظ حتیٰ کہ املائی غلطیاں درست کیے بغیر من و عن آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں کہ ہمیں اپنے نوجوانوں سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، بھلے ہی غلط کار حکومتوں، طوائف نما لیڈروں اور دین فروش پیشہ ور دکانداروں نے عوام کے ذہنوں پر جہالت اور جاہلیت کی مہریں لگا رکھی ہوں لیکن ابھی کچھ لوگ ہیں باقی جہاں میں، بقول علامہ

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کِشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

کہتے ہیں ہر بچے کی پیدائش اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا ابھی دنیا اور انسان سے مایوس نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح یہ خط پڑھ کر ہماری یخ بستہ اور سنگلاخ ’’مایوسی‘‘ میں بھی دراڑ پڑ گئی ہے ورنہ ہم تو یقین کر چکے تھے کہ انسان نے معکوس ترقی کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اس مقام پر خود کو پہنچا دیا جہاں انسان بھی دوسرے حیوانات کی طرح یا پتھر کے زمانے کے انسان کی طرح صرف ’’جسم‘‘ ہو رہ گیا ہے اور وہ ’’ذہن‘‘ جو اس نے ہزاروں سال کے ارتقاء کے بعد حاصل کر لیا تھا مکمل طور پر کھو چکا ہے۔

خط پڑھنے کے بعد خدارا نعرہ بازی کرنے یا کافر سازی کی فیکٹری چالو کرنے سے پہلے اپنے پیارے نبی ﷺ کی یہ بات یاد کر لیجیے گا کہ ’’علم جہاں کہیں بھی ہو مومن کی گمشدہ میراث ہے‘‘۔ خط بھیجنے والے کا نام شہزاد علی ہے اور وہ ضلع اٹک کا رہنے والا ہے۔ یہی وہ ضلع ہے جس سے ہمارے ممدوح ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا بھی تعلق تھا، جن سے ہم ملے کبھی نہیں تھے لیکن ان کی کتابیں پڑھ کر اتنے متاثر تھے کہ اپنا تخلص بھی برق رکھ لیا، لگتا ہے اس ضلع کی زمین بھلے ہی خشک ہو لیکن ذہن بڑے زرخیز پیدا کرتی ہے۔

اٹھائے گئے سوالات پر بحث بعد میں ہو گی ویسے بھی ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ جب شہر بانجھ ہو جاتے ہیں تو مضافات سے کوئی نہ کوئی کرن پھوٹ آتی ہے، قرآن کی سورۃ یاسین میں لکھا ہے کہ جب ایک آبادی کو کئی نبی بھیجے گئے اور وہاں کے مکینوں نے ان کو جھٹلایا اور ان درپے آزار ہوئے تو پھر ’’شہر کے مضافات سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا اور اس نے کہا، اے میری قوم نبیوں کو مت جھٹلاؤ، ایسوں کو مت جھٹلاؤ جو تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتے اور تمہیں راہ دکھاتے ہیں‘‘

مزید بحث کرنے سے پہلے آپ وہ خط پڑھ لیجیے۔
بزرگوار سعد برق صاحب!

ایک زمانہ تھا جب ہم آپ کے کالموں کے با ادب با نصیب ٹائپ مستقل قاری تھے، علامہ بریانی وغیرہ ہمارے پسندیدہ کردار تھے لیکن وہ جو ایک معاملہ ہر پڑھنے والے کے ساتھ ہوتا ہے ناکہ گاہے وقتاً فوقتاً اس کے ’‘فیورٹس‘‘ تبدیل ہوتے رہتے ہیں تو کچھ ایسا حال ہمارے ساتھ بھی ہوتا رہتا ہے، بہت سارے ’’بت‘‘ جو ہم نے علم و ادب کے میدان میں سجا رکھے تھے ،کسی دوسرے لمحے پاش پاش ہو جاتے ہیں، اب یہ جو مکتوب آپ کو لکھنے بیٹھا ہوں اس کی توجیح کچھ یوں ہے کہ ان دنوں میرے زیر مطالعہ جو کتاب رہی ہے۔

اس کا نام ہے ’’وقت کی مختصر تاریخ‘‘ سٹیفن ہاکنگ کی یہ شہرہ آفاق تصنیف یقیناً برسوں پہلے ہی آپ کی نظروں سے گزر چکی ہو گی، اس کتاب کو سمجھنے کے لیے جو ذہن کی وسعت اور دانش چاہیے بندہ میں قطعی طور سے ناپید ہے تاہم اس کے باوجود کچھ چیزیں ذہن میں رہ گئیں چونکہ ہم نے میٹرک سائنس میں کیا ہوا ہے سو اس کتاب میں موجود بعض اصطلاحات اور ان کی تفہیم کچھ کچھ سمجھ میں آئی ہے چونکہ آپ واقعی دانشور ہیں اس لیے میں نے سوچا، آپ کو یہ خط لکھوں اور آپ کے ساتھ کچھ عالمانہ نقاط پر بات کروں۔

آپ کی تصنیف ’’وحدت الوجود اور بگ بینگ‘‘ اگرچہ میں نے ابھی تک نہیں پڑھی لیکن اس کے بارے میں سنا پڑھا کافی ہے۔ ایک لائبریری میں اسے پڑھنے کا موقع ہاتھ آیا تھا لیکن سوچا ایسی کتاب میری ذاتی دو شلف (ابھی تک) الماری والی لائبریری میں ہونی چاہیے تا کہ میں کسی شیشم یا دھریک کے شجر کے نیچے چارپائی ڈال کر تکیہ سے ٹیک لگا کر اسے پڑھوں، سو جیسے ہی پیسے ہاتھ آئیں گے اس منصوبے پر عمل پیرا یا کاربند ہو جاؤں گا۔

خیر چھوڑیئے آپ سے بات ہو رہی تھی، سٹفین ہاکنگ کی تو جناب ایک چیز جو اس کی کتاب میں تھی وہ یہ تھی کہ ایک عظیم وحدتی نظریہ جو اس کائنات کی تخلیق کا باعث ہے اگر دریافت کر لیا گیا تو ہم یہ جان سکیں گے کہ خدا کے ذہن میں کیا تھا جو اس نے یہ اتنی وسیع کائنات تخلیق فرمائی، اب میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ایسا کرنا ضروری ہے۔ دنیا خدا کی الہامی کتابوں اور ان کے اندر موجود پیغامات کو کیوں نہیں مان لیتی ۔

انسان میں اتنی پراسراریت کیوں ہے، وہ اتنا متجسس کیوں ہے کیا خدا تعالیٰ واقعی اس کائنات کو قوانین کے ذریعے بروئے کار لایا ہے اور کیا خدا چاہتا ہے کہ انسان ان قوانین کو ڈی کوڈ کرے، کیا سائنس جو راستہ اس ضمن میں اختیار کرتی ہے وہ محفوظ ہے اور خدا کی ناراضگی کا باعث تو نہیں ہے۔ اس باب میں فلسفے اور تصوف کا رویہ کیسا ہے۔

کیا کائنات کے سربستہ راز جاننے کے لیے سائنس کے سوا بھی کوئی راہ ہے، یہ جو زمان و مکان کا قصہ ہے اس کی سادہ ترین اور آسان تشریح کیا ہے، اس نے کائنات کے پھیلنے اور سکڑنے پر مختلف ٹامک ٹوئیاں ماری ہیں، اگر کائنات کا اختتام ہو گا تو ایسا کس بنیاد پر ہو گا، خدا کے امر کی وجہ سے جسے ہم قیامت کہتے ہیں یا پھر ان قوانین کی وجہ سے جو آخر کار اس کائنات کو بلیک ہول کی طرز پر ان بجھا اور سیاہ کر دیں گے۔

وہ کہتا ہے کہ آہستہ آہستہ اب بیسیوں صدی میں سائنس بہت زیادہ ریاضیاتی اور Equations پر مبنی ہو گئی ہے سو چند ہی ماہرین اور سائنس دان ہیں جو کائنات اور فلکیات و طبیعات کو درست تناظر میں سمجھتے ہیں۔ نظریہ اضافیت کو بقول ایڈنگٹن ایک زمانے میں تین آدمی ہی سمجھتے تھے، کیا سلوک اور معرفت کی منازل طے کرنے والے صوفی باصفاء کائنات کے ان ریاضیاتی مفاہیم کو سمجھتے ہیں تو اسی طریقے سے یا پھر کسی اور طریقے سے۔

آنے والے سالوں میں دنیا کہاں ہو گی، لوگ جب سائنس کو عام سمجھنا شروع ہو جائیں گے تو اس صورت حال میں مذہب کا مستقبل کیا ہو گا، سائنس علم ہے یہ برا نہیں ہو سکتا ہے لیکن اس کے جو امام ہیں وہ زیادہ تر ایسے نظریات پیش کرتے ہیں جو Godless سوسائٹی کی ترغیب دیتے ہیں، اسلام کو مولویوں نے ہائی جیک کیا ہوا ہے اور تبدیلی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے، ایسے میں آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آنے والے زمانوں میں سائنس ہی ابن آدم کا مذہب ہو گا، ہم اتنے جاہل کیوں ہیں وہ ہمارے لیے اس قدر کام کر رہے ہیں۔

دن رات وہ تجربات و مشاہدات میں لگے ہوئے ہیں اور ہم ہیں کہ سازش سازش الاپے جا رہے ہیں، ایک بہتر دنیا کا خواب کب شرمندہ تعبیر ہو گا، سب انسان کب ہتھیاروں، جنگوں، قتل و غارت، بھوک، خوف، قحط اور بے شمار دکھوں سے نجات حاصل کریں گے، اتنی وسیع کائنات میں ہمارا یہ جو چھوٹا سا سیارہ ہے اس کے باشندوں کو کیا یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ آپس میں سرحدوں ، چیک پوسٹوں اور ہزاروں رکاوٹوں کا شکار ہو جائیں اور ایک دوسرے کو دن رات غارت کریں۔

بات کہاں سے شروع کی اور کہاں آکر ختم ہوئی ایک آئیڈیل معاشرہ اور دنیا مادی اور روحانی پہلوؤں سے کیسی ہو، یہ سوال باقی ہی رہے گا شاید، تو یہ ہے ہمارے دل کا کچھ حال جو آپ کو لکھ بھیجا ہے ،آپ کی طرح میں بھی ایک گاؤں کا باشندہ ہوں اس لیے شاید آپ میرے دیہاتی ہونے کی وجہ سے میری ان باتوں کا جواب لکھ بھیجیں جو میرے لیے پرائڈ آف پرفارمنس سے کم نہ ہو گا، بی اے کا امتحان دیا ہے اور کتابوں سے عشق ہے، آپ نے شفقت فرمائی تو مزید سوال بھی آپ سے پوچھوں گا، اب اجازت چاہتا ہوں، چونکہ میں کچے ایمان والا مسلمان ہوں سو ایمان کی مضبوطی کی دعا فرمایئے گا۔

شہزاد علی، محلہ ڈھیری والا، گاؤں، ڈاکخانہ جعفر تحصیل فتح جنگ ضلع اٹک

خط کے مندرجات پر اگلے کالموں میں بات ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔