دعا منگی کا اغوا اور گھر واپسی

ایڈیٹوریل  منگل 10 دسمبر 2019
شہرمیں دندناتے مجرموں کا دیدہ دلیری سے لڑکیوں کو اغوا کرنا ظاہرکرتا ہے کہ قانون کا خوف مجرموں کے دل سے اٹھ چکا ہے۔ فوٹو:فائل

شہرمیں دندناتے مجرموں کا دیدہ دلیری سے لڑکیوں کو اغوا کرنا ظاہرکرتا ہے کہ قانون کا خوف مجرموں کے دل سے اٹھ چکا ہے۔ فوٹو:فائل

کراچی شہر میں لاقانونیت اور پولیس کی روایتی بے حسی اور ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت 19سالہ دعا منگی کا اغوا ہے، تاوان کی ادائیگی کے بعد لڑکی گھر واپس پہنچی ہے۔ یہ واقعہ شہرکے پوش ترین علاقے ڈیفنس میں پیش آیا۔ تمام والدین اپنی بیٹیوں کے حوالے سے اس اغواء کی واردات کے بعد مزید خوفزدہ ہوئے۔

میڈیا نے اس کیس کو ہائی لائٹ کیا تو دعا منگی کے لیے کلفٹن تین تلوار پر مظاہرے بھی کیے گئے، جس میں دعا کے اہل خانہ ، تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی ، ایم کیو ایم تنظیمی بحالی کمیٹی کے سربراہ فاروق ستار اور سماجی رہنما جبران ناصر سمیت دیگر سیاسی وسماجی رہنما شریک ہوئے، جب سول سوسائٹی کا دباؤ بڑھا تو پولیس نے بھی نمائشی اقدامات اور تفتیش کا دائر کار بڑھانے اور ملزمان تک جلد پہنچنے کے بلند بانگ دعوے کردیے ۔

سات ماہ قبل اغوا ہونے والی لڑکی بسمہ اور دعا کے اغوا کے کیسز میں مماثلت بتائی جارہی ہے، بسمہ کو بھی بھاری تاوان کی ادائیگی کے بعد چھوڑا گیا تھا۔ ملزمان نے تاوان کی وصولی کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا۔ تفتیشی حکام اب ایک سوالنامہ ہاتھوں میں لیے گھوم رہے ہیں۔ یہ ابہام ختم ہونا چاہیے۔

دعا منگی واردات میں استعمال گاڑی چھیننے سے اغوا تک کی تفتیش اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ ، اینٹی وائلنٹ کرائم سیل اور اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل کے دائرہ کار میں آتی ہے، لیکن ان سب کی کارکردگی کیس کو حل کرنے میں صفر رہی۔

شہرمیں دندناتے مجرموں کا دیدہ دلیری سے لڑکیوں کو اغوا کرنا اس بات کو ظاہرکرتا ہے کہ قانون کا خوف مجرموں کے دل سے اٹھ چکا ہے۔ پولیس کے پورے نظام کو اوور ہالنگ کی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے ایس واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔