سود خور وزارت مذہبی امور

جاوید چوہدری  جمعرات 12 دسمبر 2019
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ریئلٹی اور پرسیپشن میں کتنا فرق ہوتا ہے آپ اس کی تازہ ترین مثال ملاحظہ کیجیے۔

پاکستان مذہب کے نام پر بننے والا دنیا کا دوسرا ملک تھا‘ پہلا ملک اسرائیل تھا‘ ہمارا ملک اسلامی تشخص کے لیے مسلمانوں نے اسلام کے نام پر بنایا تھا‘ ہمارا آئین بھی کہتا ہے پاکستان میں کوئی قانون اسلامی روح کے منافی نہیں بنے گا‘ ملک میں کوئی غیر مسلم وزیراعظم اور صدر نہیں بن سکتا‘ افواج پاکستان کے سربراہان اور اسلامی نظریاتی کونسل کا سربراہ بھی ہمیشہ مسلمان ہوتا ہے۔

اس اسلامی جمہوری ریاست نے1948 میں مذہبی امور کی وزارت قائم کی تھی‘ یہ وزارت علماء کرام‘ مدارس‘ وقف املاک اور تعلیمی سلیبس میں اسلامی روایات جیسے امور کا خیال بھی رکھتی ہے اور عمرہ اور حج کے انتظامات بھی کرتی ہے‘ پاکستان کا کوئی شہری وزارت مذہبی امور کو بائی پاس کر کے حج نہیں کر سکتا‘ آپ اگر پرائیویٹ حج بھی کرنا چاہیں تو بھی آپ کو اجازت بہرحال مذہبی امور کی وزارت ہی دے گی‘ پاکستان کی ہر حکومت یہ وزارت کسی نہ کسی دین دار یا مذہبی اسکالر کے حوالے کرتی ہے‘ مولانا نورالحق قادری اس وقت اس کے وفاقی وزیر ہیں۔

یہ عالم دین بھی ہیں اور گدی نشین بھی‘ وزارت مذہبی امور کے ساتھ بے شمار علماء اور مشائخ بھی منسلک رہے‘ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین جیسے بین الاقوامی اسلامی اسکالر بھی اس کے وزیر رہے‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اس مذہبی امور کی وزارت نے 9 دسمبر کو قومی اسمبلی میں انکشاف کیا وزارت کے بینک اکاؤنٹس سیونگ ہیں اور وزارت حجاج کرام کی رقموںپر باقاعدہ سود لیتی ہے۔

وزارت کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق 2018 میں 3 لاکھ 74 ہزار 857 پاکستانیوں نے حج کے لیے درخواستیں اور رقم جمع کرائی ‘ وزارت نے اس رقم سے 21 کروڑ روپے سود کمایا جب کہ پانچ برسوں میں وزارت کو ایک ارب 17 کروڑ روپے سود ملا‘ وزارت نے انکشاف کیا قرعہ اندازی میں جن عازمین کے نام نہیں نکلتے ان کی اصل رقوم واپس کر دی جاتی ہیں جب کہ سود وزارت رکھ لیتی ہے‘ سود کی یہ رقم بعد ازاں حجاج کرام کی ویکسی نیشن‘ ٹریننگ‘ ادویات اور میڈیا کمپیئن پر خرچ ہوتی ہے۔

یہ ایک دلچسپ انکشاف تھا‘ آپ غور کیجیے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ وزیراعظم عمران خان‘ حکومت کا وژن ریاست مدینہ‘ وزارت کا نام مذہبی امور‘ رقم حاجیوں کی اور حاصل کیا ہو رہا ہے‘ سود اور سود کیا ہے؟ وہ فعل جسے اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے حرام بھی قرار دیا اور جرم بھی کہا اور سود خوروں کو اللہ کا دشمن بھی ڈکلیئر کیا اور اس شریعت کی محافظ وزارت نہ صرف سود لے رہی ہے بلکہ سود کی یہ رقم حج اور حاجیوں پر بھی خرچ کر رہی ہے۔

یہ کیا ہے اور کیا یہ رقم جائز ہے؟ یہ فیصلہ بہرحال علماء کرام کریں گے لیکن جہاں تک عوام کا تعلق ہے یہ حکومت کی اس حماقت کو منافقت یا ریاکاری کہیں گے مگر میں اسے حقیقت (ریئلٹی) سمجھتا ہوں‘ وہ ریئلٹی جس سے آنکھیں چرانا اب ناممکن ہو چکا ہے‘ہمارا پرسیپشن یہ ہے ہم پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں اور عمران خان اسے جہانگیر ترین کی مدد سے ریاست مدینہ میں تبدیل کر رہے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے مذہبی امور کی وزارت بھی سود کے بغیر نہیں چل سکتی‘ حاجیوں کو ویکسی نیشن اور ٹریننگ بھی سود کی رقم سے دی جاتی ہے اور ادویات بھی‘ پرسیپشن یہ ہے ہم اسلامی معاشرہ ہیں لیکن ریئلٹی یہ ہے پاکستان کی وسکی نے 2007 میں انٹرنیشنل ایوارڈ حاصل کیا تھا۔

پرسیپشن یہ ہے ہم مشرقی روایات میں بندھے ہوئے لوگ ہیں‘ ہم خواتین کو انتہائی محترم سمجھتے ہیں اور ہم حیاء دار لوگ بھی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے چائلڈ پورنو گرافی کا دنیا کا سب سے بڑا مجرم سہیل ایاز پاکستانی تھا‘ یہ 12 نومبر 2019 کو روات سے گرفتار ہوا اور یہ دوسال تک سرکاری ملازم رہا‘ریئلٹی یہ ہے نوجوان لڑکی دعا منگی ڈی ایچ اے کراچی سے 30 نومبر کو لوگوں کے سامنے اغواء ہوئی اور یہ تاوان ادا کر کے گھر واپس آئی اور 8سال کی لائبہ کی لاش کراچی کی بھینس کالونی کے باڑے سے ملی۔

یہ دودھ لینے کے لیے 7 دسمبرکو گھر سے نکلی تھی اور پرسیپشن یہ ہے ہم ایک دین دار معاشرہ ہیں لیکن حقیقت یہ ہے پاکستان منشیات کی دنیا کی بہت بڑی مارکیٹ ہے‘ ہمارے 80لاکھ لوگ نشئی ہیں‘ ہمارا انسداد منشیات کا وزیر اپنی زبان سے کہتا ہے اسلام آباد کے تعلیمی اداروں کی 75فیصد طالبات اور 45 فیصد طلباء منشیات کے عادی ہیں۔

آپ پرسیپشن اور ریئلٹی کا گیپ ملاحظہ کر لیجیے اور اس کے بعد اپنے دعوے‘ اپنے نعرے دیکھ لیجیے‘ مجھے اکثر محسوس ہوتا ہے ہم سلیپر پہن کر میراتھن چیمپئن بننا چاہتے ہیں‘ ہمیں بہرحال اس کنفیوژن سے نکلنا ہوگا‘ ہم جتنا جلدی نکل آئیں گے یہ ہمارے لیے اتنا ہی اچھا ہو گا‘ہمیں اب فیصلہ کرنا ہو گا ہم اگر اسلامی ریاست ہیں تو پھر ہمیں اسلام مکمل طور پر نافذ کرنا ہو گا‘ ہمیں پھر فوری طور پر قرآن کو اپنا قانون‘ آئین اور ضابطہ بنانا ہو گا‘ ہم میں سے پھر کوئی شخص نماز‘ روزے‘ زکوٰۃ اور حج سے منہ نہیں موڑ سکے گا‘ بچے سے لے کر بوڑھے تک ملک کا ہر شہری پھر پانچ وقت مسجد میں ہو گا۔

اذان کے بعد پھر تمام کاروبار بند ہوں گے‘ خواتین پھر مکمل پردہ کریں گی‘ گھروں میں رہیں گی اور ان کا ایک ہی کام ہو گا بچے پیدا کرنا اور بس‘ یہ جو ہم خواتین کی کرکٹ‘ ہاکی اور فٹ بال ٹیمیں بنا دیتے ہیں ہمیں یہ سلسلہ فوراً بند کرنا ہوگا‘ ملک میں پھر شراب‘ چرس‘ ہیروئن‘ مارفین اور آئس کی ایک ہی سزا ہو گی اور وہ ہو گی سزائے موت‘ زانیوں کو پھر سنگ سار کیا جائے گا‘ قاتلوں کے سر قلم ہوں گے اور چوروں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے‘ ملک میں پھر کوئی بینک بھی نہیں ہوگا اور کوئی ٹیکس بھی وصول نہیں کیا جائے گا۔

ہم میں سے ہر شخص صرف زکوٰۃ اور عشر دے گا اور وہ بھی خود اپنے ہاتھوں سے‘ ریاست کسی سے کوئی رقم وصول نہیں کر سکے گی اور ہم اگر ایک لبرل جمہوری ملک ہیں تو پھر ہمیں جمہوریت اور لبرل ازم دونوں کو اپنی پوری اسپرٹ کے ساتھ نافذ کرنا ہوگا‘ ہم میں سے کون کیا کر رہا ہے‘ دنیا کا کوئی شخص ہم سے نہیں پوچھ سکے گا‘ ملک میں پھر شراب پینے والوں کو شراب اورعبادت کرنے والوں کوعبادت کی سہولت حاصل ہو گی‘ہمیں پھر امریکا‘ کینیڈا‘ ہالینڈ اور ڈنمارک کی طرح لوگوں کو چرس اور گانجے کی اجازت بھی دینا ہو گی۔

ملک میں پھر کوئی کسی سے اس کے عقائد کے بارے میں بھی سوال نہیں کر سکے گا‘ ہمیں پھر خواتین کو مردوں کے برابر حقوق بھی دینا ہوں گے‘ یہ جاب سے لے کر شادی تک اپنے سارے فیصلے خود کر سکیں گی‘ یہ جینز پہننا چاہیں یا اسکرٹ ہم نہیں روک سکیں گے‘ ملک میں پھر پارٹی کلچر بھی پروان چڑھے گا‘ بیچز بھی بنیں گے‘ بینک سود پر رقمیں بھی دیں گے اور جواء خانے بھی کھلیں گے اور ہمیں پھر سیاسی جماعتوں کو بھی ان کے منشور کے مطابق کام کرنے کی اجازت دینا پڑے گی۔

دنیا میں یہ دونوں ماڈلز موجود ہیں اور یہ دونوں کام یابی کے ساتھ چل رہے ہیں لیکن ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم شراب سازی کی فیکٹری بھی چلارہے ہیں‘ وزارت مذہبی امور حاجیوں کی رقم سے سود بھی کما رہی ہے‘ ہم بے پردگی کو عورتوں کا بنیادی حق بھی سمجھ رہے ہیں‘ ہم اپنی مرضی سے نماز پڑھنا اور چھوڑنا بھی چاہتے ہیں‘ ہم شہریوں سے 82 فیصد تک ٹیکس بھی وصول کر رہے ہیں‘ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے سود پر قرضے بھی لے رہے ہیں‘ ہم اسٹیٹ بینک اور اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے اکانومی بھی کنٹرول کر رہے ہیں۔

ہمارے وزیر عوام میں کھڑے ہو کر تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کا اعتراف بھی کررہے ہیں اور ہم دوسری طرف ملک کو مدینہ کی ریاست بھی بنانا چاہتے ہیں‘ کیا دنیا میں کبھی لسی اور چائے دونوں اکٹھی بن سکی ہیں؟ کیا دنیا میں کسی جگہ لبرل مولوی کی گنجائش موجود ہے اور کیا دنیا میں کسی جگہ سود خور وزارت مذہبی امور بھی موجود ہے؟ جی نہیں! دنیا بہت کلیئر ہے‘ فلاسفی کے دو ہی رنگ ہوتے ہیں‘ وائٹ یا پھر بلیک‘ بلیک اینڈ وائٹ دونوں نظریات اکٹھے نہیں چل سکتے‘ رائٹ رائٹ ہوتا ہے اور لیفٹ لیفٹ‘ انسان بیک وقت لیفٹ رائٹ دونوں سائیڈوں پر نہیں چل سکتا‘ ہم نے اگر مدینہ جانا ہے تو پھر اس کی ڈائریکشن لینا ہو گی اور ہم نے اگر واشنگٹن جانا ہے تو پھر ہمیں پوری اسپرٹ کے ساتھ واشنگٹن کی طرف دوڑنا ہوگا‘ ہم کبھی ادھر اور کبھی ادھر میں بڑا وقت برباد کر چکے ہیں۔

ہم مزید وقت برباد کر رہے ہیں‘ ہم اس صورت حال میں زیادہ عرصہ نہیں چل سکیں گے‘ ہمارے سامنے پوری تاریخ کھلی پڑی ہے‘ کنفیوژن رومن ایمپائر جیسی طاقتوں کو بھی نگل گئی تھی‘ یہ سوویت یونین کو بھی کھا گئی اور یہ اب ایران‘ سعودی عرب‘ اردن اور مصر کی طرف بھی بڑھ رہی ہے‘ یہ ملک بھی جلد یا بدیر دائیں یا بائیں کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے‘ سعودی عرب اور ایران میں تبدیلیاں آ رہی ہیں‘ مجھے محسوس ہوتا ہے شریعت سعودی عرب میں مکہ اور مدینہ اور ایران میں قم اور مشہد تک محدود ہو جائے گی جب کہ باقی شہر یورپی بن جائیں گے‘ دنیا میں جب اصل اسلامی ریاستیں ری شیپ ہو رہی ہیں تو پھر ہم کتنی دیر خود کو دھوکا دے لیں گے۔

میری وزیراعظم سے درخواست ہے آپ ریاست مدینہ کی تسبیح بند کر دیں یا پھر آپ ملک کو سود اور منشیات سے پاک فرما دیں اور اس کا آغاز سود خور وزارت مذہبی امور سے کریں‘ ہم تیتر کو زیادہ دیر تک بٹیر ثابت نہیں کر سکیں گے‘ ہمیں شلوار یا اسکرٹ کسی ایک کا فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ ہم دونوں سے محروم ہو جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔