امریکا طالبان مذاکرات دوبارہ شروع

مزمل سہروردی  منگل 10 دسمبر 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

امریکا اور طالبان کے درمیان دوبارہ مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔ مذاکرات تو پہلے بھی کامیاب ہو گئے تھے۔ لیکن افغان حکومت کو امریکا اور طالبان کے درمیان یہ معاہدہ قبول نہیں تھا۔ اسی لیے صدر اشرف غنی امریکا گئے اور ان کامیاب مذاکرات کو رکوانے کی کوشش کی۔ ان کی کامیابی وقتی ثابت ہو ئی تھی۔ سب کو اندازہ تھا کہ یہ عارضی ہے۔ امریکا اور طالبان دونوں کے پاس اس معاہدہ کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔

افغانستان میں صدارتی انتخابات ہو گئے ہیں۔ لیکن ان کے نتائج التوا کا شکار ہیں۔ افغان صدارتی امیدوار عبداللہ عبد اللہ نے دھاندلی کے الزامات کی بنا پر ووٹوں کی گنتی کے عمل سے اپنی ٹیم کو علیحدہ کر لیا ہے۔ عبد اللہ عبد اللہ تین لاکھ متنازعہ ووٹو ں کی گنتی پر ناراض ہو چکے ہیں۔

صدارتی امیدواروں کے مشتر کہ پلیٹ فارم سے دس سے زائد امیدواروں نے عبد اللہ عبد اللہ کے ساتھ ووٹوں کی گنتی کے عمل کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ افغان صدارتی انتخابات کوئی پہلی دفعہ متنازعہ نہیں ہوئے ہیں۔ گزشتہ انتخاب بھی اسی طرح تنازعات کا شکار ہو گئے تھے۔ لیکن پھر آخر میں امریکا نے اشرف غنی اور عبد اللہ عبد ا للہ کے درمیان ثالثی کروائی جس کے نتیجے میں ایک مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ تب بھی عبد اللہ عبد اللہ کا موقف تھا کہ پہلے راؤنڈ میں ان کے ووٹوں کی تعداد اشرف غنی کے ووٹوں سے زیادہ تھی لیکن دوسرے راؤنڈ میں ان کے ووٹ کم ہو گئے تھے۔ جس کو ماننے کے لیے وہ تیار نہیں تھے۔

دوری طرف اشرف غنی کی اپنی منطق ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ عبد اللہ عبد اللہ جان بوجھ کر ووٹ منسوخ کروا رہے ہیں تا کہ انتخاب دوسرے راؤنڈ میں چلا جائے۔ اب تک پچاس فیصدسے زائد ووٹ کسی نہ کسی وجہ سے منسوخ ہو چکے ہیں۔ افغان الیکشن کمیشن اس صورتحال میںعملی طور پر مفلوج ہو چکا ہے۔ اور اس صورتحا ل کا اس کے پاس کوئی حل نظر نہیں آرہا۔

یہ درست ہے کہ اشرف غنی چاہتے ہیں کہ انھیں فاتح قرار دے دیا جائے۔ اشرف غنی نے طالبان سے معاہدہ بھی اس وجہ سے رکوایا تھا کہ وہ پہلے خود دوبارہ صدر منتخب ہو جائیں پھر امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ ممکن ہو۔ شاید امریکا نے اشرف غنی کی یہ بات اس وقت مان بھی لی تھی۔ لیکن اب افغان صدارتی انتخاب کے نتائج متنازعہ بھی ہو گئے ہیں۔ اور تاخیر کا بھی شکار ہیں جس کی وجہ سے امریکا کے لیے مزید انتظار ممکن نہیں ہے۔

امریکا بھی طالبان سے معاہدہ لمبے عرصہ کے لیے التوا کا شکار نہیں کر سکتا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی افغانستان سے فوجوں کے انخلا کو اپنے صدارتی انتخاب میں ایک کامیابی کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت ویسے بھی مواخذہ کی وجہ سے ٹرمپ پریشان ہے۔ ان کو امریکا میں صدارتی انتخاب کے لیے سیاسی راستہ اور سیاسی کامیابی کی ضرورت ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو ٹرمپ کے پاس طالبان سے امن معاہدہ اور افغانستان سے فوجوں کی واپسی کے علاوہ کوئی بڑی چیز بیچنے کے لیے نہیں ہے۔ اسی لیے جیسے جیسے امریکا میں ٹرمپ کے خلاف سیاسی محاذ گرم ہو ا ہے۔ ویسے ہی ٹرمپ نے طالبان سے امن مذکرات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اسی لیے امریکی نمایندے زلمے خلیل زاد نے پہلے افغانستان کا دورہ کیا ہے اور اب وہ دوحہ میں طالبان سے ٹوٹی ہو ئی بات دوبارہ جوڑنے کے لیے بیٹھ گئے ہیں۔

امریکا اور طالبان کے درمیان شر وع ہونے والے مذاکرات کیا اب نتیجہ خیز ثابت ہو جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پہلے معاہد ہ طالبان کی ضرورت تھی لیکن اب شاید یہ معاہدہ امریکی ضرورت بن گیا۔ اس وقت ایک رائے تھی کہ طالبان افغان صدارتی عمل میں شریک ہونے کے لیے معاہدہ جلدی کرنے کے خواہش مند ہیں۔

ایک رائے تھی کہ اگر طالبان نے افغان صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا تو اشرف غنی سمیت سب کا بستر گول ہو جائے گا۔ شاید اسی لیے اشرف غنی کی بھی خواہش تھی کہ کم از کم صدارتی انتخاب تک اس معاہدہ کو روکا جائے تا کہ طالبان اس میں شریک نہ ہو سکیں۔ شاید اس ضمن میں اشرف غنی کو عبداللہ عبد اللہ سمیت دیگر قوتوں کی حمایت حاصل بھی تھی۔ اسی لیے امریکا کو بھی ان کی بات ماننی پڑ گئی۔ لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ طالبان سے امریکی معاہدہ کے بعد کیا ہوگا۔ کیا اب اگر طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدہ ہوتا ہے تو کیا افغان صدارتی عمل بھی منسوخ ہو جائے گا۔ اور افغانستان میں دوبارہ صدارتی انتخاب کے لیے راہ ہموا ر ہو جائے گی۔ کیا امن معاہدہ کے بعد طالبان افغانستان میں سیاست کرنے کے لیے آزاد ہو جائیں گے۔ کیا امریکا طالبان کو ایک سیاسی حقیقت بھی تسلیم کر لے گا۔ اور انھیں افغانستان میں سیاسی کام کرنے کی بھر پور آزادی ہوگی۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ اگر طالبان کو سیاسی کام کرنے کی آزادی مل جائے تو وہ باقی تمام سیاسی قوتوں کو آسانی سے شکست دے سکتے ہیں۔ ان کے پاس عسکری طاقت بھی موجود ہے ۔ وہ اب بھی افغانستان کی فوج سے لڑنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ آدھے سے زائد افغانستان پر اب بھی ان کی حکومت ہے۔ نیٹو اور امریکی فوجوں کی موجودگی کے باوجود طالبان نے اپنی حیثیت منوائی ہے۔ اسی حیثیت کہ وجہ سے آج امریکا طالبان سے مذاکرات پر مجبور ہے۔

امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ اب دور نہیں ہے۔ اس میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ یک دم خبر آسکتی ہے کہ طالبان کا وفد واشنگٹن میں امریکی صد ر ٹرمپ سے ملاقات کر رہا ہے۔ وہاں ایک تاریخی معاہدہ پر دستخط ہو گئے ہیں۔ جس کے بعد امریکا نے افغانستان سے فوجوں کے انخلا کے ٹائم ٹیبل کا اعلان کر دیا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ کے بعد افغانستان کا سیاسی نقشہ کیا ہوگا۔

طالبان نے اب تک دنیا کی دیگر قوتوں کے ساتھ بھی مراسم بہتر کر لیے ہیں۔ طالبان کے اعلیٰ سطحی وفود چین روس سمیت تمام اہم ممالک کے دورے کر چکے ہیں۔ اس لیے اس بار طالبان عالمی سطح پر اس تنہائی کا شکار نہیں ہونگے جیسے وہ پہلے تھے۔ کس کو یاد نہیں کہ نائن الیون سے پہلے افغانستان میں تو طالبان کی حکومت مضبوط تھی لیکن عالمی سطح پر ان کی حکومت کو قبولیت نہیں تھی۔ حکومت طالبان کی تھی اور سفیر شمالی اتحاد کے تھے۔ سفار تخانے شمالی اتحاد کے پاس تھے۔ طالبان کی یہ تنہائی انھیں مروا گئی تھی۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہے۔ اس بار اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی انھوں نے عالمی حالات سازگار کر لیے ہیں۔

جہاں تک پاکستان کی بات ہے ۔ ہم دونوں فریقین کے لیے سہولت کار سے زیادہ کچھ نہیں۔ طالبان بھی کوئی خاص پاکستان کے حق میں نہیں ہیں ۔ امریکا کو بھی پاکستان پر تحفظات ہیں۔ اس لیے اس امن معاہدہ کے نتیجے میں پاکستان کا کوئی خا ص فائدہ ممکن نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ بھارت جس طرح اشرف غنی اور کرزئی کے دور میں افغانستان کو پاکستان کے خلاف لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کررہا ہے وہ شاید طالبان کے دور میں ممکن نہیں ہوگا۔ باڑ لگ گئی ہے۔

اب سرحدوں پر نقل و حرکت کی بھی وہ صورتحال نہیں ہوگی جو پہلے تھی۔ ایسے میں ہمیں زیادہ خوش نہیں ہونا چاہیے۔ یہ وہ طالبان نہیں ہونگے جو صرف پاکستان کی طرف دیکھتے تھے۔ہم شاید سمجھ رہے ہیں کہ طالبان آج بھی ہماری جیب میں ہیں۔ یہ مختلف طالبان ہیں۔ا س حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔