کشمیریوں کا ’’خاموش قتل عام‘‘ …بھارتی منصوبہ بندی

سراج الحق  جمعرات 12 دسمبر 2019
حکومت گرانا ہمارے لیے مشکل نہیں بس قوم کو تیار کرنا چاہتے ہیں تا کہ پھل قوم کی جھولی میں گرے (فوٹو: فائل، ایکسپریس)

حکومت گرانا ہمارے لیے مشکل نہیں بس قوم کو تیار کرنا چاہتے ہیں تا کہ پھل قوم کی جھولی میں گرے (فوٹو: فائل، ایکسپریس)

سوا تین مہینے سے جاری کرفیو کا ایک ہی مقصد نظر آتا ہے کہ کشمیریوں کو اسلحہ و بارود کے ذریعے وسیع پیمانے پر ہلاک کرنے کی بجائے انھیں ان کے گھروں میں قید کر کے بھوکا پیاسا اور بیمار کر کے مار دیا جائے۔ اس طرح ہلاکتیں بھی وسیع پیمانے پر ہوجائیں گی۔

لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں باہر بھی نہ لاسکیں گے اور گھروں ہی میں دفنانے پر مجبور ہوں گے، مودی سرکار اسلحہ و بارود کے ذریعے وسیع پیمانے پر ہلاکتوں کے جرم کا بار بھی براہ راست اپنے اوپر لینے سے بچ جائے گی۔ کسی بھی قسم کا ملکی یا غیر ملکی میڈیا جب وہاں جا کر خود کچھ نہیں دیکھ سکتا تو کسی کو دکھائے گا کیا؟ اور انٹرنیٹ کی پابندی نے اس امکان کا بھی خاتمہ کر دیا کہ کشمیری کسی کو کچھ بتا سکیں یا دکھا سکیں۔ وسیع پیمانے پر کشمیریوں میں ’’طبعی اموات‘‘ کی تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی اس قدر واضح ہوکر سامنے آچکی ہے کہ اس کا اعلان کرنے کی ضرورت بھی باقی نہیں رہی۔

کس قدر خاموش مکاری، سفاکی اور جلادانہ طریقے سے مسلمان کشمیریوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے! لیکن مسلمان کشمیری عورتوں کی عصمتوں کا قتل عام توا علانیہ جاری ہے۔ آر ایس ایس اور شیو سینا کے عزتوں کے ڈاکو لٹیرے تو یہ اعلان کر کے کشمیر میں داخل ہوئے تھے کہ ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں وہ مسلمان حکمرانوں کی غیرت وحمیت کو خوب ناپ تول کر دیکھ چکے تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ پاکستان کے جو حکمران ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں کمزور سی آواز میں بھی امریکا کے سامنے اس کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتے وہ ہمیں کیا روکیں گے۔

تو کیا ہمارے حکمران اس سب کے باوجود بھی خاموش رہیں گے؟

کیا ہم کشمیریوں کو یہ کہہ دیں کہ جب تمھارے پیارے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دنیا سے رخصت ہوجائیں تو تم ان کو وزیر اعظم پاکستان کی اقوام متحدہ کی تقریر سنا دینا۔ آئیے اب حکمرانوں کے کچھ مزید بیانات کا جائزہ لیں۔

’’جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، معاملات بالآخر مذاکرات کی میز پر ہی طے پاتے ہیں۔‘‘

آج بھی یہ جملہ قیام امن کی خواہش کے اظہار کے موقع پر بولا جاتا ہے۔ تو کیا اس جملے کے وجود میں آنے کے بعد دنیا میں جنگیں نہیں ہوئیں یا نہیں ہو رہیں یا نہیں ہوا کریں گی؟

ایک اور جملہ سنیے، ’’قیام امن کی ہماری خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔‘‘ اس جملے کی ہر ان دو فریقین نے جگالی کی ہے جو حالت جنگ میں رہے ہوں تو کیا اس جملے کے اندر چھپی ہوئی دھمکی کسی جارح قوت کو جارحیت سے روک سکی؟

چلئے! ایک مزید جملہ سن لیجیے۔ ’’اگر دو ایٹمی طاقتیں آپس میں ٹکرا گئیں تو باقی دنیا کا بھی امن برباد ہوجائے گا۔‘‘ اس جملے کے ورلڈ میڈیا پر نشر ہونے کے بعد کیا امن کی خواہش مند باقی دنیا بیچ میں کود پڑی؟ ’’کیا دنیا میں ایسا امن قائم ہوچکا ہے کہ اب جنگیں ہوا ہی نہیں کریں گی؟‘‘

حالانکہ جنگیں تو دھڑا دھڑ ہورہی اور ایک حالیہ جنگ کا تو ہم خود بھی حصہ ہیں جو ہماری تھی ہی نہیں۔ افغانستان میں ہم ایسی جنگ لڑتے رہے جہاں ہمارے اور بھارت کے سمیت چار ایٹمی طاقتیں میدان جنگ میں تھیں اور اگر نیٹو کو بھی شامل کر لیں تو دنیا کی تقریبا تمام ایٹمی قوتیں بیک وقت ہی اس میدان کا ر زار میں موجود رہی ہیں۔

ابھی اس سوال کو رہنے دیجیے کہ اگر ہم امریکا کی دو جنگیں لڑ سکتے ہیں تو اپنی ایک جنگ کیوں نہیں لڑ سکتے؟

کچھ اور سوال اٹھاتے ہیں: کیا کسی حالت میں جنگ ناگزیر بھی ہوجاتی ہے؟ یعنی حالات کی کوئی ایسی سطح واقعتا ہوتی ہے کہ ایک ملک کی قوت برداشت جواب دے جائے اور ہر سفارتی کوشش بھی ناکام ہو جائے اور اس کے پاس جنگ کے سوا چارہ ہی نہ رہے؟

کیا واقعتا ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے، اور ملک و قوم کی کیا حکمت عملی ہوتی ہے یا وہ قوم کیا اقدام کرتی ہے؟ کیا وہ اس ناگزیر جنگ میں کود پڑتی ہے یا بیٹھی رہتی ہے؟

چلئے! آپ ایک کام کریں۔ کچھ پیرا میٹرز یا حدود مقرر کر لیں، اور یہ طے کر کے بتا دیں کہ کسی ایک ملک کو کسی دوسرے ملک کے خلاف اس وقت تک جنگ نہیں کرنی چاہیے جب تک کہ بات فلاں فلاں حد تک نہ پہنچ جائے۔ جب تک بات برداشت اور شرم غیرت کے حوالے سے فلاں حد تک نہ پہنچ جائے اس وقت تک جنگ نہیں کرنی چاہیے۔

یعنی اس مقرر حد کے بعد بھی اگر کوئی قوم خاموش بیٹھی رہے تو مان لیجیے کہ اس کے اندر قومی غیرت و حمیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ جب یہ پیمانہ یا حدود مقرر ہو جائیں تو ذرا حساب لگا کر بتائیں کہ کیا بھارت کشمیریوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے میں آپ کی مقرر کردہ حد تک پہنچ گیا ہے یا نہیں۔

اگر ان مقررہ حدود تک پہنچ گیا ہے یا اس سے بھی آگے نکل گیا ہے تو ہم اب تک اور اس کے باوجود خاموش کیوں بیٹھے ہیں۔ ہمارے اس فلمی قسم کے ڈائیلاگ کا کیا مطلب ہے کہ ’’ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘ عملًا اس ڈائیلاگ کے کیا معنی بنے۔ اور اگر بھارت کا ظلم ابھی ان مقررہ حدود تک نہیں پہنچا جو ہمیں جھنجھوڑ کر اٹھا کر کھڑا کر دے تو یہ بتا دیجیے کہ اب کشمیریوں کے ساتھ اور کیا ظلم مزید ہونا چاہیے جو ہمیں ہماری جنگ لڑنے کے لیے بھی اسی طرح آمادہ و تیار کردے جس طرح ہم امریکا کی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔

712ء میں جب کراچی کا نام دیبل تھا اور سندھ کے راجہ داہر کے بحری قزاتوں نے عربوں کے بحری جہاز کو لوٹ کر مسافروں کو یرغمال بنالیا تو یرغمالیوں میں سے ایک عورت نے اسلامی ریاست کے صوبہ عراق کے گورنر کو خط لکھ کر اس واقعہ سے آگاہ کیا۔

سترہ سالہ سپہ سالار محمد بن قاسم کو حملے کے لیے بھیجا گیا اور اس خطے کا تاریخ اور جغرافیہ آج ایک نئے آہنگ کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔ اگر یہ جنگ نہ ہوتی تو آج ہم اپنی موجودہ پہچان کے ساتھ یہاں موجود نہ ہوتے۔

خط لکھنے والی یرغمال عورت کے ساتھ وہ کچھ نہیں ہوا تھا جو ہماری کشمیری بہن بیٹیوں کے ساتھ ہوچکا ہے اور ہو رہا ہے۔ اگر جرأت مندانہ انداز میں للکار کر بھارت کو یہ کہہ دیا جائے کہ اگر اس نے کشمیری مسلمانوں پر ظلم کا سلسلہ نہ روکا تو ہم فی الفور جنگ کے لیے تیار ہیں۔ ہم مقبوضہ کشمیر میں گھس کر کشمیریوں کا دفاع کریں گے اور انھیں ظلم سے نجات دلائیں گے۔

اس للکار کا یقینی مطلب یہی نہیں ہے کہ یہ کہتے ہی جنگ چھڑ جائے گی۔ بلکہ یہ للکار حقیقتا ایسی صورت حال پیدا کر دے گی جسے بھارت اور بین الاقوامی برادری اور اداروں کی جانب سے سنجیدگی کے ساتھ لیا جائے گا کہ اب واقعتا کچھ ہوجائے گا۔ محاذوں پر فوجیں لگا دینے سے فورا ہی جنگ شروع نہیں ہوجاتی۔ پہلے مرحلے میں دشمن کو یہ پیغام دینا ہوتا ہے کہ قوم جاگ رہی ہے۔ بھارت ہمیں دھمکانے کے لیے دو مرتبہ سرحدوں پر فوجیں لگا چکا ہے اور دونوں مرتبہ ہزیمت کے ساتھ اسے واپس جانا پڑا تھا۔ دشمن سے چوکنا رہتے ہوئے ہمہ وقت جنگ کے لیے بھی تیار رہنا غیور قوموں کا طرز زندگی ہوتا ہے۔ جب جنگ ناگریز ہو چکی ہوتو امن کا پیغام بزدلی کہلاتا ہے۔

وزیر اعظم کے مخالف حلقے کشمیر پر ان کی پُراسرار بے عملی کی وجہ سے ان پر یہ الزام لگاتے رہتے ہیں کہ انھوں نے کشمیر کا سودا کر لیا ہے۔ ان پر یہ الزام بھی مسلسل سامنے آرہا ہے کہ انھیں کسی پُر اسرار ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اقتدار کے سنگھا سن پر بٹھایا گیا ہے۔

ایسے میں کشمیر پر ان کی خاموشی، امریکا کی جانب سے وزیر اعظم کی تعریفیں اور امریکا کا یہ کہنا کہ ان چند مہینوں میں پاکستان کی موجودہ حکومت کی جانب سے افغانستان کے حوالے جو تعاون ہوا وہ اس سے پہلے دو دہائیوں میں نہیں ہوا تھا، طالبان کو مذاکرات میں الجھا کر اور امریکی فوجوں کو افغانستان سے خاموش انخلاء کا راستہ ہموار کرنے جیسے اقدامات وزیر اعظم کے معترض حلقوں کے شکوک و شبہات کو یقین کی جانب لے جارہے ہیں۔ وزیر اعظم کو یہ بات خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگر انھوں نے کشمیر کے معاملے میں پاکستان اور کشمیر کے عوام کے نکتہ نظر سے مختلف کوئی ناپسندیدہ فیصلہ کیا تو بھارت کے خلاف جنگ کا محاذ خواہ کھلے یا نہ کھلے ان کے خلاف ایک ایسا محاذ کھل جائے گا جس کا وہ سامنا نہیں کر سکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔