کنگ آرتھر

جاوید چوہدری  منگل 10 دسمبر 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

کنگ آرتھر2017ء کی سپر فلاپ فلم تھی‘ یہ فلم 175 ملین ڈالر میں بنی‘ ڈائریکٹر گیے رچی تھا‘ پروڈیوسروں میں چھ بزنس مین شامل تھے‘ اسکرین پلے جوبی ہیرلڈ نے لکھا‘ اسٹوری ڈیوڈ ڈبکن نے دی اور اداکاروں میں چارلی ہانیم‘ فرسیبی اور ہونسو جیسے لوگ شامل تھے‘ میوزک ڈینل پیمبرٹن نے دیا تھا اور پروڈکشن اور ڈسٹری بیوشن وارنر بروز نے کی چناں چہ آپ ڈسٹری بیوشن‘ ڈائریکٹر اور کاسٹ سے بجٹ تک فلم کو جس بھی اینگل سے دیکھیں یہ آپ کو پرفیکٹ دکھائی دے گی لیکن یہ جب سینما میں پہنچی تو اس نے فلاپ ہونے کے تمام ریکارڈتوڑ دیے۔

سینما میں جو بھی آیا وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر واپس گیا‘ لوگ فلم کا بورڈ دیکھ کر سینما کے قریب سے بھی نہیں گزرتے تھے‘ وارنر بروز جیسے پروڈیوسر اور ڈسٹری بیوٹرز کے لیے ڈوب مرنے کا مقام تھا چناں چہ کمپنی نے ہار نہ ماننے کا فیصلہ کر لیا‘ اس نے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کااعلان کر دیا‘ کمپنی نے خزانے کے دروازے کھول دیے‘ فلم بھاری سرمائے اور ایڈورٹائزنگ کے ساتھ چین میں ریلیز کی گئی مگر یہ وہاں بھی پٹ گئی‘ آسٹریلیا اور برطانیہ میں بھی کوشش کی گئی۔

لندن کی تمام بسوں‘ انڈر گراؤنڈ اسٹیشنوں اور اخبارات میگزینز میں اشتہارات لگا دیے گئے لیکن یہ اس کے باوجود کام یاب نہیں ہو سکی‘ وارنر بروز نے فلم کی کاسٹ کو دنیا کے 18 بڑے شہروں میں مارچ بھی کرائے لیکن لوگوں نے اس کے باوجود فلم دیکھنے سے انکار کر دیا‘ کمپنی نے فلم کام یاب کرانے کے لیے اپنی تمام فلموں کی ریلیز روک لی‘ سینماؤں سے چلتی فلمیں بھی اتارلی گئیں‘ کمپنی نے اپنے تمام سینماؤں میں بھی فلم چلا کر دیکھ لی اور وارنر بروز نے آخر میں مشرقی یورپ کے ملکوں کی حکومتوں کے ساتھ مل کر لوگوں کو یہ فلم زبردستی دکھانے کی کوشش بھی کر لی مگر شائقین نے اس کے باوجود یہ فلم نہیں دیکھی چناں چہ پھر کنگ آرتھر کو موسٹ فلاپ فلم آف آل ٹائم ڈکلیئر کر دیا گیا۔

پروڈیوسروں میں شامل دو کمپنیاں دیوالیہ ہو گئیں جب کہ باقی چار غریب ہوگئے‘ وارنر بروز نے بھی خوف ناک نقصان اٹھایا‘ یہ دیوالیہ نہیں ہوئی لیکن اس کا بے شمار پیسہ‘ وقت اور توانائی برباد ہو گئی‘ اس کا سی ای او بھی فائر ہو گیا‘ وارنر بروز کی نئی سی ای او این سرنوف نے بعد ازاں اس سپر فلاپ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا‘ میں نے کنگ آرتھر کی کیس اسٹڈی سے اندازہ لگایا دنیا میں جس فلم نے نہیں چلنا اس نے نہیں چلنا چناں چہ اس پر مزید وقت‘ توانائی اور پیسہ برباد نہیں کرنا چاہیے‘ کنگ آرتھر نہیں چلی تاہم ہمارے لیے یہ بھی اعزاز کی بات ہے دنیا کی سپر فلاپ فلم بھی بالآخر ہماری ہی تھی‘ دنیا کا کوئی شخص‘ کوئی ادارہ ہم سے یہ اعزاز نہیں چھین سکتا۔

کنگ آرتھر اور ملک کی موجودہ حکومت میں زیادہ فرق نہیں‘ کنگ آرتھر کو چلانے کے لیے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا تھا اورحکومت نے بھی ملکی اور غیر ملکی تمام سہولت کاروں کے چھکے چھڑا دیے ہیں‘نئے پاکستان کو ہلانے کے لیے سارے ہی کام کرکے دیکھ لیا گیا‘ میڈیا تک اٹھا کر حکومت کی جیب میں ڈال دیا گیا‘ اپوزیشن کے ہاتھ اور پاؤں بھی باندھ دیے گئے‘ عالمی برادری نے بھی کھل کر مدد کی‘ الطاف حسین رکاوٹ تھے‘ یہ رکاوٹ گرا دی گئی‘ نواز شریف چیلنج تھے ‘یہ الیکشن سے پہلے جیل پہنچا دیے گئے۔

مریم نواز پاپولر ہو گئیں‘ یہ بھی جیل میں بند کر دی گئیں‘ پنجاب شہباز شریف کو بھلانے کے لیے تیار نہیں تھا‘ شہباز شریف بھی کیس پر کیس بھگتنے لگے‘ شاہد خاقان عباسی کی حق گوئی بھی حکومت کو نقصان پہنچا رہی تھی‘ یہ بھی پابند سلاسل ہو گئے‘ رانا ثناء اللہ منہ پھٹ تھے‘ یہ بھی ایک ایسے کیس میں جیل پہنچا دیے گئے جسے دوست تو دوست دشمن بھی حقیقت ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ سرمائے کا بحران آیا تو سعودی عرب اور یو اے ای سے رقم لے دی۔

بیلنس آف پے منٹ کا مسئلہ بنا تو آئی ایم ایف سے قرض لے لیا‘ وزیراعظم کو ڈونلڈ ٹرمپ تک بھی پہنچا دیا گیا اور چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ بھی بٹھا دیا گیا‘ عمران خان کو سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کا موقع بھی دے دیا گیا‘ حکومت کے فرمان پر حکومت کے تمام مخالفوں کو اٹھا کر جیلوں میں ڈال دیا گیا‘ رضا باقر‘ حفیظ شیخ اور ڈاکٹر ظفر مرزا جیسے ایکسپرٹس بھی امپورٹ کر کے حکومت کے حوالے کر دیے گئے اور ہم اگر اس کھیل میں حکومت سے پہلے کی انجینئرنگ بھی شامل کر لیں تو تمام سیاسی جماعتوں کے ہیرے نکال کر بھی پاکستان تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دیے گئے تھے۔

آپ کو آج کابینہ کے نوے فیصد ارکان دوسری جماعتوں کے تاجوں کے ہیرے نظر آتے ہیں لیکن افسوس اس کے باوجود حکومت نہیں چل پا رہی‘ میں اس میں ہرگز ہرگز عمران خان کو قصور وار نہیں سمجھتا‘ یہ ایک عظیم لیڈر اور مدبر ہیڈ آف اسٹیٹ ہیں‘ اللہ تعالیٰ نرگسوں کی ہزار ہزار سال کی گریہ وزاری کے بعد قوموں کو ایسے لیڈر عنایت کرتا ہے‘ یہ ہم بدقسمت لوگ ہیں جو آج تک انھیں سمجھ نہیں سکے‘ جو اپنے عظیم قائد کے وژن کو دیکھ نہیں پا رہے۔

ہم عمران خان جیسے عظیم لیڈر کو ڈیزرو نہیں کرتے لہٰذا اگر عمران خان کسی وقت ہم سے مایوس ہو کر ہمیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں تو بھی اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہوگا‘ہم لوگ ان کے قابل ہی نہیں ہیں لیکن اس اعتراف کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے یہ حکومت چلتی ہوئی نظر نہیں آ رہی‘ اس کے سارے ’’وارنر بروز‘‘ بھی اب تھک گئے ہیں لیکن یہ بے چارے اب کچھ کر نہیں پا رہے‘ ان کی ٹانگیں حکومت کے ساتھ بندھ گئی ہیں‘ حکومت بیٹھتی ہے تو یہ بھی بیٹھ جائیں گے لہٰذا یہ اسے ہر قیمت پر چلانا چاہتے ہیں لیکن حکومت نے نہ چلنے کی قسم کھا رکھی ہے‘ یہ ڈٹ کر کھڑی ہے اور اس ڈٹنے کا کیا نتیجہ نکلے گا! یہ سوچ کر وارنر بروز‘ حکومت اور عوام تینوں کو پسینہ آ جاتا ہے مگر اس پسینے کے باوجود کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔

ہم اگر سیاسی شطرنج دیکھیں تو ہمیں بادشاہ‘ ملکہ‘ قلعے‘ ہاتھی اور گھوڑے بظاہر تگڑے دکھائی دیں گے‘ ہر چال کا نتیجہ دوسرے کی مات کی شکل میں نکل رہا ہے‘ ساری اپوزیشن اندر ہے‘ اب خواجہ آصف‘ احسن اقبال اور جاوید لطیف کی باری ہے‘ یہ بھی خاموش ہو جائیں گے لیکن اس کے باوجود فضا میں اندیشوں کی اسموگ موجود ہے۔

حالات نارمل نہیں ہیں‘ مولانا فضل الرحمن کا آنا‘ ان کا اعتماد اور پھر انھیںروکا نہ جانا یہ بلاوجہ نہیں تھا‘ مولانا کا پورے اعتماد کے ساتھ واپس جانا بھی نارمل نہیں‘ حکومت کی بھرپور مخالفت کے باوجود میاں نواز شریف کا علاج کے لیے ملک سے چلے جانا‘ میاں شہباز شریف کا لندن میں ڈیرہ لگا لینا‘آصف علی زرداری کا ضمانت کی درخواست دے دینا‘ آشیانہ ہاؤنگ کیس میں نیب کو سپریم کورٹ میں مار پڑنا‘ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے ایشو پر سپریم کورٹ کا فیصلہ (تفصیلی فیصلہ بھی چند دن میں آ جائے گا ) اور اب مریم نواز کی باہر جانے کی درخواست یہ تمام چیزیں نارمل نہیں ہیں۔

اندر ہی اندربہت کچھ پک رہا ہے اور یہ بہت کچھ کسی بھی وقت باہر آ جائے گا‘ مریم نواز نے تین دن پہلے والد کی عیادت کے لیے باہر جانے کی درخواست لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائی تھی لیکن فیصل واوڈا نے دو ہفتے پہلے کہنا شروع کردیا تھا ’’ہم مریم نواز کو نہیں نکلنے دیں گے‘‘ فیصل واوڈا کو کیسے پتا چلا مریم نواز ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست دیں گی اور عدالت یہ درخواست حکومت کے پاس بھجوا دے گی؟ فیصل واوڈا کا انکشاف معاملے کو گھمبیر بنا رہا ہے اور پھر مولانا فضل الرحمن‘ بلاول بھٹو اور ن لیگ کا ’’ان ہاؤس تبدیلی‘‘ پر اکٹھے ہو جانا یہ بھی ہوائی نہیں لہٰذاہم مانیں یا نہ مانیں لیکن ہواؤں کا رخ واقعی بدل رہا ہے۔

یہ رخ نواز شریف کے ایشو سے مڑنا شروع ہو گیاتھا‘ پی ٹی آئی کے وزراء میاں نواز شریف کے باہر جانے کے خلاف تھے‘ فیصل واوڈا نے کابینہ کے اجلاس میں کہہ دیا تھا ’’میاں نواز شریف اگر مرتے ہیں تو مرجائیں لیکن ہمیں اپنے نظریے کی قربانی نہیں دینی چاہیے‘‘ یہ آصف علی زرداری کو بھی ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے کے مخالف ہیں‘ یہ مریم نواز کا نام ’’ای سی ایل‘‘ سے ہٹانے کی بھی بھرپور مخالفت کریں گے لیکن اگر آصف علی زرداری اور مریم نواز اس کے باوجود ملک سے باہر چلی جاتی ہیں تو اس کا کیا مطلب ہو گا؟ کیا یہ نہ سوچا جائے حکومت کے اختیارات  محدود ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

یہ اب کسی کا نام ای سی ایل میں بھی نہیں رکھ سکتی‘ حکومتی وزراء اب اپنی پرائیویٹ محفلوں میں برملا تسلیم کرتے ہیں ہم نہیں چاہتے اپوزیشن آرمی چیف کی ایکسٹینشن کی قانون سازی پر ہمارا ساتھ دے‘ ان کا خیال ہے اپوزیشن اس ووٹ کے ذریعے سیٹلمنٹ کے مزید قریب ہو جائے گی اور یوں میاں شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے امکانات بڑھ جائیں گے‘ وزیراعظم اور کابینہ میاں شہباز شریف کو اپنے لیے اصل خطرہ سمجھتی ہے چناں چہ حکومت کی کوشش ہے ن لیگ آرمی چیف کی ایکسٹینشن پر حکومت کی مخالفت کر دے یوں دوریاں بڑھ جائیں گی اور حکومت کو مزید وقت مل جائے گا۔

آپ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت کے رویے کا جائزہ لے لیں تو آپ کو اس تھیوری میں جان نظر آئے گی‘ حکومت روز اپوزیشن بالخصوص میاں شہباز شریف کو چڑانے کی کوشش کرتی ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ حکومت نہیں چاہتی میاں شہباز شریف مضبوط ہو جائیں جب کہ دوسری طرف اپوزیشن اس قانون سازی کو سنہری موقع سمجھ رہی ہے‘ یہ اس کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے‘ یہ اپنی حمایت کے بدلے ان ہاؤس تبدیلی کرانا چاہتی ہے۔

یہ کوشش کر رہی ہے ایک ایسی حکومت بنا دی جائے جو پاکستان تحریک انصاف سے زیادہ فرمانبردار اور مہربان ہو اور پرفارمنس اور گورننس میں بھی اس حکومت سے آگے ہو‘ یہ ماڈل سب کو سوٹ کرتا ہے لیکن اس میں صرف ایک کانٹا ہے اور وہ کانٹا ہے نواز شریف‘ ان کے ہوتے ہوئے یہ ماڈل نہیں بن سکے گا اور میاں نواز شریف کیا سوچ رہے ہیں یہ کوئی نہیں جانتاتاہم یہ طے ہے یہ حکومت کنگ آرتھر ہے اور اس کنگ آرتھر نے نہیں چلنا‘ یہ اترے ہی اترے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔