روہنگیا مسلمانوں نے آنگ سانگ سوچی کے نسل کشی سے متعلق بیان کو مسترد کردیا

ویب ڈیسک  جمعرات 12 دسمبر 2019
چور کبھی اپنی چوری کا اعتراف نہیں کرتا لیکن شواہد اور ثبوتوں سے انصاف ممکن ہے، چیئرمین روہنگیاسوسائٹی، فوٹو: فائل

چور کبھی اپنی چوری کا اعتراف نہیں کرتا لیکن شواہد اور ثبوتوں سے انصاف ممکن ہے، چیئرمین روہنگیاسوسائٹی، فوٹو: فائل

کاکس بازار: روہنگیا مسلمانوں نے  نوبل انعام یافتہ نام نہاد سابقہ جمہوریت پسندی کی علامت آنگ سانگ سوچی کی عالمی عدالت انصاف میں میانمار کی حیثیت  سے اپنے ملک میں مسلمانوں کی نسل کشی کو مفروضہ قرار دینے کے بیان کو مسترد کردیا۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق روہنگیا مسلمانوں پر میانمار کی سرکاری فوج کے مظالم اور نسل کشی کی وجہ سے ملک چھوڑ کر بنگلادیش کی سرحد پر پناہ لینے والے اراکان روہنگیا سوسائٹی برائےامن و انسانی حقوق کے چیئرمین محمد محب اللہ نے خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آنگ سانگ سوچی کا عالمی عدالت انصاف میں دیا گیا بیان حقیقت کے منافی ہے ۔

کاکس بازار میں پناہ گزینوں کے کیمپ میں نیوز ایجنسی سے بات چیت  میں محب اللہ نے کہا کہ چور کبھی اپنی چوری کا اعتراف نہیں کرتا لیکن شواہد اور ثبوتوں سے انصاف ممکن ہے، عالمی برادری ہم سے سرکاری فوج کے مظالم اور روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے ناقابل تردید ثبوت حاصل کرسکتے ہیں۔

محب اللہ نے کہا کہ دنیا ثبوتوں کے بغیر آنگ سانگ سوچی کے دعوؤں کا فیصلہ نہیں کرے گی، ہمارے پاس ثبوت ہیں جو دنیا حاصل کرسکتی ہے، یہاں تک کہ اگر آنگ سانگ سوچی جھوٹ پر جھوٹ بولتی ہے تو بھی انہیں بخشا نہیں جائے گا،انہیں یقیناً انصاف کا سامنا کرنا پڑے گا اور دنیا کوبھی اس کے خلاف اقدامات اٹھانے چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:آنگ سان سوچی کا عالمی عدالت میں بیان

واضح رہے کہ گزشتہ روز عالمی عدالت انصاف میں  آنگ سانگ سوچی نے  میانمار کی سربراہ کی حیثیت سے اپنے ملک میں ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا دفاع کیاتھا، انہوں نے کہا کہ  2017 میں ہونے والے فسادات ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ کیا ایسے ملک میں نسل کشی کا تصور کیا جا سکتا ہے جہاں غیر قانونی عمل پر فوج کے آفیسرز اور اہلکاروں سے نہ صرف تفتیش کی جاتی ہے بلکہ انہیں کڑی سزائیں بھی دی گئیں۔ رکھائن کا معاملہ پیچیدہ ہے جہاں روہنگیا اقلیت کو کچھ مشکلات کا سامنا بھی ہے انہیں 2017 میں ہونے والے فسادات کے نتیجے میں لاکھوں افراد کے بنگلا دیش میں پناہ لینے کا علم ہے اور ان کی حالت زار پر افسوس بھی ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔