کیا آپ تیزی سے بوڑھے ہورہے ہیں؟ بلڈ ٹیسٹ سے معلوم کیجیے!

ویب ڈیسک  پير 9 دسمبر 2019
ہمارے خون میں سے تمام خلیات الگ کرلیے جائیں تو بچ رہنے والا مائع ’’خوناب‘‘ یا ’’بلڈ پلازما‘‘ کہلاتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہمارے خون میں سے تمام خلیات الگ کرلیے جائیں تو بچ رہنے والا مائع ’’خوناب‘‘ یا ’’بلڈ پلازما‘‘ کہلاتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کیلیفورنیا: امریکی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے خون کا ایک ایسا ٹیسٹ وضع کرلیا ہے جس سے خوناب (بلڈ پلازما) کی بنیاد پر یہ پتا چلایا جاسکتا ہے کہ کوئی فرد کس تیزی سے بڑھاپے کا شکار ہورہا ہے۔

یہ ٹیسٹ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کیونکہ بعض لوگ اپنی ظاہری عمر کے مقابلے میں اندرونی طور پر زیادہ عمر رسیدہ ہوتے ہیں اور کچھ لوگ اندرونی طور پر خاصے جوان اور چاق و چوبند ہوتے ہیں۔

واضح رہے کہ اگر ہمارے خون میں سے تمام خلیات الگ کرلیے جائیں تو بچ رہنے والا مائع ’’خوناب‘‘ یا ’’بلڈ پلازما‘‘ کہلاتا ہے۔ اس میں خلیے (سیلز) تو نہیں ہوتے لیکن ہزاروں اقسام کے پروٹین کی بڑی تعداد اس مائع میں تیر رہی ہوتی ہے۔ ان ہی پروٹینز کا تجزیہ کرکے انسانی صحت کے بارے میں بہت سی اہم معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔

یونیورسٹی آف کیلی فورنیا اور اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں ماہرین کی ایک مشترکہ ٹیم نے بلڈ پلازما کے ذریعے مختلف امراض و کیفیات کی تشخیص کے لیے 4200 رضا کاروں سے خوناب (بلڈ پلازما) حاصل کیا۔ ان رضا کاروں کی عمریں 18 سے 95 سال کے درمیان تھیں۔

ماہرین کو اس وقت شدید حیرت ہوئی کہ 373 پروٹین اور عمر رسیدگی (بڑھاپے) میں تعلق واضح تھا۔ اگرچہ مختلف امراض کی تشخیص کےلیے خون میں پروٹین کی مقدار معلوم کرنا کوئی نیا طریقہ نہیں لیکن تازہ تحقیق میں ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ بعض پروٹین ایسے ہوتے ہیں جن کی خوناب میں مقدار ادھیڑ عمری اور بڑھاپے کے دوران واضح طور پر بڑھ جاتی ہے۔

خوناب میں پروٹین کی مقدار میں تبدیلی مسلسل نہیں ہوتی بلکہ یہ بالترتیب 34، 60 اور 78 سال کی عمر میں زیادہ ہوجاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خون میں ان پروٹین کی مقدار مدنظر رکھتے ہوئے یہ معلوم کیا جاسکے گا کہ کوئی شخص اپنی ظاہری عمر کے مقابلے میں تیزی سے بوڑھا ہورہا ہے یا آہستگی سے۔

عمر رسیدگی کی رفتار کا تعین ہونے کے بعد کسی بھی شخص کو اس کی ’’حقیقی حیاتیاتی عمر‘‘ کے حساب سے دوائیں دی جاسکیں گی۔

اس تحقیق کی تفصیلات اور حاصل شدہ نتائج ریسرچ جرنل ’’نیچر میڈیسن‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔