کچھ نادیدہ خطرات اور خدشات

نصرت جاوید  جمعرات 31 اکتوبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

بار ہا اس کالم میں اپنے صحافی دوستوں اور مفکروں کو یہ بات یاد دلانے کی کوشش کرتا رہا ہوں کہ صرف کراچی ہی سندھ کا ایک بڑا شہر نہیں ہے۔ سکھر سے آگے بڑھیں تو دریائے سندھ کے دونوں کناروں کے ساتھ ساتھ لاڑکانہ، جیکب آباد، شکارپور، خیرپور، نوشہرو فیروز وغیرہ سے آپ حیدر آباد تک آتے ہیں۔ اس کے بعد ساحل سمندر صرف کراچی نہیں ٹھٹھہ اور بدین کے حصے میں بھی آتا ہے۔ سندھ کے ان شہروں میں گزشتہ 20برسوں کے دوران دیہی پس منظر رکھنے والا ایک شہری متوسط طبقہ بڑی تیزی سے اُبھر کر ہمارے سامنے آیا ہے۔ اس طبقے کے پڑھے لکھے نوجوان سیاسی اور ثقافتی حوالوں سے بڑے متحرک ہیں۔ ان کی سوچ اور جذبوں میں اکثر دوسروں کو حیران کر دینے والی شدت  بھی نظر آتی ہے۔ سیاسی حوالوں سے جسے ’’اندرون سندھ‘‘ کہا جاتا ہے آج کل بھی ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی پاکستان پیپلز پارٹی کا سب سے طاقتور گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ بات مگر اتنی سادہ نہیں۔

بادی النظر میں محسوس کی جانے والی حقیقتوں کی تہہ میں انگریزی زبان والے کافی پیچیدہ Subtexts بھی پوری توانائی کے ساتھ موجود ہیں۔ پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا کے عادی افراد ان سب سے مگر قطعی بے خبر ہیں۔ اس لاعلمی کی سب سے بنیادی وجہ یہ ہے کہ سندھی زبان کا اپنا میڈیا بڑا جاندار ہے۔ وہاں کے صحافی اور لکھاری کسی دوسری زبان میں اپنی سیاسی، ثقافتی اور سماجی حقیقتوں کو بیان کرنے کی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ Sindh-Centricمعاملات سندھی زبان ہی میں اسے بولنے اور سمجھنے والوں تک پہنچانے تک محدود رہتے ہیں۔ ذاتی طور پر میں اس رویے کو نہیں سراہتا۔ بڑی دیانت داری سے بلکہ یہ سمجھتا ہوں کہ سندھ کے دانشوروں کو پاکستان کے دوسرے ثقافتی گروہوں تک اپنی بات پہنچانے کی کوشش بھی کرنا چاہیے۔ مگر ان دانشوروں کا تساہل یا لاپرواہی مجھ جیسے صحافیوں کو اس بات سے ہرگز نہیں روکتی کہ وہ خود تھوڑی سی محنت اور لگن کے ساتھ ان دنوں سندھ کے شہروں میں مقبول Discourse کو جاننے کے بعد اسے بیان کرنے کی کوشش کریں۔

آج ایک بار پھر مجھے سندھ کی یاد ستائی ہے تو اس کی وجہ وہ ’’کریکر‘‘ ہیں جو ’’نامعلوم افراد‘‘ نے اس صوبے کے تمام بڑے شہروں میں منگل کی رات سے ’’اچانک‘‘ چلانا شروع کر دیے۔ ہمارے اخبارات اور ٹیلی ویژن والوں نے مجھ جیسے اسلام آباد میں مقیم لوگوں کو ابھی تک صرف یہ بتایا ہے کہ سندھ کی ایک قوم پرست تنظیم نے ہڑتال کی کال دے رکھی تھی۔ مقصد اس ہڑتال کا اس آرڈیننس کے خلاف احتجاج کرنا تھا جو نواز حکومت نے دہشت گردی کے قوانین کو مزید موثر بنانے کے نام پر متعارف کروایا ہے۔ انسانی حقوق کے بارے میں متفکر رہنے والے کئی مبصرین نے اس آرڈیننس پر بہت سارے اعترضات اٹھائے ہیں۔ مگر اس کے خلاف کوئی احتجاجی تحریک چلانے کا عندیہ نہیں دیا۔ زیادہ سے زیادہ وہ اس بات کی توقع کیے بیٹھے ہیں کہ شاید ایوانِ بالا میں بیٹھے ہوئے اعتزاز احسن، رضا ربانی، فرحت اللہ بابر اور افراسیاب خٹک جیسے لوگ اس آرڈیننس کی شدید مزاحمت کریں گے۔ چونکہ پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادی ایوانِ بالا میں ان دنوں عددی اعتبار سے بڑے طاقتور ہیں تو خوش فہمی یہ بھی ہے کہ نواز شریف حکومت کا متعارف کردہ آرڈیننس شاید اپنی موجودہ شکل میں ایک باقاعدہ قانون کی صورت نہ حاصل کر پائے۔

سندھی قوم پرستوں کے ایک انتہاء پسند گروپ نے مگر ان امکانات کا انتظار ہی نہیں کیا اور اس آرڈیننس کے خلاف احتجاجی تحریک کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اسلام آباد بیٹھے ہوئے میں ہرگز اس قابل نہیں ہوں کہ اس تحریک کے کامیاب یا ناکام ہونے کے امکانات کا جائزہ لے سکوں۔ مگر ایک بات طے ہے کہ یہ تحریک چلانے کے خواہاں لوگ کافی منظم ہیں اور ان کا دائرہ اثر سندھ کے تمام بڑے شہروںاور قصبوں تک پھیلا ہوا ہے۔ ایک ہی روز اتنے شہروں میں تقریباََ ایک ہی وقت کریکرز کا چلایا جانا مجھے یہ بات کہنے پر مجبور کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی ٹھوس شواہد میرے پاس موجود نہیں۔

ایک اور حوالے سے لیکن میرے پاس یہ ٹھوس اطلاع ضرور موجود ہے کہ نواز حکومت کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرنے سے پہلے IMF نے پاکستان کے بارے میں جو ’’تجزیاتی رپورٹ‘‘ تیار کی اس میں کچھ صفحات ہماری آیندہ کی ممکنہ ’’سیاسی صورت حال‘‘ کے بارے میں بھی لکھے گئے ہیں۔ جن لوگوں نے ان صفحات کو بہت غور سے پڑھا ہے مجھے بتا رہے ہیں کہ IMF کے تجزیہ کاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد سندھ اور بلوچستان میں لسانی اور مسلکی بنیادوں پر ہماری ریاست کے لیے کافی پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ ہمارا مستعد اور چوکس بنا میڈیا IMF کے اس تجزیے سے ابھی تک تقریباََ لاعلم دِکھ رہا ہے۔ ان کی ساری توجہ تو فی الوقت پاکستان کی خود مختاری کو پائمال کرنے کے بعد بے گناہ قبائلیوں کو مارنے والے ڈرون حملوں کو رکوانے پر مرکوز ہے۔ یہ حملے رکیں تو نواز شریف اور عمران خان ہمارے ’’بھٹکے ہوئے‘‘Stakeholders سے امن مذاکرات کا آغاز کر سکیں گے۔ سندھ کے اتنے سارے شہروں میں منگل کی شام جو کچھ ہوا اس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ یہ سب کچھ اس خلفشار کی تیاریاں تو نہیں جس کے امکانات کی طرف IMF  کے تجزیہ کاروں نے واضح اشارے تحریری صورت میں ریکارڈ کا حصہ بنا ڈالے ہیں۔ خدشات تو میرے بہت معقول اور مناسب ہیں۔ مگر ان کے اسباب اور امکانات کا جائزہ لینا میرے بس کی بات نہیں۔ اس ضمن میں کسی اور سے رہنمائی درکار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔