پنجاب کا بدلتا منظر نامہ

مزمل سہروردی  پير 9 دسمبر 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پنجاب کا منظر نامہ بھی ایک فلم کی طرح ہی ہے جو بدلتا ہی رہتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اب تک جتنے حملے عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ پر ہوئے ہیں، ان کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ شاید اتنے حملے تو پی پی پی نے میاں منظور وٹو پر نہیں کیے تھے جتنے تحریک انصاف نے خود ہی اپنے وزیر اعلیٰ  پر کر دیے ہیں۔

لیکن دلچسپ بات تو یہ ہے کہ عثمان بزدار محاذ آرائی کا جواب محاذ آرائی سے نہیں دیتے۔ مخالفانہ بیانات کا جواب نہیں دیتے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ عثمان بزدار کی چپ اور حملوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت میں ہی ان کی فتح کا راز مضمر ہے۔ اس بار بھی ان کی خاموشی میں ہی ان کی جیت نظر آ رہی ہے۔

کچھ دوستوں کی رائے ہے کہ پنجاب کی بیوروکریسی میں حالیہ تبدیلیاں عثمان بزدار کو کمزور کرنے کی سازش ہیں۔ دوستوں کی رائے ہے کہ بیوروکریسی میں اتنے بڑی تعداد میں تبادلے دراصل عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد ہیں۔ تاہم میں ایسا نہیں سمجھتا۔ دوست یہ بھول جاتے ہیں کہ جب عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا تو پنجاب میں کے پی سے درآمد کر کے ناصر درانی کو وزیر اعلیٰ کا مشیر بنایا گیا تھا۔ انھیں یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ وہ پنجاب پولیس میں ایسی اصلاحات کریں گے کہ پنجاب پولیس کے پی پولیس بن جائے۔

میں نے تب بھی لکھا تھا کہ پنجاب کے پی نہیں ہے۔ کے پی میں جرگہ اور قبائلی نظام کی وجہ سے پولیس کا کردار بہت محدود ہے جب کہ پنجاب میں نہ تو کوئی قبائلی نظام ہے اور نہ ہی کوئی جرگہ  سسٹم۔ اسی لیے ناصر درانی چار ہفتے  بعد ہی اپنے پسندیدہ آئی جی کو لے کرمستعفی ہو گئے۔ یہ واقعہ تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے پنجاب کو ایک تجربہ گاہ بنایا ہوا ہے۔ حالیہ تبدیلیاں بھی اسی تجربہ گاہ سے آنے والے نئے تجربات ہیں۔ جس طرح پہلے تجربات ناکام ہو ئے اس کے ناکام ہونے کے بھی قوی امکانات ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ایک سیاسی نظام میں کیا بیوروکریسی کو فری ہینڈ دیکر کام چل سکتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا۔ ویسے تو حالیہ تبدیلیوں میں بھی طاقت کے مراکز کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ چوہدری خاندان کی سیاسی طاقت کے سامنے مکمل سرنگوں کرتے ہوئے جہاں پورے پنجاب کی بیوروکریسی کو آگے پیچھے کیا گیا ہے وہاں ان کے اضلاع گجر ات اور منڈی بہاؤ الدین کو بالکل نہیں چھیڑا گیا۔

اسی طرح پولیس میں ڈی پی او اٹک کے تبادلے کی منسوخی کی کہانی بھی زبان زد عام ہے۔ ویسے تو ڈی سی او چکوال کے تبادلے کی منسوخی کی کہانی بھی میرٹ سسٹم کے بیانیہ کی ساری کہانی بیان کر رہی ہے۔ دوست یہ بھول جاتے ہیں کہ عثمان بزدار نے جب سے وزارت اعلیٰ سنبھالی ہے انھوں نے بڑے چھوٹے تبادلے بنی گالہ کی مشاورت سے ہی کیے ہیں۔ اس ضمن میں وہ پہلے بھی احتیاط سے ہی کام لیتے تھے۔ اس لیے ان نئی تبدیلیوں سے عملی طور پر عثمان بزدار کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ پہلے بھی لوگ بنی گالہ کی مرضی سے ہی لگے ہوئے تھے۔

عثمان بزدار شہباز شریف نہیں ہیں۔ شہباز شریف مرکز سے علیحدہ اپنی الگ ٹیم بنانے پر یقین رکھتے تھے جب کہ عثمان بزدار بنی گالہ کی ٹیم کے ساتھ ہی کھیلنے پر یقین رکھتے ہیں۔ شاید اب جو لگے ہیں ان کی طاقت کا مرکز بنی گالہ نہیں ہے۔ اسی حقیقت میں تبدیلیوں کی ساری کہانی مضمر ہے۔ شاید دوست اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ باقی جو لوگ عثمان بزدار کی جیت ہار کا فیصلہ کر رہے ہیں وہ ان سورماؤں سے بھی پوچھ لیں جن کی دوبارہ حلف کے لیے شیروانیاں اس بار بھی تیار ہی رہ گئی ہیں۔ ان سے بھی پوچھ لیں جو وزیر اعلیٰ بننے کے چکر میں اپنی پہلی وزارتوں کے محکموں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس طرح اب تک عثمان بزدار سے جو بھی ٹکرایا ہے اس کی ترقی کے  بجائے تنزلی ہی ہوئی ہے۔

میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ عثمان بزدار کی کارکردگی پاکستان کی چاروں صوبائی اور مرکزی حکومت سے بہتر ہے۔ مشکل یہ ہے کہ تحریک انصاف اپنی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے خود ہی اس کارکردگی کو بیان نہیں کرتی۔ شاید کہیں نہ کہیں تحریک انصاف کو اس غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ اسی لیے تو فیاض الحسن چوہان دوبارہ وزیر اطلاعات بننے کے بعد بدلے بدلے نظر آ رہے ہیں۔ اب وہ عثمان بزدار کی کارکردگی بیان کر رہے ہیں۔ یہ تحریک انصاف میں مثبت تبدیلی ہے۔ ویسے بھی بہت دیر سے لیکن بالآخر عمران خان نے بھی عثمان بزدار کو اپنی کارکردگی کی تشہیر کی اجازت دے دی ہے۔ لیکن اس بار فیاض الحسن چوہان کارکردگی بتا رہے ہیں۔ انھیں قومی سیاست پر بہت کم بات کرنی چاہیے۔ صرف پنجاب کی کارکردگی پر بات کرنی چاہیے۔ اسی میں تحریک انصاف کی بہتری ہے۔

یہ تحریک انصاف کی بدقسمتی ہے کہ وہ آج تک پنجاب کی عوام کو یہ نہیں بتا سکی ہے کہ عثمان بزدار نے پنجاب کے ہر ضلع میں الگ یونیورسٹی بنانا شروع کر دی ہیں۔ کیا ہمیں یاد نہیں پہلے پنجاب بھر سے طلبا و طالبات پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لیے لاہور آتے تھے۔ لیکن اب پنجاب کے ہر ضلع کی اپنی الگ یونیورسٹی ہو گی۔ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ پہلے جب گزشتہ دور میں سڑکوں اور پلوں پر توجہ دی جا رہی تھی۔ جب میٹروز اور اورنج لائن بنائی جا رہی تھیں۔ تو تحریک انصاف کا بیانیہ ہی یہ تھا کہ یہ پیسہ صحت اور تعلیم پر خرچ ہونا چاہیے۔

عثمان بزدار نے تحریک انصاف کی اسی سو چ کو عملی شکل دی ہے۔ ان میں سات نئی یونیورسٹیوں کے ایکٹ پنجاب اسمبلی سے پاس ہو گئے ہیں۔ ان پر کام شروع ہو گیا ہے۔ کیا پنجاب میں سات نئی یونیورسٹیوں پر پہلے پندرہ ماہ میں کام کوئی معمولی کارکردگی ہے۔ یہ تحریک انصاف کی ناکامی ہے کہ ن لیگ نے ایک نا مکمل اورنج لائن کو اپنی بڑی کامیابی بنا لیا جب کہ پندرہ ماہ میں سات نئی یونیورسٹیوں کو تحریک انصاف عوام میں کامیابی ثابت نہیں کر سکی ہے۔ ہر ضلع میں یونیورسٹی سے پنجاب میں جو تعلیمی انقلاب لائے گا۔

اس کا ابھی اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لیکن لگتا ہے شاید تحریک انصاف کو بھی اس کا اندازہ نہیں ہے۔ اسی لیے تو خاموشی ہے۔ اپوزیشن کی اس پر خاموشی قابل فہم ہے لیکن تحریک انصاف کی خاموشی نا قابل فہم ہے۔ یہ کیا منطق ہے کہ تین میٹروز اور ایک نا مکمل اور نج لائن شہباز شریف کو پنجاب کا کامیاب وزیر اعلیٰ تو بنا سکتی ہیں لیکن پنجاب کے ہر ضلع میں یونیورسٹی کا منصو بہ اور پندرہ ماہ میں سات یونیورسٹیاں عثما ن بزدار کی کارکردگی نہیں ہیں۔ اگر پندرہ ماہ کی کارکردگی کا ہی حساب کرنا ہے تو پاکستان کے کس صوبہ میں وزیر اعلیٰ نے صوبہ کے ہر ضلع میں یونیورسٹی بنانے کا اعلان کرتے ہوئے پہلے پندرہ ماہ میں سات یونیورسٹیوں کی قانون سازی مکمل کر کے کام شروع کر دیا ہے۔ شاید مرکز میں بھی ایسا ممکن نہیں ہوا ہے۔

ویسے تو پندرہ میں سے پنجاب میں سولہ سرکاری یونیورسٹیوں کے وی سی میرٹ پر لگائے گئے ہیں۔ ورنہ اس سے پہلے تو سرکاری یونیورسٹی کے وائس چانسلرز کی تعیناتیوں کے اسکینڈل زبان زد عام رہے ہیں۔ ان پر عدالتوں میں کیسز اور کہانیاں کس کو یاد نہیں۔ لیکن ان پندرہ ماہ میں سولہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اس خاموشی سے لگا دیے گئے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ نہ کوئی نہ کوئی اسکینڈل۔ ویسے یہ بتانا غیر ضروری ہو گا کہ وائس چانسلر کی تعیناتی میں وزیر اعلیٰ کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ ورنہ میرے دوست کہیں یہ نہ کہہ دیں کہ اس میں بھی عثمان بزدار کا کوئی کمال نہیں۔

بات صرف سات یونیورسٹیوں کی ہی نہیں بلکہ پنجاب میں نو نئے اسپتال بنانے پر بھی کام شروع ہوا ہے۔ جس پر بھی کوئی شور نہیں۔ بس وہ بننے شروع ہو گئے ہیں۔ 43 نئے کالج بھی بن رہے ہیں۔ 194 دیہی اسپتالوں میں 24گھنٹے سروس شروع کر دی گئی ہے۔ ورنہ دیہات کے اسپتال تو دن میں ہی بمشکل کام کرتے تھے۔ اس سب کے باجود پنجاب کا منظر نامہ دھندلہ ہے۔ لوگوں کو اس میں کام نظر نہیں آ رہا۔ دوست پنجاب کا منظر نامہ بدلنے پر مضر ہیں۔ اور انھیں نئے منظر نامہ میں عثمان بزدار کمزور نظر آ رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔