سانحہ سقوطِ ڈھاکا اور اعترافِ جرم

اویس حفیظ  پير 16 دسمبر 2019
سقوطِ ڈھاکا پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

سقوطِ ڈھاکا پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

سقوطِ ڈھاکا پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ ہے۔ اگرچہ پاکستانی قیادت نے اس سانحے پر ہمیشہ معذرت خواہانہ رویہ اپنایا ہے، مگر اس سانحے کے محرکات و اسباب وقت گزرنے کے ساتھ مزید واضح ہوتے جارہے ہیں۔ اس حوالے سے چند اہم بھارتی و بنگالی کرداروں کے بیانات پیشِ خدمت ہیں۔ اگر ان بیانات کو سانحہ سقوطِ ڈھاکا کے حوالہ سے اعترافِ جرم کہا جائے تو قطعی بے جا نہ ہوگا۔

’’بھارت نے کبھی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ بھارتی رہنما ہمیشہ سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کو قائم ہونا ہی نہیں چاہیے تھا اور یہ کہ پاکستانی قوم کو اپنا وجود برقرار رکھنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے‘‘۔ (سابق بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی، 30نومبر 1971)

’’میں 1948 سے بنگلہ دیش کے قیام کےلیے کام کرتا رہا ہوں‘‘۔ (شیخ مجیب الرحمٰن کا برطانوی صحافی ڈیوڈ فراسٹ کو انٹرویو، 16جنوری 1972)

’’اکتوبر 1969 میں قیامِ بنگلہ دیش (پاکستان توڑنے) کا جامع منصوبہ تیار کرلیا گیا تھا، یہ منصوبہ لندن میں تیار ہوا اور میں خود بھی وہاں موجود تھی۔ لندن کے اس اجلاس میں یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ فسادات کا آغاز کیسے ہوگا، علیحدگی پسندوں کو کہاں تربیت دی جائے گی اور انہیں کہاں اور کون پناہ دے گا‘‘۔ (شیخ حسینہ واجد، وزیراعظم بنگلہ دیش)

’’شیخ مجیب اور بھارتی خفیہ اداروں میں 1962 سے باہمی رابطے قائم تھے۔ مکتی باہنی کے قیام سے پہلے ہی بھارتی فوجی مشرقی پاکستان کے باغیوں کے ساتھ مل کر کام کررہے تھے۔ ہر چھ ہفتے کے دوران بھارت دو ہزار بنگالیوں کو گوریلا تربیت دیتا جو مکتی باہنی میں شامل ہوکر پاک فوج پر حملے کرتے۔ ’را‘ کے کارندوں اور بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس کے اہلکاروں کی کارروائیاں اس کے علاوہ تھیں‘‘۔ (اشوک رائنا، اِن سائیڈ را: دی اسٹوری آف انڈین سیکرٹ سروس)

’’1965 کی جنگ میں پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے میں ناکامی کے بعد سے مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کے لیے پانچ نکاتی پروگرام پر پوری قوت سے کام کا آغاز کیا گیا اور بنگلہ دیش کی پیدائش اسی کا منطقی نتیجہ ہے‘‘۔ (بانی بھارتی خفیہ ایجنسی را، بی رامن، Role of RAW)

’’ہم نے مکتی باہنی کے 80 ہزار افراد تیار کیے۔ ان میں اکثریت مغربی بنگال اورمشرقی بنگال کے ہندوؤں کی تھی۔ بہت سے لوگوں کو پاکستانی فوجی وردی پہنا کر آرڈر کیا جاتا کہ مشرقی پاکستان جاکر ریپ کرو تاکہ سارا الزام پاکستان پر آئے۔ یہ را کا آپریشن تھا‘‘۔ (جنرل مانک شا، سولجرنگ وِد ڈِگنیٹی)

’’اندرا گاندھی نے 1967 میں آئی بی کے سینئر افسر آر این کاؤ کے ساتھ مل کر ایک خفیہ منصوبہ تیار کیا، جس کا مقصد مشرقی پاکستان، بلوچستان اور صوبہ سرحد میں بغاوت کے جذبات کو تقویت دے کر ان کو علیحدہ ریاستوں میں تبدیل کرنا تھا۔ اس منصوبے کو ’’کاؤ پلان‘‘ کا نام دیا گیا‘‘۔ (آر کے یادیو، مشن R&AW)

’’بھارتی فوج کے سپاہی مکتی باہنی کے بھیس میں اپریل 1971 سے دسمبر 1971 تک مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج سے لڑتے رہے۔ ان خفیہ جنگی کارروائیوں میں اپنے پانچ ہزار سے زائد فوجی گنوانے کے بعد اندرا گاندھی نے کھلی جنگ کا حکم دیا‘‘۔ (سابق بھارتی وزیراعظم مرار جی ڈیسائی کی اطالوی صحافی اوریانا فلاسی سے گفتگو)

’’اگرتلّہ سازش کیس سو فیصد درست اور حقائق پر مبنی تھا۔ اس کا اعلان شیخ مجیب نے کرنا تھا مگر پاکستانی حکام کو اس سازش کا بروقت علم ہوگیا اور یوں یہ منصوبہ ناکام ہو گیا‘‘۔ (سابق ڈپٹی اسپیکر بنگلہ دیش کرنل ریٹائرڈ شاقات علی)

’’میں بھارت کو سو فیصد کریڈٹ دیتا ہوں کہ اس نے بنگلہ دیش کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا: شوکت علی، ڈپٹی اسپیکر بنگلہ دیشی پارلیمنٹ‘‘ (روزنامہ انڈی پینڈنٹ ڈھاکا 17دسمبر 2011)

’’1971 میں اندرا جی نے فیصلہ کیا کہ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے لیے آزاد بنگلہ دیش بنانے میں شیخ مجیب الرحمٰن کی مدد کی جائے۔ اس کے ساتھ وہ مغربی پاکستان میں بھی کارروائی کرکے دو مقاصد حاصل کرنا چاہتی تھیں، یعنی مغربی پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا اور پاکستان کے زیرِ قبضہ کشمیر کو آزاد کرانا‘‘۔ (بی جے پی رہنما ایل کے ایڈوانی)

’’ہم نے بنگلہ دیش کے وقار کی خاطر مکتی باہنی کے ساتھ مل کر پاکستان سے لڑائی کی۔ ہندوستانی ان کے شانہ بشانہ لڑے اور ایک طرح بنگلہ دیش کے خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے میں ان کی مدد کی‘‘۔ (بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا 7 جون 2015 کو ڈھاکا میں بیان)

’’بھارتی سپاہی نو ماہ کی جنگ میں بنگالی گوریلوں کے شانہ بشانہ اور باقاعدہ مسلح مزاحمتی فوجوں کے ہمراہ پاکستان کے خلاف لڑے‘‘۔ (بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا 8 جون 2015 کو ڈھاکا یونیورسٹی میں خطاب)

’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ را نے ہماری آزادی کی جنگ کے دوران ایک اہم کردار ادا کیا، تاہم ان کا مقصد پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنے جانی دشمن کو کمزور کرنا تھا۔ ان کا خفیہ مقصد ایک غیر منقسم ہندوستان کا قیام ہے جسے وہ اکھنڈ بھارت ماتا کہتے ہیں‘‘۔ (میجر جنرل (ر) زیڈ اے خان، سابق ڈائریکٹر ڈی جی ایف آئی، بنگلہ دیش)

’’25 دسمبر 1962 کو روزنامہ اتفاق کے ایڈیٹر مانک میاں نے شیخ مجیب الرحمٰن سے میرا تعارف کروایا۔ دو گھنٹے کی اس ملاقات میں مانک میاں نے وضاحت کی کہ وہ دراصل اٹانومی (صوبائی خودمختاری) کی آڑ میں بنگلہ دیش کے قیام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ مجیب الرحمٰن نے کہا کہ مجھے اپنی جدوجہد کےلیے ہندوستان کی مدد کی ضرورت ہے۔ پھر مجیب نے مجھے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کے نام ایک خط دیا جسے ڈپلومیٹک بیگ سے بھجوایا جانا تھا۔ اس خط میں بنگلہ دیش کی آزادی کا روڈمیپ دے کر بھارت سے ہر قسم کی مدد کا مطالبہ کیا گیا تھا‘‘۔ (ساشِنکا ایس بینر جی، آ لونگ جرنی ٹُو گیدر، انڈیا، پاکستان اینڈ بنگلہ دیش)

’’آپ جانتے ہیں کہ ہماری فیملی (نہرو خاندان) جب کسی کام کا وعدہ کرتی ہے تو اسے مکمل بھی کرتی ہے۔ ماضی میں گاندھی فیملی نے جو کام کیے، مکمل کیے وہ خواہ ملک کی آزادی جیسے مقاصد حاصل کرنا ہو یا پاکستان کے دو ٹکڑے کرنا…‘‘ (بھارتی کانگریسی رہنما راہول گاندھی کا انتخابی جلسے سے خطاب)

’’شیخ مجیب کے بیٹے جمال مجیب الرحمٰن نے پاک فوج سے مقابلے کےلیے ذاتی فوج ’’راکھی باہنی‘‘ کے نام سے تشکیل دی جس نے بنگلہ دیش میں مکتی باہنی اور دوسرے فسادی گروپوں سے زیادہ تباہی مچائی۔ مجیب ایسا تنگ نظر سیاست دان تھا جس کےلیے ذاتی مفاد اور پارٹی ہی سب کچھ تھا۔ شیخ مجیب الرحمٰن تاحیات صدر رہنے کا منصوبہ بناچکا تھا۔ لوگ بھوک سے مر رہے تھے اور سارا سرکاری خزانہ اس کے بیٹے، بھائی اور خاندان کے دوسرے افراد لوٹ رہے تھے… شیخ مجیب دراصل بھارت کا ایجنٹ تھا اور پرو انڈین ایجنڈے پر گامزن تھا۔ بنگالیوں کو اس نے میر جعفر کی طرح بھارت کو بیچ دیا تھا‘‘۔ (کرنل فاروق، شیخ مجیب کو انجام تک پہنچانے والے باغی فوجی دستے کے کمانڈر)

’’بنگالی مزاحمتی تحریک (مکتی باہنی) کےلیے بھارت نے اپنی سرزمین پر فوجی تربیتی مراکز، اسپتال اور سپلائی ڈپو مہیا کیے۔ دراصل بھارت پاکستان کے خلاف بنگلہ دیش کی طرف سے جنگ لڑ رہا تھا‘‘۔ (مشرقی پاکستان میں آخری امریکی قونصل جنرل، آرچر کینٹ بلڈ)

’’بلوچ یا بلوچی کا لفظ بنگالیوں کےلیے ایک تحفظ کی علامت سمجھا جاتا تھا اور بلوچ کا لفظ بنگالی زبان میں ایک باقاعدہ اصطلاح کی حیثیت اختیار کرگیا تھا، جس کا مطلب ’ایک اچھا یا تحفظ دینے والا فوجی‘ تصور کیا جاتا تھا…. علیحدگی پسند بنگالی ’’مغربی پاکستانیوں‘‘ کو ’’انویڈرز یا درانداز‘‘ کہتے تھے، حالانکہ اس جنگ میں درانداز صرف بھارت تھا‘‘۔ (شرمیلا بوس، ’’ڈیڈ ریکوننگ؛ میموریز آف دی 1971 بنگلہ دیش وار)

مذکورہ بالا تمام تر اعترافات اس کہانی کو کھول کر بیان کردینے کےلیے کافی ہیں، مگر پاکستان نے اس سب کے باوجود کھلا دل کرکے نہ صرف بنگلہ دیش کے وجود کو تسلیم کیا، بلکہ ہر مشکل اور کڑے وقت میں بنگلہ دیش کی مدد بھی کی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

اویس حفیظ

اویس حفیظ

ایک موقر ملکی روزنامے اورمقامی جریدے سے قلم کاتعلق قائم رکھنے والا اویس حفیظ، جو اپنی قلم طرازیوں کی بدولت ادب و صحافت سے تعلق جوڑنے کی ایک ناکام سعی میں مصروف ہے، خود بھی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے۔ جامعہ پنجاب سے ترقیاتی صحافیات میں ایم ایس سی تو ہوگئی تھی مگر تعلیم کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔