کچھ ہے مگر ہے کیا کہیے

سعد اللہ جان برق  منگل 10 دسمبر 2019
barq@email.com

[email protected]

محترمہ فردوس عاشق اعوان یا شوکت یوسف زئی اور فوادچوہدری کچھ بھی کہیں۔لیکن ہمیں اپنے مدظلہ العالی حضرت مولانا فضل الرحمان قدس سرہ پر بھروسا ہے کہ وہ جو کچھ بولتے ہیں سچ بولتے ہیں اور سچ کے سوا اور کچھ نہیں بولتے ہیں اور وہ بھی کسی آئینی کتاب پر ہاتھ رکھے بغیر۔اور ہمیں اس پر پکا پکا یقین اس لیے ہے کہ آج تک انھوں نے بلکہ کسی بھی سیاسی لیڈر نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ہے جو بھی بولا ہے سچ بولا۔ اورسچ کے سوا۔۔۔۔اور ۔۔۔۔ہاتھ رکھے بغیر۔

چنانچہ اب کے جو انھوں نے بولا ہے کہ ہم اسلام آباد سے خالی ہاتھ نہیں لوٹے ہیں بلکہ ’’کچھ‘‘لے کر ہی آئے ہیں اور اس پر بھی ہمیں یقین اس لیے ہے کہ وہ کبھی خالی ہاتھ نہ رہے ہیں نہ رہتے ہیں نہ جاتے ہیں اور نہ لوٹتے ہیں۔ یہاں ایک لطیفہ دور سے دُم ہلا رہاہے لیکن ہم اسے ذرا بھی توجہ نہیں دیں گے کیونکہ اس میں کچھ دیکھ کر گرنے کی بات ہے۔اور مدظلہ العالی کے ساتھ ہم گرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ وہ رحمان بابا کی طرح

لکہ اونہ مستقیم پہ خپل مقام یم

کہ خزان راباندے راشی کہ بہار

یعنی میں کسی پیڑ کی طرح سیدھا کھڑا رہتاہوں چاہے خزاں آئے یا بہار۔اور یہ تشبیہ اس لیے انتہائی موزوں ہے کہ واقعی مضبوط پیڑوں پرخزاں وبہار کا اثر نہیں ہوتا، زیادہ سے زیادہ کچھ’’زرد پتے‘‘جھڑ جاتے ہیں لیکن پھر جلد ہی نئے نئے ’’سبزے‘‘نکال لیتے ہیں۔اب مسئلہ یہ ہے کہ وہ خالی ہاتھ نہیں لوٹے ہیں اور کچھ لے کر آئے ہیں تو وہ کیا ہے؟یعنی خبرکے پیچھے کیاہے ، چولی کے نیچے کیاہے  لیکن جو کچھ بھی ہے اس کے نیچے اور پیچھے کیاہے؟۔اب عوام کالانعام ہیں، ناسمجھ ہیں، جلدباز ہیں، ان کو تجسس ہے کہ وہ کیا ہوگا۔بلکہ کیاکیاہوگا یا کیاکیا ’’کچھ‘‘ہوگا۔

شفق دھنک مہتاب ہوائیں بجلی تارے نغمے پھول

اس دامن میں کیاکیا کچھ ہے وہ دامن ہاتھ آئے تو

ہمارے ایک رشتے دار باہر کے ملک سے لوٹے تو سب کسی نہ کسی چیز کی توقع کررہے تھے۔ ایک آزاد طبع دوست نے کہا، اچھا ہوا آپ خیر سے لوٹ آئے، ہم دعائیں کر رہے تھے کہ اﷲ سلامتی سے پہنچائے، نہ جانے ہمارے لیے کیاکیا لائے ہوں گے باقی لوگ ہمارے لیے ’’کیالائے ہو‘‘ کہہ رہے تھے اور وہ حضرت کیاکیا بلکہ سوالیہ لہجہ بنا کر ’’کیاکیاکچھ‘‘پوچھ رہے تھے۔

ہم بھی اس ’’کیاکیا کچھ‘‘ والوں میں سے ہیں لیکن اتنے بے صبرے بھی نہیں کہ خود آگے بڑھ کر تقاضا شروع کردیں،آخر اتنے تھک تھکا دینے والے مظاہرے سے لوٹے ہیں، کچھ تو آرام کر لینے دیجیے۔ ویسے ایک خطرہ توہے لیکن پھر بھی امید سے رہنا چاہیے۔ پشاور کا ایک نوجوان ہندوستان جارہاتھا۔ ہم نے اس پر کچھ احسان کیے تھے، اس کے شوق کے لیے اسے ٹی وی پر اداکاری کا موقع دیاتھا۔چنانچہ جب جارہاتھا تو ہم سے بولا ،آپ کے لیے کیالاوں۔ہم نے کہا بیٹے ویسے تو ہمیں وہاں کی بہت سی چیزیں بلکہ ’’چیزائیں‘‘درکار ہیں لیکن تمہارا وہاں تک پہنچنا مشکل ہے۔

جہاں وہ چیزائیں پائی جاتی ہیں۔ اس نے کہا نہیں آپ بتائیں میں کوشش کروں گا۔کہاں پائی جاتی ہیں وہ چیزیں؟ہم نے کہا ایک شہر ہے موم بائی اس میں ایک مقام گالی وڈ بس وہاں سے دوچار گالیاں لاکر دے دینا۔وہ سمجھ گیا تو ہم نے مزاق چھوڑ کر دوسو روپے اسے دیتے ہوئے کہا کہ وہاں ’’آم پاپڑ‘‘ملتے ہیں وہ لے آنا۔وہ چلا گیا۔ کافی دن بعد لوٹا کچھ روز انتظار کے بعد جب وہ خود نہیں آیا تو ہم گئے۔ پوچھا ہمارے آم پاپڑ لائے ہو۔آنکھیں نیچے کرتے ہوئے بولا ، سوری میں لایا توتھا۔لیکن تھکاہواتھا، اس لیے آتے ہی سوگیاتھا۔جاگا تو گھروالے سامان کھول چکے تھے اور بچے وہ سارے آم پاپڑ تقسیم کرکے کھاچکے تھے۔

اب یہ بڑی لمبی داستان ہے کہ پورے ایک سال میں ہم نے اس سے اپنے وہ دو سو روپے وصول کیے۔اب کے جو کچھ بھی حضرت مدظلہ العالی لائے ہوں گے ہم اس کے امیدوار اس لیے ہیں کہ اگرچہ ہم دھرنے میں نہیں گئے تھے۔

اور نہ ہی جناب عالی کے قریبوں میں ہمارا شمار ہوتاہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم نے اگر انعامی بانڈ خریدے نہیں ہیں تو قرعہ اندازی کا انتظار بھی نہ کریں یا انعامی لسٹ بھی نہ پڑھیں، کیا پتہ کہیں غیب سے ہمارے پلے بھی کچھ پڑجائے۔ وہ ہمارے ایک دوست اکثر کہاکرتے تھے کہ ٹھیک ہے ہم روزہ نہیں رکھ سکتے لیکن اتنے کافر بھی نہیں کہ سحری افطار بھی نہ کریں۔ ہمارے محلے میں ایک بوڑھی نانی بہت پرانی تھی۔ ہم اکثر اس پر پستول یا بندوق تان لیتے تھے تو وہ چیخنے لگتی نہ کرو نہ کرو۔ مرجاؤں گی۔ ہم کہتے نانی اس میں گولی ہے ہی نہیں تو بولتی کیاپتہ کسی غیب سے اس میں گولی آجائے۔اور یہی توقع ہم بھی کیے بیٹھے ہیں کہ اس کیاکیا یا کیاکیا کچھ میں جو حضرت ہمارے لائے ہیں اس میں ہمیں بھی کچھ مل جائے، کہیں غیب سے ہمارا نام بھی آجائے، دل کو یہی سمجھا رہے ہیں کہ

صبر کوہ خدائے بہ مے درکڑی

پہ بے صبرئی معشوقے چا موندلی دینہ

یعنی ذرا صبر رکھ خدا دے دے گا۔بے صبری سے معشوق نہیں ملا کرتے جو صابرین ہوتے ہیں وہی شاکرین بھی ہوجاتے ہیں، لائے تو وہ ہیں کیونکہ مدظلہ العالی نے خود فرمایا ہے کہ وہ’’خالی ہاتھ‘‘نہیں لوٹے ہیں لیکن ہمیں ڈر ’’بچوں‘‘کا ہے، کہیں ہمارے اس دوست کی طرح مدظلہ العالی کے جاگنے سے پہلے ہی سب کچھ ادھر ادھرنہ ہوجائے یا کہیں سے کوئی لومڑی نکل کر تقسیم کا وہ فارمولا پیش نہ کردے جس پر شیر نے اس کی حساب دانی اور تقسیم کے لیے اسے شاباش دی تھی۔ قصہ تو خیر سب کو معلوم ہے لیکن ممکن ہے کچھ لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ ایک مرتبہ شیر بھیڑیا اور لومڑی اتحاد کرکے شکار کرنے نکلے۔

ان کے ہاتھ ایک بیل، ایک ہرن اور ایک خرگوش لگا۔تو تقسیم کا مرحلہ پیش آیا۔شیر نے پوچھا کہ شکار کو کس طرح بانٹا جائے۔ بھیڑیے نے کہا، سیدھی بات ہے ،آپ بڑے ہیں بیل آپ کا ہوا،میں ہرن لے لوں گا اور لومڑی خرگوش لے لے گی۔اس پر شیر نے جو جھانپڑ مارا توبھیڑیے کی گردن ٹوٹ گئی۔

اب شیر نے سہمی ہوئی لومڑی سے تقسیم کا طریقہ پوچھا۔لومڑی نے کہا حضور ’’بیل‘‘تو آپ ابھی نوش فرمائیں۔ہرن کو ڈنر کے لیے رکھ لیجیے اور خرگوش کو صبح ناشتے میں تناول فرما لیجیے۔ شیرخوش ہوا ۔ لومڑی کو شاباش دیتے ہوئے بولا،یہ اتنا اچھا فارمولا اور اتنی اچھا حساب تم نے کہاں سے سیکھا۔ لومڑی بولی ، حضور بھیڑیے کی اس ٹوٹی گردن سے۔ چنانچہ ہمیں بھی بس یہی دعا کرنی چاہیے کہ وہ کچھ مدظلہ العالی اسلام آباد سے لے کرآئے ہیں، اس پر کم بخت اور نادان بچوں کی نظر بھی نہ پڑے اور کوئی لومڑی ایسا کوئی حسابی فارمولا بھی پیش نہ کرے، بہرحال ہمارے پاس ’’امید‘‘کے سوا اور ہے ہی کیا۔

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔