عالمی اردو کانفرنس اور نوجوان نسل کا مشاعرہ

سید کامی شاہ  جمعـء 13 دسمبر 2019
عالمی اردو کانفرنس کی صورت میں کراچی والوں کو چار روز تک ذوقِ سخن کی تسکین کا بہانہ ملا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عالمی اردو کانفرنس کی صورت میں کراچی والوں کو چار روز تک ذوقِ سخن کی تسکین کا بہانہ ملا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عالمی اردو کانفرنس ایک انتخابی مہم ہے جس کا نومبر یا دسمبر میں انعقاد کرنے کا مقصد صرف اور صرف اپنے ووٹ پکے کرنا ہے، کیونکہ دسمبر میں ہی آرٹس کونسل کے انتخابات بھی ہوتے ہیں۔ مگر اس تقریب کا ایک طرح سے فائدہ یہ ہے کہ علمی و ادبی تقریبات کو ترسے ہوئے کراچی کے شہریوں کو دو چار روز تک لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ مل جاتا ہے۔ سو، حسبِ روایت، عالمی اردو کانفرنس کی صورت میں کراچی والوں کو چار روز تک ذوقِ سخن کی تسکین کا بہانہ بھی ملا اور خوب گہما گہمی بھی رہی۔

ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ جس طرح کی یہ تقریب سال بہ سال منعقد ہوتی ہے، اس شہر کو اسی طرز کی ماہ بہ ماہ لگاتار تقریبات کی ضرورت ہے۔ پچھلے کچھ برسوں میں یہ شہر حکمرانوں کی کرپشن کی طرح مسلسل بڑھتا اور پھلتا پھولتا رہا ہے، مگر جس طرح حکمرانوں کی کرپشن کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا اسی طرح اس شہر کے بڑھنے اور پھیلنے سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اپنے عوام کو روزگار، صحت، تحفظ اور تعیلم کی فراہمی کسی بھی ریاست کے اولین فرائض میں شامل ہوتی ہے جو بدقسمتی سے اس شہر کے لوگوں کو حاصل نہیں۔

پچھلے 30 برس میں کوئی نئی فیکٹری، کوئی نیا کارخانہ نہیں لگایا گیا نہ بڑے پیمانے پر عوام کو روزگار دینے کےلیے کوئی نظام وضع کیا گیا ہے، بلکہ ہمارے ایک دوست کا تو کہنا ہے کہ اس شہر کا آدھا کاروبار بھتہ خوروں نے بند کرادیا اور آدھا ایک بھگوڑے ڈکٹیٹر کی معاشی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ سو لے دے کر ہمارے پاس بچا یہ علم و ادب کا بھونپو، تو اسے بھی بجانے کی اجارہ داری کچھ مخصوص ہاتھوں تک محدود ہے۔

اِک طَورِ دہ صدی تھا جو بے طَور ہوگیا
اب جنتری بجائیے، تاریخ گائیے

پچھلے 20 سے 25 سال میں اس شہر کے اندر اور اطراف فقط کچی آبادیوں اور گاؤں گوٹھوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جس نے اس شہر کی خوبصورتی اور اسمارٹنیس کو نہ صرف متاثر کیا ہے بلکہ عوام اور اشرافیہ کے اندر موجود طبقاتی کشمکش کو بھی بڑھادیا ہے۔ خود شہری حکومت تسلیم کرتی ہے کہ کراچی شہر کے ساتھ 800 سے زائد کچی آبادیاں جُڑی ہوئی ہیں جن کی نہ کوئی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور نہ وسائل کی تقسیم کے حوالے سے کوئی حکمتِ عملی وفاقی، صوبائی یا شہری حکومت کی طرف سے تشکیل دی گئی۔ لہٰذا یہ خودرو کھمبیوں کی طرح اُگی ہوئی کچی آبادیاں، بے نام گوٹھ اور پسماندہ بستیاں اس شہر کے جسم پر کینسر زدہ پھوڑوں کی طرح دکھائی دیتی ہیں اور گلیوں میں بھونکتے آوارہ اور بدمست کتے شہریوں کےلیے ایک الگ امتحان بنے ہوئے ہیں۔

علم، ادب اور گیان چونکہ سبھی کےلیے ہوتا ہے اس لیے اس میں کوئی تخصیص نہیں کی جاسکتی؛ کیونکہ خواب، رنج اور امید اس دنیا کے تمام افراد کا مشترکہ اثاثہ ہیں اور ادب ان سب کا احاطہ کرتا ہے۔ ادب زندگی سے حظ آوری کا ذریعہ بھی ہے اور رنج خیزی کا بیانیہ بھی۔ ادب آپ کو خواب بھی دِکھاتا ہے اور امکانات کے دریچے بھی وا کرتا ہے۔

راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تا قیامت کھُلا ہے بابِ سخن

یہ الگ بات ہے کہ اس شہر کے لوگوں کے خواب اور امیدیں سرطان زدہ ہوچکی ہیں اور لے دے کر بچ رہا ہے ایک رنج!

یہ رنج بے روزگاری کا بھی ہے، عدم تحفظ کا بھی، صحت کی سہولیات کے فقدان کا بھی ہے اور تعلیم سے محرومی کا بھی۔

کہتے ہیں کہ اگر سماج کی بنیادی تعلیمات ہی درست نہ ہوں تو اگلی سطح پر علم و ادب کے میدان میں بھی کسی کارنامے کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ اس کا اندازہ ہمیں اپنے سماج کو دیکھ کر تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ آرٹس کونسل کی روایتی عالمی اردو کانفرنس میں شرکت سے بھی احساس ہوا کہ یہ علمی و ادبی مجالس فقط ’’لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ‘‘۔

یہی شہر کراچی ہے اور یہی آرٹس کونسل جہاں مکرمی یاور مہدی کی عنایت سے ہم نے 1997 میں پہلا مشاعرہ پڑھا تھا اور صرف ہم نے ہی نہیں بلکہ ہدایت سائر، عمران شمشاد، وجیہ ثانی، عاطف توقیر، طارق متین، علی عمران، فرخ اظہار، فیصل ذکریا سمیت بہت سے نوجوان شاعروں کا وہ پہلا بڑا مشاعرہ تھا۔ ان شعرا میں سے ہدایت سائر اور عمران شمشاد نے ہمارے ساتھ آرٹس کونسل کی بارہویں عالمی اردو کانفرنس میں منعقدہ نوجوان نسل کا مشاعرہ بھی پڑھا جسے کانفرنس کے بالکل آخری روز آخری ایونٹ کے طور پر رکھا گیا تھا اور گویا کراچی کے نوجوان شاعروں پر احسان کیا گیا تھا کیونکہ کھانے، چائے، محنتانے اور اعزازیئے سے تہی اس مشاعرے کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ اس شہرِ ناپُرساں کی طرح اس مشاعرے کا بھی کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ یعنی دوسرے الفاظ میں گویا نوجوان شاعروں کو فقط اسٹیج کا لالچ دے کر ٹرخایا گیا تھا۔

دوسرا المیہ اس مشاعرے میں یہ نظر آیا کہ کچھ نوجوانوں کا ایک پورا گروہ اس میں شامل کیا گیا جو نثری نظم کے نام پر الم غلم لکھنے کو ہی ادب کی خدمت خیال کررہا ہے۔ ایک صاحب کبوتر کے گلے میں پٹہ ڈال رہے تھے تو ایک نوجوان خاتون عورتوں کے اعضا کی نمائش اور فروخت کے حوالے سے عقل کے گھوڑے دوڑاتی نظر آئیں۔ فکر و نظر اور تخلیق کے منطقی جواز سے تہی ان نثری نظموں کو سن کر لگا کہ جان بوجھ کر ایسا کیا گیا ہے تاکہ اگلی بار کوئی نوجوان نسل کے مشاعرے کی بات ہی نہ کرے۔

اسی مشاعرے میں ایک خاتون جھیل اور کھیل کا قافیہ جوڑنے کے چکر میں کسی کو پَیل رہی تھیں، انہیں کوئی بتائے کہ اس قسم کی باتیں شاعری میں نہیں کرنی چاہئیں اور کسی خاتون کو تو زبان کے استعمال میں بے حد احتیاط سے کام لینا چاہیے۔

رہی بات نثری نظم کی تو ایسا نہیں کہ ہمیں نثری نظم سے کوئی بیر ہے یا نثری نظمیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں، مگر یہ طے ہے کہ نثری نظم مشاعرے کی چیز نہیں۔ اگر نثری نظمیں ہی سننی تھیں تو عالمی کانفرنس کے کسی دن ہی افضال احمد سید یا عذرا عباس کی صدارت میں کوئی نشست رکھ لیتے جس میں نثری نظم کے تخلیقی جواز پر بھی لگے ہاتھوں بات ہوجاتی، بلکہ اس شہر کے باکمال شاعر ذیشان ساحل اور ثروت حسین کی نثری نظموں پر بھی بات کی جاتی اور اس طرح ان بانکے سجیلے شاعروں کو بھی خراج عقیدت پیش کردیا جاتا جنہوں نے نہ صرف نثری اور آزاد نظم کی ہیئت میں قابلِ قدر تخلیقی کام کیا ہے بلکہ غزل کے نخلستان میں بھی رنگ رنگ کے پھول کھِلائے ہیں۔

ایک نظم کہیں سے بھی شروع ہو سکتی ہے

ایک نظم کہیں سے بھی شروع ہوسکتی ہے
جوتوں کی جوڑی سے
یا قبر سے جو بارشوں میں بیٹھ گئی
یا اس پھول سے جو قبر کی پائنتی پر کھِلا
ہر ایک کو کہیں نہ کہیں پناہ مل گئی
چیونٹیوں کو جائے نماز کے نیچے
اور لڑکیوں کو میری آواز میں
مُردہ بیل کی کھوپڑی میں گلہری نے گھر بنا لیا ہے
نظم کا بھی ایک گھر ہوگا
کسی جلا وطن کا دل یا انتظار کرتی ہوئی آنکھیں
ایک پہیہ ہے جو بنانے والے سے ادھورا رہ گیا ہے
اسے ایک نظم مکمل کر سکتی ہے
ایک گونجتا ہوا آسمان نظم کےلیے کافی نہیں ہے
لیکن یہ اک ناشتے دان میں بہ آسانی سما سکتی ہے
پھول، آنسو اور گھنٹیاں اس میں پروئی جا سکتی ہیں
اسے اندھیرے میں گایا جا سکتا ہے
تہواروں کی دھوپ میں سکھایا جاسکتا ہے
تم اسے دیکھ سکتی ہو
خالی برتنوں، خالی قمیضوں اور خالی گہواروں میں
تم اسے سن سکتی ہو
ہاتھ گاڑیوں اور جنازوں کے ساتھ چلتے ہوئے
تم اسے چوم سکتی ہو
بندرگاہوں کی بھیڑ میں
تم اسے گوندھ سکتی ہو
پتھر کی ناند میں
تم اسے اُگا سکتی ہو
پودینے کی کیاریوں میں
ایک نظم
کسی بھی رات سے تاریک نہیں کی جا سکتی
کسی تلوار سے کاٹی نہیں جا سکتی
کسی دیوار میں قید نہیں کی جا سکتی
ایک نظم
کہیں بھی ساتھ چھوڑ سکتی ہے
بادل کی طرح
ہوا کی طرح
راستے کی طرح
باپ کے ہاتھ کی طرح

خیر، بقول سلیم احمد:

بزم کے حال کے اب ہم نہیں کُڑھنے والے
انتظامات میں کیا دخل تماشائی کا

اس پر مزید ستم یہ ہوا کہ ایک پڑوسی ملک سے آئے ہوئے شاعر کو جب دعوتِ کلام دی گئی تو وہ ایسے اسٹیج پر تشریف لائے جیسے کشمیر فتح کرکے آئے ہوں۔ موصوف نے کچھ قافیوں کی جوڑ توڑ پر مبنی کچھ سنایا جو ہمارے تو بالکل پلے نہیں پڑا۔ اس پر جاتے جاتے فرمانے لگے: ’’کراچی کے ان نوجوانوں کو دیکھ کر بہت خوشی ہورہی ہے۔‘‘

موصوف نے اپنی بات میں زور پیدا کرنے کےلیے احمد مشتاق کا مشہور شعر بھی پڑھا:

نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں

جبکہ ان صاحب کو چند سال قبل ہی ریختہ کے مشاعروں سے پہچان ملی۔ اس کے علاوہ کسی ادبی جریدے میں ان کا کوئی کام اور کلام کسی کی نظر سے نہیں گزرا، مگر صاحب میں ایٹی ٹیوڈ ایسا تھا کہ سیدی جون کے قائم مقام یہی حضرت ہیں۔ سیدی جون ایلیا کا نام اس لیے زبان پر آگیا کہ مشاعرے کی غائبانہ صدارت جون ایلیا کررہے تھے جو فرمایا کرتے تھے کہ 20 سال سے پہلے تو ادب کی دنیا میں کوئی رجسٹرڈ ہی نہیں ہوتا۔

تو ہم، علی زریون، ہدایت سائر اور عمران شمشاد تو کم از کم جون صاحب کی نظر میں اس حساب سے بھی رجسٹرڈ ہوسکتے ہیں کہ بیس سال سے زیادہ عرصے سے مشاعرے بھی پڑھ رہے ہیں اور ادبی جرائد میں بھی نظر آتے ہیں۔

رہی بات عالمی ادبی کانفرنسوں اور مشاعروں کی تو ایک بات طے ہے کہ ادب سے سنجیدہ وابستگی رکھنے والوں کےلیے اس قسم کی چیزیں فقط ایک تقریب بہر ملاقات کا مقام رکھتی ہیں۔ بقول سیدی ثروت حسین:

آنکھوں سے الجھنے لگے بیتے ہوئے موسم
کیا نام لکھیں شہر کی دیوار پر اپنا

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید کامی شاہ

سید کامی شاہ

سید کامی شاہ معروف شاعر اور کہانی کار ہیں؛ اور تنقیدی مضامین بھی لکھتے ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے ’تجھ بن ذات ادھوری ہے‘ اور ’قدیم‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ آج کل نظموں کی کتاب ’’نظم تجھ کو تلاش کرتی ہے‘‘ اور ناول ’’کشش کا پھل‘‘ پر کام کررہے ہیں۔ ان کی کہانیوں کی کتاب ’’کاف کہانی‘‘ کے عنوان سے اشاعت کے مراحل میں ہے۔ کامی شاہ طویل عرصے سے الیکٹرونک میڈیا سے وابستہ ہیں اور آج کل ایک نجی میڈیا ہاؤس میں ویب پروڈیوسر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔