بلوچستان میں دہشت گردی

ایکسپریس اردو  اتوار 2 ستمبر 2012
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ حکومت امن و امان کے لیے صوبائی حکومت کو ہر ممکن سہولت اور تعاون فراہم کرے گی۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ حکومت امن و امان کے لیے صوبائی حکومت کو ہر ممکن سہولت اور تعاون فراہم کرے گی۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہفتے کو فرقہ وارانہ دہشت گردی میں9 افراد شہید اور پولیس اہلکار سمیت11 زخمی ہوگئے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق کوئٹہ کے نواحی علاقے ہزارہ ٹائون کے رہائشیوں پر ہزار گنجی کے قریب نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے 5 افراد مار ڈالے جب کہ تفتان بس اسٹاپ پر کھڑے دیگر دو افراد کو بھی فائرنگ سے بھون ڈالا گیا۔ ہزار گنجی کے واقعے کے خلاف ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے احتجاجی ریلی نکالی جس نے آئی جی پولیس کے دفتر کے سامنے دھرنا دیا۔ بعد ازاں مظاہرین 7 افراد کی میتوں کو جلوس کی شکل میں لے کر اقوام متحدہ کے ذیلی دفتر کے سامنے پہنچ گئے اور وہاں بھی دھرنا دیا۔

ادھر حکومت نے امن و امان کے لیے فرنٹیئر کانسٹیبلری کو پولیس کے اختیارات بھی تفویض کردیے ہیں۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے پی ایم ہائوس اسلام آباد میں چیف سیکریٹری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں امن و امان کا قیام پیپلز پارٹی کی حکومت کی اولین ترجیح ہے‘ صوبے میں امن و امان سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلوں پر من و عن عمل کیا جائے گا۔

حکومت امن و امان کے لیے صوبائی حکومت کو ہر ممکن سہولت اور تعاون فراہم کرے گی، صوبائی حکومت امن برباد کرنے والے عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے۔گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار مگسی نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ملوث عناصر کی فوری گرفتاری یقینی بنانے کا حکم دیدیا ہے۔

کوئٹہ کے ہزار گنجی ٹائون میں دہشت گردی کی اس واردات کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، وہ لاقانونیت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی عدم فعالیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق چار موٹر سائیکل سواروں نے ایک بس کو روک کر 5 سبزی فروشوں کو باہر نکالا اور انھیں گولیاں مار دیں۔ کچھ عرصے قبل راولپنڈی سے سکردو جانے والی بس کے مسافروں کو بھی اسی طرح شہید کیا گیا تھا۔

اس وقت پورا پاکستان دہشتگردی سے لہو لہان اور اشکبار و سوگوار ہے۔ ایک جانب افواج پاکستان پر حملے ہو رہے ہیں تو دوسری جانب فرقہ واریت نے ملک کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقے میں تو صورتحال اس اعتبار سے واضح ہے کہ وہاں دشمن نمایاں ہے۔ بلوچستان کی صورتحال انتہائی پیچیدہ ہے۔ یہاں فرقہ واریت کے حوالے سے ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ہزارہ منگول کمیونٹی سے تعلق رکھنے والوں پر آئے روز حملے ہو رہے ہیں جن میں قیمتی جانیں ضایع ہو رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجابیوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو بھی گھروں سے اٹھایا جا رہا ہے اور بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں کسی ویرانے سے ملتی ہیں۔ یہ سب کون لوگ کر رہے ہیں، کسی کو پتہ نہیں ہے۔ ملک کے صدر ہوں یا وزیراعظم، صوبہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ہوں یا گورنر، سب ایک جیسے بیانات دیتے ہیں۔

ان بیانات میں کہا جاتا ہے کہ کسی کو امن و امان خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، ملزموں کی گرفتاری کا حکم دے دیا گیا ہے، کچھ ملاقاتیں ہوتی ہیں اور پھر معمول کی سرگرمیاں بحال ہو جاتی ہیں۔ یہ رویہ ہماری اجتماعی شناخت بن گیا ہے۔ اگر کہیں خود کش حملہ ہوتا ہے تو مذہبی رہنما یہ کہہ کر معاملہ دبا دیتے ہیں کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں کر سکتا، غیر ملکی طاقتیں پاکستان کو تباہ کرنا چاہتی ہیں۔

اپوزیشن سیاستدانوں کی طرف سے یہ بیان آتا ہے کہ حکومت ناکام ہو گئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علماء کرام ہوں یا سیاستدان اور یا حکومت کے اکابرین سب ملک کو درپیش خطرات کی سنگینی سے آگاہ نہیں ہیں، اگر انھیں آگاہی ہے تو پھر وہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ پاکستان داخلی و بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ لسانی، ثقافتی، صوبائی اکائیوں کے درمیان یکجہتی کے ساتھ ساتھ مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

مسلح افواج، آئی ایس آئی اور حکومت نے جراتمندی کا مظاہرہ نہ کیا تو خدانخواستہ پاکستان دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا، خدارا! پاکستان کے لوگوں کو پاکستانی سمجھو اور پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچالو، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ اور اتحاد بین المسلمین کے سلسلے میں جلد ازجلد ایک فورم تشکیل دیں جس میں تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کی نمایندگی ہو۔ ان کی یہ باتیں بالکل درست ہیں، پاکستان واقعی مشکل ترین حالات سے دوچار ہے۔

طاقت کے تمام مراکز کو اس صورت حال سے نکلنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا۔ پاک فوج دہشت گردوں سے برسر پیکار ہے، پاک فوج کے جوانوں کی قربانیاں سب کے سامنے ہیں۔ وہ اپنا کردار بخوبی نبھا رہے ہیں۔ ملک میں اس وقت جمہوری حکومت ہے۔ اس میں رہنما کردار پیپلز پارٹی کا ہے۔ ایم کیو ایم‘ اے این پی اور مسلم لیگ ق اس کی اتحادی ہیں۔ بلوچستان میں امن قائم کرنا وہاں کی حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے۔

یہ مشاہدہ میں آ رہا ہے کہ بلوچستان میں سماجی ناہمواری کو ختم کرنے کے لیے مرکزی حکومت نے کوئی کام کیا اور نہ صوبائی حکومت نے اس جانب کوئی قدم اٹھایا۔ ایک قبائلی معاشرے میں امن قائم کرنے کا میکنزم اور ہوتا ہے اور ایک ترقی یافتہ اور کاروباری معاشرے میں قیام امن کا طریقہ اور ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ارباب اختیار کے علم میں بھی یقیناً ہوگی لیکن افسوس کہ اس حوالے سے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

60 برس سے بھی زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بلوچستان کے سماجی نظام میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکی۔ یہی یہاں کی پسماندگی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ ادھر کراچی کی صورتحال پر بھی غور کریں تو وہاں بھی امن و امان کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ اس شہر میں قتل و غارت کی وجوہات بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں بدامنی کی وجوہات سے بالکل مختلف ہیں۔ سندھ میں لاقانونیت کو فروغ دینے میں وہاں کی جاگیردارانہ قوت کا عمل دخل ہے۔

پنجاب میں جرائم اور قتل و غارت کی بھر مار بھی اس لیے ہے کہ یہاں کے طاقتور طبقے قانون کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ یوں دیکھا جائے تو پاکستان میں دہشت گردی‘ فرقہ واریت اور قتل و غارت کی وجوہات کثیر الجہتی ہیں۔ دہشت گردوں کا ایجنڈا سیاسی ہے۔ وہ مذہب کی آڑ میں اپنے سیاسی ایجنڈے کو لوگوں پر نافذ کرنے کے لیے اقتدار پر قبضہ چاہتے ہیں۔ فرقہ واریت بھی اسی گروہ کا ایک ہتھیار ہے۔ یہ وہ گروہ ہے جس کی قوت کو ختم کرنا سب سے اہم ہے کیونکہ عمومی جرائم پیشہ افراد کا قلع قمع کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

دہشت گردوں اور فرقہ پرستوں کے خاتمے کے لیے علمائے کرام‘ مشائخ عظام‘ مذہبی سیاسی جماعتوں اور ملک کی سیاسی قیادت کو مصلحت اندیشی کو ترک کرنا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی نظریاتی عصبیتوں کو کنٹرول میں رکھ کر خود کو دہشت گردوں اور فرقہ پرستوں سے علیحدہ کرنا ہو گا۔ ملک کے حساس اداروں اور انتظامی افسران کو بھی ذہنی طور پر یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ دہشت گرد اور فرقہ پرست اس ملک اور قوم کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں اور ان سے بے رحمی سے نمٹا جانا چاہیے۔

باقی رہ گئے نسلی اور لسانی گروہ ان کے ساتھ بھی اس قسم کے رویے کا ہی مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔ محض اچھی اچھی باتیں کرنے سے حقیقتیں تبدیل نہیں ہوتیں۔ پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے اس دور سے گزرنے کے لیے ہمیں جرات اور ہمت کے ساتھ ساتھ خود احتسابی کا اہتمام بھی کرنا ہو گا۔ دشمن کا چہرہ بے نقاب ہو جائے تو پھر مقابلہ کرنا کوئی مشکل نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔