پاک فوج زندہ باد

میاں اصغر سلیمی  ہفتہ 14 دسمبر 2019
ہماری بہادر افواج بری، بحری اور فضائی محاذوں پر ارض پاک کی حفاظت میں مصروف ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہماری بہادر افواج بری، بحری اور فضائی محاذوں پر ارض پاک کی حفاظت میں مصروف ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عالم اسلام خون آشام ہنگاموں کی لپیٹ میں ہے۔ ان جنگوں کی وجہ سے لاکھوں مسلمان لقمہ اجل بن چکے ہیں اور جو زندہ ہیں، ان کی حالت مردوں سے بھی بدتر ہے۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد جنگ کی جو چنگاری افغانستان میں بھڑکی تھی، وہ اب لاوا بن کر دنیا کے متعدد مسلم ممالک تک پھیل چکی ہے۔ جنگوں اور آپس کی لڑائی جھگڑوں کے شعلے عراق، لیبیا، یمن، شام، مصر سمیت متعدد اسلامی ملکوں میں دکھائی دے رہے ہیں۔ اس وقت دنیا میں صرف تین مسلم ممالک ہی ایسے ہیں جہاں پر امن وامان ہے۔ سعودی عرب کو اس کی تیل کی دولت نے بچا رکھا ہے، ترکی کو طیب اردگان جیسے دور اندیش لیڈر کی خدمات حاصل ہیں، جبکہ تیسرا ملک پاکستان ہے۔

اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا اور پرکھا جائے تو اس بات میں بڑی حد تک سچائی بھی ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی صورت حال ایسی ہے کہ اسے ہر کوئی ہڑپ کرنے کےلیے تیار بیٹھا ہے۔ ہمارے مشرق میں موجود بھارت نے پاکستان کو پہلے دن سے ہی دلی طور پر تسلیم نہیں کیا۔ اس لیے وہ ہر وقت پاکستان کو نقصان پہنچانے کے چکر میں رہتا ہے۔ کچھ اسی طرح کی بے یقینی کی صورت حال افغانستان کے ساتھ بھی ہے، جو پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ مل کر ارض پاک کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتا ہے۔ روس بھی یہی سمجھتا ہے کہ ماضی میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں پاکستان کا ہاتھ ہے، اس لیے روس کے ساتھ بھی ہماری سرد جنگ سالہا سال تک جاری رہی۔ یہ الگ بات ہے کہ روس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کسی حد تک بہتری آئی ہے۔ ایران ہمارا ہمسایہ ملک تو ہے لیکن اس کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات بہت زیادہ مثالی نہیں رہے۔ رہ گیا چین، تو کہا جاتا ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے زیادہ گہری ہے۔ لیکن حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو اس دوستی کے پیچھے بھی چین کی پاکستان کے ساتھ محبت کم اپنے معاشی اور دفاعی مفادات زیادہ ہیں۔

ایک ایسے دور میں جب عالم اسلام میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، پاکستان کے 20 کروڑ سے زائد عوام سکون سے زندگی گزارتے ہیں اور رات کو سکون سے سوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ پاکستان کے پاس تیل کی دولت ہے اور نہ ہی امریکا، فرانس اور انگلینڈ کی طرح معاشی طاقت ہے۔ دوسرے ترقیاتی ممالک کی طرح ہماری برآمدات اربوں ڈالرز میں ہیں اور نہ ہی ہم کسی اور ذرائع سے خطیر سرمایہ کما رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں کرپشن اور لوٹ مار کا دور دورہ ہے۔ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری نے عام شہریوں کی مت مار کر رکھ دی ہے۔ سیاستدان بے دریغ ملکی سرمایہ لوٹ کر باہر کے ممالک میں منتقل کرتے آئے ہیں، یہاں تک کہ اس ملک کی اشرافیہ پاکستان کے بجائے بیرون ملک میں علاج کروانے کو ترجیح دیتی ہے۔ ان حالات میں ایک سوال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ وہ کون سی طاقت ہے جو دشمن کے ہر حربے، ہتکھنڈے اور وار کو ناکام بنائے ہوئے ہے؟ تو وہ ہماری بہادر افواج ہیں جو خشکی، بحری اور فضائی، تینوں محاذوں پر اس ارض پاک کی حفاظت کرنے میں مصروف ہیں۔

ہماری آزادی اور ہماری خوشیاں پاک فوج کے بہادر افسروں اور جوانوں کی قربانیوں ہی کی مرہون منت ہیں۔ یہ پاکستانی فوج ہی ہے جو ملک کے چپے چپے میں دہشت گردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ہے اور ضرب العضب اور ردالفساد آپریشنز کے بعد ان دشمن سماج عناصر کا قلع قمع کرچکی ہے۔ بلاشبہ یہ ملک میجر عزیز بھٹی شہید، راجہ محمد سرور شہید، طفیل محمد شہید، میجر شبیر شریف شہید، محمد اکرم شہید، راشد منہاس شہید، کرنال شیر خان شہید، حوالدار لالک جان شہید سمیت ہمارے ان گنت فوجیوں کی قربانیوں کا ثمر ہے۔ 27 فروری 2019 کو ہماری فضائیہ نے جس طرح بھارتی طیاروں کو گرا کر پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کیا، پوری دنیا پاکستانی فضائیہ کے اس کارنامے پر حیران ہے۔

پاکستان کا واحد ادارہ فوج ہی ہے جس پر پوری قوم فخر کرتی ہے۔ نہ جانے کیوں اس ادارے کو بھی کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ حال ہی میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے کو جس طرح پیش کیا گیا، وہ قابل مذمت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی بہادر افواج کے راہ میں روڑے اٹکانے کے بجائے اس ادارے کو مزید مضبوط کیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

Mian Asghar Saleemi

میاں اصغر سلیمی

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے، دو عشروں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، اسپورٹس رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ گزشتہ 12 برس سے ایکسپریس کے ساتھ وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔