عورت اور سیاسی قوت کا حصول

شائستہ سعید  منگل 10 دسمبر 2019
اس امر کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ درمیانے اور نچلے طبقے کی خواتین سماجی بہبود اور سیاست کے میدان میں آگے آئیں۔

اس امر کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ درمیانے اور نچلے طبقے کی خواتین سماجی بہبود اور سیاست کے میدان میں آگے آئیں۔

دینا پور ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ مجسٹریٹ صاحب کے بیٹے کی شادی تھی۔ پورے شہر کا بلاوا تھا۔ دلہن دوسرے شہر سے بیاہ کر آرہی تھی۔ بڑی دھوم دھام تھی۔ دلہن بیاہ کر آئی، صورت سیرت ہر طرح سے بہت ہی پیاری تھی۔ چند ہی دنوں میں اس نے اپنے کیا، غیر کیا، سب ہی کا دل موہ لیا۔ بچے بچے کی زبان پر دلہن بھابھی کا چرچا تھا۔

ایسا لگتا تھا وہ کسی کی تکلیف دیکھ ہی نہیں سکتی تھیں۔ نہ جانے کتنی دوائیں یاد تھیں۔ یونانی دواؤں کے تو نسخے کے نسخے انہیں یاد تھے اور پھر مختلف جڑی بوٹیوں کے فوائد اور نقصانات بھی معلوم تھے۔ میٹرک پاس تھیں، لہٰذا بستی کی بچیوں کو اور عورتوں بعض اوقات لڑکوں اور مردوں کو بھی پردے میں بیٹھ کر پڑھا دیا کرتی تھیں۔ کڑھائی، بنائی، سلائی سب بہت اچھی کرتی تھیں۔ قصبے کی عورتوں اور بچیوں کا تو ان کی کوٹھی میں اسکول سا لگا رہتا۔ کسی کو کروشیا سکھا رہی ہیں، تو کوئی اون سلائی لیے کھڑی ہے۔

سلائی کی مشین ان کے گھر میں موجود تھی۔ وہ بھی ہر آنے جانے والے کی دسترس میں تھی۔ کتنی ہی غریب عورتوں کو انہوں نے قسطوں پر سلائی کی مشین دلوا دی تھیں اور کپڑے سینا بھی سکھا دیا تھا۔ قصبے کی لڑکیوں کے رشتے نسبتوں میں ان کا مشورہ اولین درجہ رکھتا۔ وہ نوجوانوں کی دوست اور بوڑھوں کی ساتھی تھیں۔

دینا پور کے پرائمری اسکول کو دلہن بھابھی ہی نے سیکنڈری کا درجہ دلوایا۔ ان ہی کی کوشش سے لڑکیوں کے لیے  بھی سیکنڈری اسکول قائم ہوا۔ ایک انڈسٹریل ہوم کی ابتدا بھی کی۔ قصبے کے لوگ دلہن بھابھی کے کارناموں کو گن نہیں پاتے تھے۔ پورا قصبہ ایک خاندان کی طرح زندگی گزارتا تھا۔ سب ایک دوسرے کی خوشی اور تکلیف میں شریک ہوتے تھے۔

دلہن بھابھی کے ہاں چار بچے پیدا ہوئے۔ ایک لڑکا اور تین لڑکیاں۔ چاروں قصبے کے ان ہی اسکولوں میں پڑھے جو دلہن بھابھی کی محنت سے تیار ہوئے تھے۔ بیرسٹر صاحب کی یہ خواہش کسی طرح پوری نہ ہوئی کہ ان کے پوتی پوتا کانونٹ اسکول میں پڑھیں۔ دلہن بھابھی کا خیال تھا کہ اگر ہمارے بچے انہی اسکولوں میں پڑھیں گے، تو استاد بہتر کارکردگی دکھائیں گے۔

آپ کے گھر ہفتے میں کتنی بار دعوت ہوتی ہے۔ دونوں صورتوں میں وقت کا اچھا خاصا ضیاع ہوجاتا ہے پھرکسی اور کام کے لیے  فرصت کہاں رہتی ہے لیکن پھر بھی ان متمول گھرانوں کی چند خواتین ایسی ضرور ہیں جو رفاہی کاموں میں حصہ لیتی ہیں اور اپنے وقت کا بیش تر حصہ ان کاموں میں صرف کرتی ہیں۔ وہ خواتین جو سماجی بہبود کے کاموں میں حصہ لیتی ہیں ان میں سے بعض آگے بڑھ کر سیاست میں بھی حصہ لینے لگتی ہیں۔

ہمارے یہاں اس امر کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ درمیانے اور نچلے طبقے کی خواتین سماجی بہبود اور سیاست کے میدان میں آگے آئیں۔ آبادی کے لحاظ سے ہمارے یہاں کی خواتین کا سماجی بہبود کے کاموں اور سیاست کے میدان میں حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ سیاست کے میدان میں آگے بڑھنے میں معاشرتی مسائل کے حل کرنے میں عورتوں کی مدد اور مشورہ بھی شامل ہوگا۔

نومی وولف امریکا کی ایک مشہور و معروف مصنفہ ہیں۔ انہوں نے آزادیٔ نسواں پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی پہلی کتاب دی بیوٹی متِھ، 1991ء میں شائع ہوئی۔ اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ عورت کو حسن کی دیوی بنا کر بہت نقصان پہنچایا گیا ہے اور یہ کوشش کی گئی ہے کہ وہ جسمانی حسن کا مرقع بن کر مردوں کے ہاتھوں میں ایک کھلونا بنی رہے۔ وہ حسن کے معیار پر پورا اترنے میں زیادہ تر وقت صرف کرتی رہے۔ نومی وولف اپنی تازہ ترین کتاب ’فائر ود فائر ‘ میں کہتی ہیں کہ آزادیٔ نسواں کی تحریک اب بعد از وقت ہوگئی ہے۔ عورتوں کو اپنی عددی طاقت کی طرف توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ نومی وولفکی اس تحریک کو قوتِ نسواں کا نام دیا جارہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔