بیٹسمینوں نے بہت مایوس کیا

سلیم ملک  جمعرات 31 اکتوبر 2013

پاکستانی بیٹسمینوں نے ایک بار پھر بہت مایوس کیا اور ٹیم جیتا ہوا میچ ہار گئی۔ویسے پروٹیز کا قسمت نے بھی ساتھ دیا،گوروں کی بھی عجیب نفسیات ہے، اچھے فیصلے کرنے پر آئیں تو ایسے اقدام کر جاتے ہیں  کہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا لیکن بعض اوقات ان کی سوچ پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے۔ جنوبی افریقی کپتان  نے بھی ایسا عجیب وغریب فیصلہ کیا کہ مجھے تو اب اس کی سوچ  پرحیرانی ہو رہی ہے، میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ 148 ایک روزہ انٹرنیشنل میچز کھیلنے والا اے بی ڈی ویلیئرز پہلے بیٹنگ کر کے اپنی ہی  ٹیم کے  پاؤں پرکلہاڑی  مار دے گا، یہ ایسا خود کش حملہ ہے جس کی زد میں اس کی اپنی ہی ٹیم آ گئی، میں شارجہ میں موجود ہوتا تو ایک بار اس  سے ضرور پوچھتا کہ ’’مسٹر ٹاس جیت کر تمہیں پہلے بیٹنگ کرنے کی آخر کیا  ضرورت آ پڑی تھی‘‘۔

میں اس لیے بھی کچھ  زیادہ ہی جذباتی ہو رہا ہوں کیونکہ شارجہ کی وکٹ پر مجھے  54 ایک روزہ  انٹرنیشنل میچز کھیلنے کا تجربہ ہے، مجھ سے بہتر اور کون جان سکتا ہے کہ یہ پچ کیا کیا رنگ دکھائے گی،  گرگٹ کی طرح یہ کیسے رنگ بدلتی اور کھلاڑیوں کو ہیرو سے زیرو اور زیرو سے ہیرو کیسے  بناتی ہے۔ یہاں ڈے اینڈ نائٹ  میچ کی  وجہ سے   ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کرنے والی ٹیم فائدے میں رہتی، اس کی بڑی وجہ  یہ ہے کہ  پہلی اننگز میں  یہ  وکٹ اسپنرز کے لیے جنت ثابت ہوتی ہے۔ دنیائے کرکٹ کے ممتاز اسپنرز کی موجودگی کے  باوجود شارجہ کی پچ پر پہلے  بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کرنا اپنی ہی ٹیم پر خود کش حملہ کرنے کے مترادف ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب قدرت کسی کی عقل پر پردہ ڈال دے تو اس سے فیصلے  بھی عجیب وغریب کراتی ہے۔ ڈی ویلیئرز نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا جتنا غلط فیصلہ کیا اس سے بھی خراب انداز میں وہ کیچ ہوا، یہی حال دیگر جنوبی افریقی بیٹسمینوں کا بھی رہا، وہ تو بھلا ہو پارنیل اور ملر کا جو عمدہ بیٹنگ کرکے اپنی ٹیم کی کچھ عزت رکھنے میں کامیاب رہے۔

میچ کے دوران پاکستانی بولرز نے اپنے کردار کے ساتھ خوب انصاف کیا، بالخصوص سعید اجمل اور شاہد آفریدی کی شاندار بولنگ کی تعریف نہ کی جائے تو یہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوگی، دونوں اسپنرز نے وکٹ کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور عمدہ بولنگ کی تاہم 128 کے مجموعی اسکور پر  جب پروٹیز کی 8 وکٹیں گر چکی تھی  حریف سائیڈ کو مزید دباؤ میں لا کر 150 رنز سے کم پر آؤٹ کیا جا سکتا تھا۔ دبئی ٹیسٹ کے برعکس اس ایک روزہ میچ میں  پرفارمنس اچھی رہی، میں سمجھتا ہوں کہ احمد شہزاد پاکستانی کرکٹ ٹیم کا ایک ایسا ہیرا ہے جس کی صلاحیتوں کو پہچاننے کے لیے ماہر جوہری کی آنکھ چاہیے، اوپنر کو مکمل اعتماد دیا جائے تو وہ  مستقبل میں تینوں طرز کی کرکٹ میں گرین شرٹس کو مضبوط آغاز فراہم کر سکتا ہے۔اس ضمن میں کپتان کے کردار کو کسی طور پر بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جو اپنے باصلاحیت کھلاڑیوں  کے لیے  نہ صرف فائٹ کرتا بلکہ اعتماد کی بحالی کے لیے مسلسل حوصلہ بڑھاتا رہتا ہے، وہ ٹیم  میں بار بار تبدیلیاں کرنے سے گریز کرتا ہے۔

شائقین کرکٹ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ  ماضی میں پاکستان کرکٹ ٹیم  بھارت کے خلاف زیادہ تر میچز میں کامیابیاں سمیٹتی تھی لیکن اس کی اصل وجہ شاید بہت کم لوگوں کو ہی معلوم ہو،  بھارت کے صوبے زیادہ  اور حتمی اسکواڈ کا حصہ بننے والے کھلاڑی کم  ہوتے تھے۔ ہر صوبہ چاہتا تھا کہ قومی ٹیم میں اس کی نمائندگی ہو۔ جب کسی ریاست کا کھلاڑی حتمی اسکواڈ کا حصہ بننے میں کامیاب ہو جاتا تو وہ ٹیم کے اجتماعی فائدے کے بجائے صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچتا، اس کی سوچ صرف اسی حد تک محدود رہتی کہ ٹیم  ہارتی ہے تو ہارے، بس  وہ اتنی کارکردگی دکھا دے کہ اگلے میچ میں بھی  اس کی جگہ ٹیم میں پکی رہے۔ بھارت نے یہ پریکٹس اب چھوڑ دی جبکہ ہم نے شروع کردی ہے۔ ورلڈ کپ کی آمد  آمد ہے، ٹائٹل اپنے نام کرنے کے لیے ہمیں ٹیسٹ، ایک روزہ اور ٹوئنٹی 20 کی الگ الگ ٹیمیں بنا کر بااعتماد کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی کے بجائے ابھی سے  ایک مضبوط اسکواڈ تشکیل دینے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔