طبی شعبے میں ایک بڑی کامیابی

ظہیر اختر بیدری  پير 3 ستمبر 2012
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

65 سال گزرنے کے باوجود ہمارے ملک کے تحقیقی شعبوں میں سنّاٹا طاری رہا، اس سنّاٹے کو ہمارے شعبۂ طب کے ایک ماہر ڈاکٹر طاہر شمسی نے خون کے کینسر کا سبب بننے والی جین دریافت کرکے توڑا ہے۔

این آئی بی ڈی کے زیر اہتمام ڈاکٹر طاہر شمسی کی زیر قیادت ایک ٹیم نے چار سالہ کوششوں کے بعد دنیا کے سب سے بڑے موذی مرض بلڈ کینسر کی وہ جین دریافت کرلی ہے جو کینسر کا سبب بنتی ہے۔ دنیا کی خطرناک ترین بیماریوں میں کینسر سب سے زیادہ خطرناک اور ناقابل علاج مرض تسلیم کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے طبی شعبوں کے ماہرین کئی عشروں سے اس مرض کا علاج دریافت کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اس حوالے سے ابھی تک انھیں ایسی حتمی کامیابی نصیب نہیں ہوئی جو کینسر سے چھٹکارا دلاسکے۔

اس پس منظر میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز کی یہ کامیابی اس حوالے سے ایک قابلِ فخر کارنامہ ہے بلکہ اگر ڈاکٹر طاہر شمسی کے مطابق بلڈ کینسر کی دوا تیار کرلی جاتی ہے تو نہ صرف پاکستان کے بلڈ کینسر میں مبتلا ہزاروں انسانوں کا مکمل علاج ممکن ہوجائے گا بلکہ دنیا کے کروڑوں بلڈ کینسر کے مریض بھی اس انتہائی مہلک مرض سے نجات حاصل کرسکیں گے۔

اس تحقیق کے مطابق خون کا کینسر FLT3 جین میں خرابی کے سبب پیدا ہوتا ہے۔ اب تک اس مرض کا علاج کیمو تھراپی کے ذریعے کیا جاتا رہا ہے جس کا فائدہ مشکل سے 10 فیصد مریضوں کو ہورہا ہے۔ اب نئی تحقیق کے مطابق فلٹ تھری جین میں پیدا ہونے والی خرابی کو دوائوں کے ذریعے دورکیا جاسکتا ہے اور طاہر شمسی کے مطابق اس دوا کی تیاری کا کام شروع کردیا گیا ہے۔

یہ دوا جین میں پیدا ہونے والی خرابی کو دور کرکے جسم میں تازہ خون پیدا کرنے کی راہ ہموار کردے گی۔ خون کے کینسر کی دو قسمیں ہوتی ہیں جنھیں ALL اور AML کا نام دیا گیا ہے۔ نئی تحقیق کے مطابق ممکنہ طور پر تیار ہونے والی دوا سے دونوں قسم کے کینسر کا علاج ممکن ہوجائے گا۔ اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو بلاشبہ ہم اسے پاکستان کے این آئی بی ڈی کی ایک تاریخی کامیابی کہہ سکتے ہیں۔

دنیا میں بہت سارے مرض ایسے رہے ہیں جن کا کوئی علاج نہ تھا۔ ان میں ٹی بی، ہیضہ، طاعون، دل کی بیماریاں، پولیو وغیرہ شامل ہیں۔ ان بیماریوں کو بھی لاعلاج سمجھا جاتا تھا لیکن اب ان بیماریوں کا علاج دریافت کرلیا گیا ہے۔ ٹی بی کا علاج بیسویں صدی کے اوائل میں بھی حتمی طور پر دریافت نہیں کیا جاسکا تھا۔ جناح صاحب اسی مرض میں مبتلا تھے اور اسی مرض نے ان کی جان لے لی لیکن اب ٹی بی کا مکمل، سستا اور آسان علاج دریافت کرلیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ مرض اب مہلک نہیں رہا۔

اسی طرح ہیضہ، طاعون، پولیو وغیرہ جیسی بیماریوں کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ لیکن بے انتہا غربت اور غلیظ پانی اور ناقص غذا کی وجہ سے ہیضہ جیسی بیماریاں اب بھی پیدا ہورہی ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق افریقہ کے بعض ملکوں میں ہیضہ ایک وبا کی شکل اختیار کررہا ہے۔

ہزاروں سال تک بہت ساری بیماریوں کو توہم پرستی کے نقطہ نظر سے دیکھا جاتا رہا۔ اس کی بڑی وجہ بیماریوں کے حوالے سے انسان کی لاعلمی تھی۔ انسان ہر اس مصیبت کو جس کی روک تھام اس کے بس میں نہ تھی، آسمانی قہر سے تعبیر کرتا رہا اور اس کا علاج ڈھونڈنے کے بجائے اپنے گناہوں کی معافی تلافی میں لگا رہا، اگرچہ اب دنیا میں یہ کلچر ختم ہوگیا ہے لیکن پاکستانی معاشرے میں ابھی تک زلزلوں، سیلابوں، طوفانوں کو خدائی قہر کہنے کی روایت جاری ہے اور بدقسمتی سے ’’پڑھا لکھا‘‘ طبقہ بھی ابھی تک ان آفات کو خدا کے قہر سے تعبیر کرکے انسانوں کو توبہ استغفار کی ہدایت کرتا نظر آتا ہے۔

لاعلمی یا علم کی کمی کی وجہ سے جنم لینے والی ایسی روایات کو جہل اور ذہنی پس ماندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے، لیکن ہمارے خیال میں یہ جہل ہے، نہ ذہنی پس ماندگی بلکہ جدید علوم سے لاعلمی ہے۔ اصل جہل اور ذہنی پس ماندگی جدید علوم سے آگہی کے باوجود ان آفات کو خدا کا قہر قرار دینا ہے۔ اس قسم کے رجحانات عموماً قبائلی معاشروں میں پائے جاتے ہیں لیکن اسے ہم اپنی بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ اس قسم کے رجحانات تعلیم یافتہ طبقوں میں بھی موجود ہیں۔

پاکستان کا شمار ان پس ماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں 40 فیصد سے زیادہ انسان غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اس کی بڑی وجہ ہمارا طبقاتی نظام ہے جس میں دو فیصد آبادی اسّی فیصد دولت پر قابض ہے لیکن ایسے پس ماندہ ملکوں میں بھی تعلیم اور تحقیق کے شعبوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک پر وہ اشرافیہ 65 برسوں سے قابض ہے جسے تعلیم اور تحقیق جیسے شعبوں سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ اس کی دلچسپی کا مرکز ہمیشہ قومی دولت کی لوٹ مار رہا ہے۔

ان دو اہم شعبوں کو جب تک بھرپور وسائل فراہم نہیں کیے جاتے اور ایک جامع اور منصوبہ بند طریقے سے ان شعبوں کی سرپرستی نہیں کی جاتی، ہمارا ملک پس ماندگی کے دلدل سے باہر نہیں آسکتا۔ حکومتوں کی بے توجہی کے اس پس منظر میں بلڈ ڈیزیز کے ماہرین نے بلڈ کینسر کے حوالے سے جو کامیاب تحقیق کی ہے، وہ یقیناً قابلِ تعریف اور قابلِ فخر ہے۔

دنیا نے شعبۂ طب میں ناقابلِ یقین کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان خطرناک بیماریوں کا علاج اس قدر مہنگا ہے کہ عام آدمی اس علاج کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس کی مثال ہارٹ سرجری اور کیمو تھراپی وغیرہ ہے جس پر لاکھوں روپے خرچ آتا ہے۔

یہ حکومتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ ان مہنگے ترین علاجوں کی سہولتیں عوام کو مفت فراہم کرے لیکن ہماری اور دنیا کی حکومتوں نے اس ذمے داری کو قبول کرنے کے بجائے اسے خیراتی اداروں کے حوالے کردیا ہے اور باعزت علاج کے حق دار عوام کو تحقیر آمیز طریقے سے خیراتی اداروں سے علاج حاصل کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس ذلّت آمیز روایات کو ختم ہونا چاہیے اور ہر بیماری کا مفت سرکاری سطح پر علاج ہونا چاہیے۔ ہم یہ امید کرنے میں حق بجانب ہیں کہ بلڈ کینسر کی دوا کی قیمت عام آدمی کی پہنچ میں ہوگی اور سرکاری اداروں میں یہ علاج مفت مہیا کیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔