زیرو سے ہیرو اور پھر زیرو تک کا سفر

محمد یوسف انجم  جمعرات 12 دسمبر 2019
سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد بس ڈرائیور مہر خلیل ہیرو بن گئے تھے۔ (فوٹو: فائل)

سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد بس ڈرائیور مہر خلیل ہیرو بن گئے تھے۔ (فوٹو: فائل)

زندگی میں بعض ایسے اتفاقات ہوتے ہیں جب موت کسی کو چھوکر گزر جاتی ہے اور زندگی ایک نئی کروٹ لیتی ہے۔ ایسا ہی ایک سانحہ 3 مارچ 2009 کو لاہور کے لبرٹی چوک میں بھی پیش آیا۔ جب وہ کچھ ہوا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

3 مارچ 2009 کے دن قذافی اسٹیڈیم لاہور میں پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ٹیسٹ میچ کھیلا جارہا تھا۔ تمام معاملات مقررہ شیڈول کے مطابق چل رہے تھے۔ تیسرے روز کے کھیل کےلیے مہمان ٹیم ہوٹل سے گراؤنڈ کےلیے روانہ ہوئی۔ سیکیورٹی حصار میں بس نے جب لبرٹی چوک سے قذافی اسٹیڈیم جانے والی سڑک پر ٹرن لیا تو لگ بھگ بارہ دہشت گردوں نے فائرنگ شروع کردی۔

اچانک ہونے والے اس حملے سے سری لنکن کرکٹرز، آئی سی سی میچ آفیشلز سمیت سیکیورٹی اہلکار بھی بوکھلا گئے۔ فائرنگ اتنی شدید تھی کہ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیسے جان بچائے۔ سیکیورٹی اہلکاروں نے بھی جوابی فائرنگ کی، لیکن اس وقت تک دہشت گردوں کی فائرنگ سے چھ پولیس اہلکار اور دو راہگیر شہید ہوچکے تھے۔ حملے میں سات سری لنکن کرکٹرز زخمی ہوئے۔ آئی سی سی آفیشلز کی وین میں موجود پاکستانی امپائر احسن رضا کو شدید زخمی حالت میں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا۔ وین کا ڈرائیور موقع پر ہی چل بسا۔ ایک ڈرائیور اپنی جان سے گیا،۔ لیکن اس اندوہناک حادثے نے دوسرے ڈرائیور کی زندگی بدل دی۔

سری لنکن ٹیم کو لانے والی بس کا ڈرائیور کسی نہ کسی طریقے سے جاری فائرنگ میں بس کو قذافی اسٹیڈیم تک لانے میں کامیاب رہا، ورنہ اس بس کو یرغمال بھی بنایا جاسکتا تھا۔ قذافی اسٹیڈیم میں زخمی کرکٹرز اور دوسرے لوگوں کو اتارنے کے بعد بس کو تھوڑی ہی دیر میں نیشنل ہاکی اسٹیڈیم کے سامنے لاکھڑا کیا گیا، جہاں پر پاکستانی ہاکی ٹیم کا تربیتی کیمپ جاری تھا۔ بس پر حملے کی اطلاع کے بعد میں بطور ٹی وی رپورٹر فوری طور پر اسٹیڈیم پہنچا تو ایک ہاکی کے کھلاڑی نے بس اور اس کے ڈرائیور کی نشاندہی کی۔ ان ہنگامی حالات میں اس سارے واقعے کا بس ڈرائیور سے بڑا کوئی چشم دید گواہ نہیں ہوسکتا تھا۔ بھاگم بھاگ بس ڈرائیور کو ڈھونڈا۔ کیمرہ مین حماد بڑی مشکل سے جنگلہ پھلانگ کر ہاکی اسٹیڈیم میں آیا۔ اس وقت تک زمین پر بیٹھے گم سم ڈرائیور کو کوئی نہیں جانتا تھا۔

بس ڈرائیور نے اپنے اس پہلے انٹرویو میں بتایا کہ اس کا نام مہر محمد خلیل ہے۔ ہلکی انگلش موسیقی میں تمام کرکٹرز کے ساتھ وہ بھی انجوائے کررہا تھا کہ اچانک فائرنگ شروع ہوگئی۔ بریک لگنے سے بس ایک جھٹکے سے بند ہوئی اور پھر راکٹ لانچر اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں وہ خود بھی اپنے حواس قابو میں نہ رکھ سکا۔ نہیں معلوم کہ کرکٹرز پر کیا گزری۔ چند لمحات کے بعد اعصاب پر کچھ قابو پایا تو بس میں موجود کرکٹرز چلا رہے تھے۔ ان کی انگلش میں صرف گیئر گیئر کی ہی سمجھ آئی تو لرزتے ہاتھوں سے بس دوبارہ اسٹارٹ کی۔ پہلے ہی گیئر میں بس کو قذافی اسٹیڈیم تک لایا۔ اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ دوسرا گیئر لگاسکوں۔

یہ مہر محمد خلیل کا سب سے پہلا بیان تھا، جو براہ راست ایکسپریس نیوز پر آن ایئر ہوا۔ بس کے مناظر بھی دکھائے گئے۔ اس کے بعد میڈیا کے کچھ دوسرے دوست بھی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے بھی مہر خلیل سے بات چیت کی۔

ایک انٹرویو کے بعد مہر خلیل کی سانسیں اور اعتماد بھی خاصا بحال ہوچکا تھا۔ اپنے بعد کے انٹرویوز میں مہر خلیل نے موقف اختیار کیا کہ جب فائرنگ ہورہی تھی تو وہ بالکل بھی نہیں گھبرایا۔ اپنے اعصاب پر قابو رکھا اور سوچا کہ یہ پاکستان کی عزت اور کھلاڑیوں کی حفاظت کا سوال ہے۔ وہ اپنی جان دے دے گا لیکن مہمان کھلاڑیوں کو کچھ نہیں ہونے دے گا۔ چلتی گولیوں میں بس کو بھگا کر انہیں بحفاظت قذافی اسٹیڈیم پہنچایا۔

مہر خلیل کا نام نہ صرف پاکستان اور ہمسایہ ملک ہندوستان بلکہ پوری دنیا کے میڈیا کی ہیڈلائنز میں سارا دن چلتا رہا۔ اس بہادری پر سب مہر خلیل کی تعریف کررہے تھے کہ وہ بس کو چھوڑ کر بھاگا نہیں، بلکہ کسی نہ کسی حال میں اسٹیڈیم تک پہنچانے میں کامیاب رہا۔ مہمان ٹیم کے ملک سری لنکا میں بھی مہر خلیل کو ہیرو قرار دیا گیا۔ کھلاڑیوں نے روانگی سے پہلے اس سے ملاقات کی۔ بعدازاں انہیں سری لنکا میں اہلیہ کے ساتھ مدعو کیا گیا اور انہیں انعام واکرام سے نوازا گیا۔ پاکستانی حکومت اور پی سی بی کی جانب سے بھی مہر خلیل کو انعامات دیئے گئے۔ مخیر حضرات نے بھی ہیرو مہر خلیل کو انعام کے ساتھ بہت عزت دی۔

حالات بدلنے پر مہر خلیل نے ڈرئیونگ ترک کی۔ پہلے جنوبی افریقہ میں کاروں کا شو روم کھولا، پھر مراکش میں فرنیچر کا کاروبار کیا۔ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اہل خانہ کو بھی خوب مزے کروائے۔ دوستوں کی دعوتیں بھی خوب کیں۔ جتنی تیزی سے پیسہ اکٹھا ہوا، اتنی ہی تیزی سے ختم ہوتا گیا۔ دس سال بعد سری لنکن ٹیم نے تو دوبارہ پاکستان آکر انٹرنیشنل کرکٹ کو بحال کروانے میں پاکستان کی مدد کی۔ لیکن دس سال پہلے بننے والے اس ہیرو کا اب کاروبار ہے اور نہ وہ رہن سہن۔ اب وہ فقط ڈرائیور ہے اور دوبارہ لاہور سے اسلام آباد روٹ پر بس چلا کر اپنے بیتے دنوں کو یاد کرنے کے ساتھ بارہا اس خواہش کا اظہار کرچکا ہے کہ وہ دوبارہ ڈرائیونگ کرکے مہمان ٹیم کو اسٹیڈیم تک لانا چاہتا ہے۔ لیکن کہتے ہیں کہ قسمت بار بار آپ کے دروازے پر دستک نہیں دیتی اور ضروری نہیں کہ زیرو سے ہیرو اور پھر ہیرو سے زیرو بننے کے ساتھ آپ کی ہر خواہش بھی پوری ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

Muhammad Yousuf Anjum

محمد یوسف انجم

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے، سینئر صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں اور اسپورٹس رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ پچھلے کئی سال سے ’’ایکسپریس نیوز‘‘ سے وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔