بچے کی ’عزت نفس‘ اجاگر کیجیے

حسن آراء  منگل 10 دسمبر 2019
نظرانداز ہونے کا احساس انہیں حکم عدولی پر اکسا سکتا ہے

نظرانداز ہونے کا احساس انہیں حکم عدولی پر اکسا سکتا ہے

بچے ہمارے گھر کے آنگن میں مہکتے ہوئے پھولوں کی طرح ہوتے ہیں، جن سے گھر میں رونق ہوتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی نعمت ہیں، جن کا کوئی نعم البدل نہیں۔

بچوں کی تربیت میں بظاہر ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کو ذہن میں نہیں رکھتے، مگر یہی چھوٹی چھوٹی باتیں بچوں کی شخصیت میں بگاڑ پیدا کر سکتی ہیں۔ ہماری مراد بچے کی توہین، تضحیک اور تذلیل ہے، جو بچے کی شخصیت کو تباہ کر کے رکھ دیتی ہیں۔ جن والدین کو اپنے بچوں کی تربیت اچھے انداز میں کرنی ہے، انہیں چاہیے کہ اپنے بچوں کے احترام کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھیں، کیوں کہ بچہ بھی مکمل انسان ہے اور ہر انسان کو اپنے آپ سے محبت ہوتی ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے اس کی قدر کریں۔

اس کے احساسات کا خیال رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک چھوٹا سا بچہ بھی اپنی تذلیل محسوس کرتا ہے اور بعض اوقات اس پر ردعمل بھی دیتا ہے، کیوں کہ اس میں بھی عزت نفس ہوتی ہے۔ بچے کے وجود کو اہمیت دینا اس کی تربیت کا ایک اہم عمل ہے۔ جن بچوں کو احترام میسر ہو، وہ نیک سیرت اور شریف بنتے ہیں اور اپنے مقام کی حفاظت کے لیے برے کاموں سے بچتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اچھے کام کر کے دوسروں کی نظر میں اپنا مقام بنائیں۔ جن بچوں کے والدین ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں، پھر بچے بھی ان کی تقلید کرتے ہیں۔

دراصل بچے جب والدین اور بڑے بہن بھائیوں کو دیکھتے ہیں، تو وہ بھی ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بصورت دیگر جن بچوں کے والدین اپنے بچوں کی توہین و تحقیر کرتے ہیں، بچوں کے دل میں ان کے خلاف کینہ پیدا ہو جاتا ہے، جس سے وہ جلد یا بدیر وسرکش اور نافرمان ہو جاتے ہیں۔

مگر بدقسمتی سے بہت سے ایسے والدین ہیں، جو بچے کے احترام کو تربیت کے منافی سمجھتے ہیں۔ اگر انہوں نے بچوں کو زیادہ اہمیت دی، تو وہ بگڑ جائیں گے اور پھر ان کا احترام نہیں کریں گے۔ دراصل وہ بچے کی شخصیت کو کچل دیتے ہیں اور ان کے دل میں احساس کم تری پید اکر دیتے ہیں، جو کہ بہت بڑا نقصان ہے۔ یہ احساس کم تری بچوں کو زندگی بھر اگے نہیں بڑھنے دیتا، کیوں کہ ہم نے ان پر اپنے مخصوص نظریے کی مہر لگا دی ہوتی ہے۔

یہ بات باعث افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں جس طرح سے بچوں کا احترام کیا جانا چاہیے، وہ نہیں کیا جاتا۔ انہیں خاندان کا باقاعدہ جزو بھی شمار نہیں کیا جاتا۔ انہیں بچہ سمجھ کے مکمل طور پر نظرانداز کر دیا جاتا ہے، دسترخوان پر انہیں باقاعدہ پلیٹ چمچا بھی پیش نہیں کیا جاتا۔ گاڑی میں ان کے لیے مخصوص جگہ نہیں ہوتی یا تو وہ کھڑے ہو جائیں یا والدین کی گود میں بیٹھ جائیں۔

محفل میں انہیں بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتا اور دوران گفتگو ان سے مودبانہ سلوک نہیں کیا جاتا۔ ان کے لیے شکریہ اور اللہ حافظ نہیں ہوتا۔ ان سے متعلقہ امور میں بھی ان سے بالکل مشورہ نہیں لیا جاتا۔ آپ کی یہ نظراندازی ان کے اندر حکم عدولی کی تحریک بھی پیدا کر سکتی ہے۔۔۔ اس لیے بہتر ہے کہ اسے بد عادات میں پڑنے سے پہلے اچھے ماحول میں ہی اپنی توجہ کا محور بنالیجیے۔

آج کا بچہ پہلے زمانے کے بچوں سے بہت مختلف ہے۔ وہ اپنے اچھے برے ہر رویے کا اظہار کرتا ہے، لیکن والدین کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو صاحب عزت بنانے کے لیے اس پر سختی اور مارپیٹ کرتے ہیں اور بچے میں عزت نفس پیدا کرنے کے بہ جائے اس کی عزت نفس ہی مار دیتے ہیں۔ بچہ جوں جوں بڑا ہوتا ہے، اسے پھر عادت پڑ جاتی ہے۔ پھر اسے کوئی کچھ بھی کہتا رہے، اس پر کسی بھی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے برا محسوس ہوتا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ یہ عادت پختہ ہو جاتی ہے۔

والدین کو چاہیے کہ نہ صرف اپنے بچوں کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آئیں، بلکہ ان کو خاص ہونے کا احساس بھی دلائیں۔ ان سے ’تم‘ یا ’تو‘ کہہ کر مخاطب ہونے کے بہ جائے ’آپ‘ کہہ کر بات کرنے کی عادت ڈالیں۔ اس کے دو فوائد ہیں کہ بچہ ہر کسی سے عزت کی امید رکھے گا۔ دوسرا دوسروں سے بھی اسی طرح مخاطب ہوگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ عادت مزید نکھر جائے گی۔ مار پیٹ بچے میں آپ کا ڈر تو پیدا کر سکتی ہے، لیکن عزت نہیں۔

بچوں کی تربیت میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ جب تک بچے کو چھوٹے بڑے کا امتیاز نہ ہو جائے، اس وقت اسے آپ کہہ کر مخاطب کریں۔ چند سال کے عرصے میں بچے کی عادت راسخ ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ بچے کے سامنے کوئی پست یا بے تکلفی کی بات نہ کریں اور ایسی بد گفتگو سے بھی مکمل طور پر پرہیز کیا جائے۔

جس سے انہیں جھوٹ اور غیبت وغیرہ کی عادت پڑے۔ بات بات پر انہیں غصہ کرنا نہ سکھائیں، صحت مند بچے کے لیے عزت نفس ایک ایسا ہتھیار ہے، جو اس کے لیے دنیا کے مسائل سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور جو بچے اپنی عزت نفس کے حوالے سے اچھا محسوس کرتے ہیں وہ زندگی کے چیلنجز کا بہتر انداز میں مقابلہ کر سکتے ہیں۔ یہ بچے حقیقت پسند ہوتے ہیں، بحیثیت ایک ماں کو مضبوط قوتِ ارادی کا حامل ہونا چاہیے۔ اچھی عزت نفس کا مالک ہونا چاہیے تاکہ بچے ماں کو اپنا رول ماڈل بنائیں، کیوں کہ ماں کی شفقت و محبت بچے میں خود اعتمادی بڑھانے میں اہم کردار اداکرتی ہے۔

بچے سے باقاعدہ مثبت اور حوصلہ افزا باتیں کیا کریں، جیسا کہ تم بہت بہادر ہو اور بہت ذہین ہو۔ ہمیں آپ پر بڑا فخر ہے۔ موقع محل کے مطابق فوراً بچے کی تعریف کریں۔ اس سے بچے میں خود اعتمادی بڑھتی ہے۔ آئندہ اور اچھا کام کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہی کوشش اسے اچھا انسان بننے میں مدد دے گی۔ کسی دانش ور کا قول ہے کہ بچے کا ذہن ایک ایسی خوب صورت سلیٹ کی مانند ہے، جس پر وہ چاہتا ہے کہ دنیا کی سب رنگینیاں لکھ دی جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔