غریب کا دشمن ۔آئی ایم ایف

جمیل مرغز  پير 9 دسمبر 2019

حکومت اس بات پر اترا رہی ہے کہIMF نے پاکستان کو قرضہ دیا ہے‘ قرضے‘ بھیک یا امداد پر فخر کرنا یا خوش ہونا تو بھکاریوں کا شیوہ ہو سکتا ہے ،کسی غیرت مند فرد یا قوم کا عمل نہیں ہو سکتا‘ آج کے کالم میںIMF کے کردار اور اس کے امداد کے اثرات پر روشنی ڈالیں گے۔

عالمی سرمایہ داری نے آ ج دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک کو مختلف مالیاتی اداروں کے بندھنوں میں جکڑ رکھا ہے‘ یہ مالیاتی ادارے جنگ عظیم دوم کے خاتمے‘ سامراجی قوتوں کی کمزوری اور اس کے نتیجے میں نو آبادیات کی سامراجی طاقتوں سے آزادی‘ جرمنی اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک کی شکست‘ سوویت یونین کی تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے سرمایہ داری کے متبادل سوشلسٹ نظام کے خطرے کو بھانپتے ہوئے دنیا کو اپنے دائرہ اثر میں رکھنے کے لیے سامراجی ممالک نے بنائے تھے۔

ان ادارو ں کو عام طور پرآئی ایف آئیز (International Financial Institutions-IFI) کہتے ہیں‘ ان میں اہم ترین جنگ عظیم کے بعد برٹین ووڈز کانفرنس کے نتیجے میں بنائے گئے عالمی بینک‘ IMF اور GATT (جنرل ایگریمنٹ آن ٹریڈ اینڈ ٹیرف) کے مالیاتی ادارے شامل ہیں‘ ان عالمی اداروں کے علاوہ 60 کی دہائی میں علاقائی ترقی کے نام پر مختلف مالیاتی ادارے بنائے گئے‘ جن میںانٹر امریکن ڈیولپمنٹ بینک (IDB) افریقن ڈیولپمنٹ بینک (AFDB) ایشین ڈیولپمنٹ بینک (ADB) وغیرہ شامل ہیں۔

ان آئی ایف آئیز نے امیر ملکوں کو مزید امیر اور غریب ممالک کو مزید غربت کے اندھیروں میں دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے‘ ہر ترقی پذیر ملک لازمی طور پر ان میں سے کسی نہ کسی مالیاتی ادارے کا مقروض ہوتا ہے اور یہ ادارہ سود کی شکل میں اس کے بدن سے دولت کا آخری قطرہ بھی کھینچنے کے چکر میں ہوتا ہے‘ پاکستان کی حالیہ مالیاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال کی پہلی سہ ماہی میں زیادہ خرچ دفاع اور بیرونی قرضوں کے سود کی ادائیگی میں ہوا ہے۔

گلوبلائزیشن کے علاوہ ‘ آئی ایف آئیز کی مہارت اور دور اندیشی ابھی تک لوگوں کی محرومی‘ غربت اور مایوسی کو کم کرنے میں کہیں نظر نہیں آتی دنیا کی تقریباً 8 ارب کی آبادی میں دو ارب لوگ مشکل سے یومیہ دو ڈالر پر گزارا کر تے ہیں‘  امریکا کے شہر سیاٹل کے اجلاس کے موقع پر جب ہزاروں لوگوں نے اس کی پالیسیوں کے خلاف ہنگامے کیے تو اس کے بعد WTO نے دوحہ (قطر) اور دیگر دور دراز مقامات کو اپنے جلسے منعقد کرنے کے لیے منتخب کیا تا کہ آزادانہ تجارت کے خلاف مظاہروں سے بچ سکیں۔

WTO پر الزام یہ بھی ہے کہ یہ ادارہ دنیا کے امیر ترین اشخاص اور ملٹی نیشنل کارپوریشنزکی نمایندگی کرتا ہے جو دنیا کی آبادی کا صرف 0.01 فیصد ہے‘ یہ تقریباً ایک ہزار بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشنیں ہیں‘ جن کی پیداوار دنیا کی پیداوار کا 80 فی صد ہیں‘ 90 کی دہائی میں دنیا کے امیر ترین ممالک کے پیداوار میں 70  فی صد سے 85  فیصد تک اضافہ جب کہ 20 ترقی پذیر ممالک میںدو فیصد کمی دیکھی گئی۔ IFIs کی پالیسیوں کا جھکاؤ ترقی یافتہ ممالک کے حق میں رہا اور اس سے مقامی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوئی‘ بریٹن ووڈ سسٹم جدید معیشت کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ اس کی خامیاں پوری طرح عیاں ہیں یہ نظام محض کھوکھلا دعویٰ  ہے۔

پاکستان کے حکمران آج تک نہیں سمجھ سکے یا شاید سمجھنا نہیں چاہتے کہ IMF کا ادارہ کسی کی دوستی اور اس پر رحم کھانے کے لیے نہیں بنایا گیا‘ برٹن ووڈز کانفرنس کے نتیجے میں قائم کردہ تمام ادارے اور معاشی پالیسیاں صرف اور صرف سامراجی مقاصد کے لیے بنائی گئی تھیں‘ غریب اور ترقی پذیر ممالک سے سرمایہ سامراجی ممالک کو منتقل کرنے کے علاوہ ان سابقہ نو آبادیات کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے IMFَََ‘  عالمی بینک اور WTO کے اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ آئیے آج IMF کی طرف سے پاکستان کی امداد کے طریقہ واردات پر ایک نظر ڈالیں۔

اپنی خراب معاشی صورت حال کے پیش نظر پاکستان کی ہر حکومت امریکا سے مالی مدد طلب کرتی ہے‘ امریکا لوٹ کھسوٹ کے بارے میں تمام کارروائیاں عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے کرتا ہے‘ خود وہ کسی ملک کا دوست بن جاتا ہے اور سخت شرائط وغیرہ کے لیے اس کا کام IMF اور دوسرے مالیاتی ادارے کرتے ہیں‘ اس لیے جب پاکستان اس سے مالی مدد طلب کرتا ہے‘ تو اس کا مشورہ ہوتا ہے کہ وہ عالمی مالیاتی فنڈ) (IMFکو امداد کے لیے درخواست دے۔

پاکستان نے امداد کے لیے 2018میںIMF کے دروازے پر دستک دی‘ IMF نے امداد کی منظوری بعض سخت شرائط کے ساتھ دی‘ یہ شرائط عائد کرنے کا مقصد بظاہر پاکستان کی معاشی صورت حال کو بہتر بنانا تھا، معاشی اور مالی پالیسیوں کو سخت کرنا‘ غریبوں کو تحفظ دینے کے لیے سوشل نیٹ ورک کو مضبوط بنانا‘ ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات کے ذریعے ملک کی آمدنی میں اضافہ کرنے‘ جیسے خوش کن شرائط شامل تھے ۔90 کی دہائی میں بھی پاکستان کو معاشی مضبوطی اور بہتر اقتصادی صورت حال کا جھانسہ دے کر IMF کے چکر میں پھانسا گیا تھا‘ IMF کا پہلا مطالبہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت کو زیادہ ٹیکس لگانے چاہیے۔IMFاپنی امداد کے ساتھ جو دوسری شرائط عائدکرتا ہے‘ ان میں آزادانہ تجارت اور پرائیوٹائیزیشن پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔

یہ دونوں شرائط عام طور پر غریب ممالک کی معاشیات کے لیے تباہ کن اثرات کی حامل ہوتی ہیں‘ آئی ایم ایف کا یہ بھی کہنا ہوتا ہے کہ اگر تجارت کو آزاد کیا جائے تو اس سے معاشی صورت حال میں استحکام آ جاتا ہے‘ ایک بڑا جھوٹ اور افسانہ ہے‘ جب یہ ممالک تجارت میں آزادانہ پالیسی اختیار کرتے ہیں تو اس کی وجہ سے ان ممالک کا استحصال بہت آسان ہو جاتا ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ IMF غریب اور ترقی پذیر ملکوں پر زور دیتا ہے کہ وہ آزادانہ تجارت کے لیے اپنی سرحدیں کھول دے اور دوسرے ملکوں کے مال کو اپنے ملک کی منڈیوں تک رسائی دے‘ جس وقت بھی ترقی پذیر ممالک اپنی سرحدیں تجارت کے لیے کھولتے ہیں سب سے پہلے سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک کی مارکیٹوں پر قبضہ کر لیتی ہیں۔

بیرونی سرمایے پر زیادہ انحصار بہت ہی خطرناک ہوتا ہے‘ اس طرح اس ملک کا سرمایہ دار میدان سے بھاگ جاتا ہے اور حکمران ’’قرض کی مے‘‘ کے عادی ہوکر نکمّے ہو جاتے ہیں‘ بیرونی قرضدار کبھی بھی کسی ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا نہیں دیکھ سکتے‘ اس طرح حکمران عوام کی طرف سے غافل ہو جاتے ہیں‘ صنعت تباہ ہو کر ملک بیرونی اشیاء کی منڈی بن جاتا ہے۔ آج پاکستان کی مارکیٹیں دنیا بھر کے سیکنڈ ہینڈ مال سے بھری ہوئی ہیں جن کو ہم کباڑ کا مال کہتے ہیں۔

پاکستان آج کل خطرناک حد تک قرضوں میں دھنسا ہوا ہے‘ سابقہ حکومتوں کو لعن طعن کرنے والی موجودہ حکومت نے بھی قرضوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے‘ قرضوں کی مالیت 100 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے‘ اس سے پاکستان کی معاشی بدحالی‘ عالمی سطح پر مقابلے اور نجی شعبے کی طرف سے سرمایہ کاری کی کمی کا ثبوت ملتا ہے۔ سرمایہ داری نظام کے نئے وکلاء جو Neo liberals کہلاتے ہیں‘ ان کے ایک دانشور Milton Friedman اس نظام کے حق میں ٹریکل ڈاؤن کا فلسفہ پیش کرتے ہیں‘ اس فلسفے کے مطابق سرمایہ دار انہ نظام میںیہ خوبی موجود ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں جیسے جیسے دولت بڑھتی ہے۔

اس کا بڑا حصہ ترقی پذیر ممالک کو منتقل ہوتا رہتا ہے‘ اسی طرح جب سرمایہ دار کے پاس دولت زیادہ ہو جائے تو اس کا بہاؤ غریب طبقوں کی طرف ہو جاتا ہے اور اسی طرح پورے معاشرے میں دولت پھیل جاتی ہے اور عالمی سطح پر بھی غریب ممالک میں دولت کا پھیلاؤ بڑھ جاتا ہے۔ ابھی تک پاکستان میں یہ نظریہ ناکام نظر آتا ہے کیونکہ 1990کے بعد سے پاکستان مسلسل آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عمل درآمد کر رہا ہے ‘ اس کے باوجود آج بھی ملک کی آبادی کا 40 فی صد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے‘ اس غربت کی بڑی وجہ آئی ایم ایف کی لوٹ کھسوٹ کی پالیسیاں ہیں‘ معاشی صورتحال کی بد تر حالت‘ مہنگائی اور بیروزگاری اس صورت حال کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں‘ ان اسباب کا خاتمہ آئی ایم ایف کی اصلاحاتی پروگرام میں کبھی بھی شامل نہیں ہوتا۔

سرمایہ داری نظام میں کسی ملک کی اقتصادی صورتحال بہتر بنانے کے لیے چند بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے‘ ان میں موثر مالیاتی نظام چلانے والے ادارے‘ امن و امان‘ سرمایے کا تحفظ‘ مضبوط قانونی اور انتظامی ادارے‘ قانون کی سختی سے عمل داری‘ ملک کی مقامی صنعتوں کو تحفظ اور سب سے بڑھ کر ایک مضبوط سیاسی نظام جس کی قیادت واقعی ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی خواہشمند ہو۔ تجارت کے بارے میں پالیسی ایسی ہونی چاہیے جس میں ملکی صنعتوں کو زیادہ مراعات دی جائیں‘ معاشی پالیسیوں کا تسلسل بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔

یہ وہ اقدامات ہیں جن سے سرمایہ دارانہ نظام رکھنے والے ممالک کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ حالانکہ ان اقدامات سے معاشرے میں طبقاتی نظام ختم نہیں ہوتا‘ ایک طبقہ ہمیشہ غریب رہے گا۔ آئی ایم ایف نے جن ممالک کو امداد دی ہے وہاں کی نہ معاشی حالت بہتر ہوئی اور نہ غربت میں کمی ہوئی ہے‘ آج جب پاکستان کے عوام مہنگائی‘ بیروزگاری اور کرپشن کے تین پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں‘ IMF کا مسلسل تقاضہ ہے کہ بجلی مہنگی کرو‘ عوام پر مزید ٹیکس لگاؤ اور ہر طریقے سے ہمارا قرض بمعہ سود ادا کرو اگر غربت اور اقتصادی بدحالی ختم کرنے کا یہ طریقہ ہے تو IMF سے کہہ دینا چاہیے کہ ’’بخشو بی بلی۔ چوہا لنڈورا ہی بھلا‘‘۔

اگر پاکستان کے حکمران واقعی ملک کی حالت بہتر بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنا ہو گا‘ طرز حکمرانی تبدیل کریں‘ کرپشن کے بہانے‘ نیب اور ایف بی آر کے ذریعے ہر کسی کو تنگ کرنے کے بجائے سیاسی اور کاروباری ماحول ٹھیک کریں۔

چھوٹے کاروبار کو ترقی کے مواقع فراہم کریں۔ مالدار طبقوں کے بجائے غریب طبقوں کی طرف وسائل اور مراعات کا رخ موڑیں‘ جاگیرداری نظام کی باقیات ختم کریں‘ بیرونی قرضوں کے بجائے اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا سیکھیں‘ قانون کی عمل داری کو یقینی بنائیں‘ ہمسایوں سے جنگ کے بجائے امن کا رویہ اختیار کریں‘ امن وامان کی طرف توجہ دیں‘ یاد رکھیں IMF جیسے ادارے غریب ممالک کے بجائے سامراجی ممالک کے مفادات کے لیے بنائے گئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔