نوازشریف کارگل آپریشن کی اجازت دے کر بعد میں ُمکر گئے

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 15 دسمبر 2019
پاکستانی وزیراعظم کے برعکس اندراگاندھی نے امریکا کو حملہ نہ کرنے کا یقین دلا کر مشرقی پاکستان پرچڑھائی کی تھی، پاک بھارت عسکری تصادم کی تاریخ۔

پاکستانی وزیراعظم کے برعکس اندراگاندھی نے امریکا کو حملہ نہ کرنے کا یقین دلا کر مشرقی پاکستان پرچڑھائی کی تھی، پاک بھارت عسکری تصادم کی تاریخ۔

(قسط نمبر 12)

سابق وزیرا عظم محمد نواز شریف اور سابق صدر جنرل پرویز مشرف پاکستان کی تاریخ کے دو ایسے اہم کر دار ہیں، جن کی قسمت میں طویل اقتدار، شہرت،دولت کے ساتھ قید وبند، جلا وطنی، مقدمات، بیماریاں اور بدنامی بھی ساتھ ساتھ رہیں ۔ 3 نومبر2019 کو جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو یہ دونوں شخصیات  شدید بیماری کی حالت میں ہیں۔

محمد نواز شریف کو تین چار روز  جیل سے بوجہ بیماری سزا کی معطلی کے ساتھ  ضمانت پر دو ماہ کی رہائی ملی ہے جب کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف عدالت کی جانب سے مفرور اور ویسے بھی شدید بیمار اور جلا وطنی میں ہیں، یہ دونوں ہی مہم جو،غصیلے، ضدی اور مضبوط اعصاب کے مالک ہیں۔

البتہ اب عمر کے ڈھلنے اور بیماریوں کی وجہ سے چہروں سے کمزور دکھا ئی دیتے ہیں، اِن دونوں میں اگر تضاد ہے تو وہ یہ کہ نواز شریف صدر جنرل ضیاء الحق کے زیر سایہ سیاست میں متعا رف ہو کر اُن کی انتہا ئی مہربانی اور کرم نوازی سے اقتدار میں آئے، اور جنرل ضیا الحق کی وفات کے بعد تین مرتبہ وزیراعظم بنے اور بطور وزیرِ ا عظم اُنہوں نے اپنے اقتدار کے تین مراحل میں فوج سے اور خصوصاً آرمی چیف کے ساتھ مفاہمت کی بجائے مخاصمت کا رویہ رکھا۔

جب کہ پرویز مشروف فوجی جنرل کے طور پر ایک کامیاب اور مہم جو سپہ سالار کے طور پر سامنے آئے اور اپنے جوہر دکھانے اور وقت کی نزاکت سے فائدہ اٹھانے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ مل کر مہم جوئی کی کوشش کی اور پھر اقتدار میں آئے اور آغاز میں اصولوں کو اپنائے رکھا مگر بعد میں اقتدار کے لالچ میں بہت سے اصولوں سے انحراف کیا، بد قسمتی سے اِن کے دور میں نواب اکبر خان بگٹی اور محترمہ بینظیر بھٹو کے جاں بحق ہونے کے واقعات ہوئے، اور خصوصاً 11 ستمبر2001 کے سانحے کے بعد اُنہوں نے جو کردار ادا کیا اُس پر اب تک منفی اور مثبت دو انداز سے مباحثے جاری ہیں۔

ایک موقف یہ ہے کہ گیارہ ستمبر 2001 کے بعد امریکہ نے پوری دنیا کے ساتھ مل کر کوئی راستہ نہیں چھوڑا تھا اور اگر مشرف یوٹرن نہ لیتے تو اُس وقت پاکستان کو بہت ہی شدید نقصان سے گزرنا پڑتا اور پاکستان کا ایٹمی پر وگرام جو1998 میں اعلانیہ بھارت کے مقابلے میں سامنے آیا تھا اُسے تین سال بعد ہی رول بیک کر دینا پڑتا پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا تو امریکہ کی جانب سے یہ کہا جانے لگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پرویز مشرف حکومت نے وہ تعاون نہیں کیا جو کرنا چاہیے تھے اور پھر آنے والے دنوں میں امریکہ متواتر پاکستان سے ڈومور کا تقاضا کر تا رہا۔

دوسرے نقطہ نظر سے تعلق رکھنے والوں کا خیال ہے کہ گیارہ ستمبر 2001 کے بعدامریکہ کا ساتھ دے کر پا کستان نے شدید غلطی اور بہت زیاد ہ نقصان اٹھایا، اسی طرح نواز شریف پر یہ تنقید رہے گی کہ نواز شریف کو ئی نظریاتی سیاست دان نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح خارجی،داخلی یا اقتصادی طور پر پاکستان کو دنیا میں کوئی مقام دلایا البتہ یہ ضرور ہے کہ انہوں نے اپنی پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط رکھی اور باوجود اقتدار کے جانے کے اور یہاں تک کہ معاہدہ کر کے جلا وطن ہونے کے برسوں بعد دوبارہ اقتدار بھی پارٹی پر اپنی گرفت کی وجہ سے حاصل کیا۔

دونوں شخصیات نے بڑے مسائل کا سامنا بھی کیا اور اسی طرح اپنے دور اقتدار میں اختیارات اور قوت کے ساتھ حکمرانی بھی کی، 1984 میں بھارت نے سیا چن پر قبضہ کیا تھا اور پھر 1987 اور1989 میںسیا چن کے محاذ پر لڑائیاں ہوئیں،آپریشن میگا ڈوٹ Operation Meghdoot جو انڈیا کی جانب سے سیا چن میں 1984 میں کیا گیا تھا اس میں پرویز مشرف لیفٹیننٹ جنرل زاہد علی اکبرکے ساتھ بطور بریگیڈیئر شریک تھے اور کار گل کی جنگ کا آئیڈیا پاکستانی فوجی اعلیٰ کمانڈ نے تیار کیا تھا اور 1986 کے بعد اِس منصوبے پر سربراہان سے بات چیت بھی ہوتی رہی۔

مسلم لیگ ن نے 1997 کے انتخابات میں کل ڈالے گئے ووٹوں کا 45.9% لے کر قومی اسمبلی کی207 جنرل نشستوں میں سے 137 نشستیں حاصل کیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے21.8% ووٹوں کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی صرف 18 نشستیں حاصل کر سکی۔ 17 فروری1997 کو نوازشریف دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوئے اور پھر ان کو181 اراکین نے اعتماد کا ووٹ دیا۔ 2 دسمبرکو صدر فاروق لغاری نے استعفٰی دیا، 3 دسمبر1997 کو جسٹس سجاد طویل رخصت پر چلے گئے،17 اکتوبر 1998 کو نوازشریف نے جنرل پرویز مشرف سے آرمی چیف کا حلف لیا کیونکہ جنرل جہانگیر کرامت جنہوں نے 9 جنوری1999 کو ریٹائر ہونا تھا انہوںنے پہلے ہی استعفٰی دے دیا تھا۔

نواز شریف پورے اختیارات کے ساتھ تیزی سے اہم عہدوں اور اداروں میں ردوبدل کر رہے تھے، وہ آئینی طور پر 58-B2 کا خاتمہ کر چکے تھے، جنرل پرویز مشروف کے آرمی چیف بننے کے تقریباً ساڑھے چھ مہینے بعد 3مئی 1999 ء میں کارگل کی لڑائی ہوئی جس کے بارے میں پہلے یہی کہا گیا کہ یہ کاروائی کشمیری حریت پسندوں نے کی ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ پشت پناہی پاکستانی فوج نے کی تھی۔ اُس وقت بھارت میں اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم تھے جو فروری 1999 میں لاہور آکر اعلان لاہور پر دستخط کر چکے تھے۔

بھارتی فوج کے سربراہ جنرل ودیہ پر کاش مالک تھے اور کارگل کی جنگ میں کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل چندرا شیکر ٖفضائیہ کے سربراہ انیل یسونت تھے۔ بھارتی فوج کی تعداد 30000 تھی، بھارت کے مطابق جنگ میں 527 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے اور 1363 زخمی ہوئے بھارت کے دو طیارے اور ایک ہیلی کوپٹر تباہ کیا گیا۔ پاکستان میں آرمی چیف جنرل پرویز مشرف تھے۔ کمانڈ پر لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان تھے۔

فضائیہ کے سربراہ ایر چیف مارشل پرویز مہدی قریشی تھے۔ کارگل جنگ میں 453 پاکستانی فوجی شہید ہوئے اور 357 زخمی ہوئے۔ تقسیم ہند اور آزادی سے قبل کارگل لداخ کی ایک تحصیل تھا، لداخ کا یہ علاقہ جو اب گلگت  بلتستان کہلاتا ہے1947-48 کی پاک بھارت جنگ کے بعد سے یہ علاقہ پا کستان کا ہے، 1972 کے شملہ معاہدے کے بعد سے کارگل مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کا ایک ٹاؤن ہے جو لائن آف کنٹرول سے پاکستانی علاقے سکردو سے 170 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے یہاں سے ایک سڑک کار گل کو سکردو سے ملاتی ہے جسے 1949 کے بعد بند کر دیا گیا جب کہ شمال میں بھارت کی ا ین ایچ ون یعنی نیشنل ہائی وے ون ہے جس کی لمبائی 205 کلومیٹر ہے جو کارگل کو سری نگر سے ملاتی ہے۔

یہ سڑک سطح سمندر سے اوسطاً 16000 ہزار فٹ بلند ہے اور بعض مقامات پر اس کی بلندی18000 فٹ ہو جاتی ہے۔ یہ پوراعلاقہ ہمالیائی پہاڑی علاقہ ہے جہاں سیا چن سمیت دنیا کے بڑے بڑے گلیشئیر موجود ہیں، سردیوں میں یہاں درجہ حرارت منفی48 درجے تک گر جاتا ہے۔

1972 ء سے1982ء تک یہاں کسی قسم کی فوجی سرگرمیاں دکھائی نہیں دیں لیکن اس کے بعد بھارت نے آپریشن میگھ ڈوٹ Operation Maghdoot کے بعد ہی یہاں پر بھارت نے نہ صرف شاہراہ بنائی بلکہ یہاں سے ہی سیاچن میں  فوجیوں کو تمام سامان اور خوراک کی سپلائی کی جاتی ہے۔ کارگل جنگ میں بھارت نے اپنی کاروائی کے دوران آپریشن کا کوڈ نیم  Safed Sagar Operation ،آپریشن سفید ساگر رکھا تھا، یہ سیا چن کی جنگ کے بعد اسی مقام پر حالیہ دنوں میں دنیا کا سب سے بلند محاذ جنگ رہا۔

جنگ کی صورتحال 3 مئی 1999 سے29 جولائی1999 یوں رہی، 3 مئی کو بھارت کو مقامی ذرائع سے کارگل میں پاکستانی فوج اورکشمیری مجاہدین کے قبضے کی خبر ملی 5 مئی کو یہاں پیٹرولنگ کرنے والے پانچ بھارتی فوجیوں کو ہلاک کردیا گیا، 9 مئی پاکستان نے شیلنگ کر کے کارگل میں واقع اسلحہ گولہ بارود کا بھارتی ذخیرہ تباہ کر دیا، 10 مئی کو پہلی لڑائی دراس کارگل اور مشکومیں ہوئی، 11 مئی کو بھارت نے بھاری تعداد میں مزید فوج سری نگر سے پہنچا دی، 26 مئی کو بھارتی فضائیہ نے یہاں فضائی حملے شروع کر دئیے، 27 مئی کو بھارت کے لڑاکا طیارے مگ 21 اور مگ 27 کو زمین سے نشانہ لے کر تباہ کردیا گیا، 28 مئی کو بھارت کا ایک جدید جنگی ہیلی کوپٹر گرا دیا گیا اور چار فوجی افسران کو جنگی قیدی بنا لیا گیا۔

یکم جون کو شدید گولہ ہاری کر کے نیشنل ہائی وے ون جو سری نگر کو کارگل سے ملاتی ہے اُسے بہت سے مقامات پر بالکل تباہ کردیا گیا، 5 جون کو بھارت نے اپنے طور پر پاکستانی فوج کے جنگ میں ملوث ہونے کے دستاویزی ثبوت دنیا کے سامنے پیش کر دیئے، بھارتی فوج نے کار گل میں بہت بڑا حملہ کیا مگر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں نا کام رہا،11 جون کو جب جنرل پرویز مشرف چین کے دورے پر تھے تو اِن کی بات چیت ٹیلی فون لائن پر راولپنڈی میں بیٹھے ہوئے چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل عزیز سے کارگل کی جنگ کے حوالے سے ہوئی۔

بھارت نے دعویٰ کیا کہ اُس نے یہ گفتگو ریکارڈ کی ہے اب بھارت نے پانچ ہزار فوج کے مقابلے میںاپنی تیس ہزار فوج اور درجنوں طیاروں سے دن رات حملے شروع کر دئیے، 15 جون کو امریکی صدر بل کلنٹن کا وزیر اعظم نواز شریف کو فون آیا اور کہا گیا کہ فوراً کارگل سے فوجیں واپس بلوا لو،اس کے بعد غالباً جنرل پرویز مشرف اور نوازشریف کے  درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری رہا اور 29 جون تک محاذ کے حوالے سے کوئی خبر نہیں آئی اور پھر خبریں بھارتی دعووں کی یوں تھیں، 29 جون بھارتی فوج نے پوائنٹ 5060  پوائنٹ 5100 پر دو اہم چوکیاں دوبارہ حاصل کر لیں، 2 جولائی بھارتی فوج نے کارگل پر تین حملے کئے، 4 جولائی بھارتی فوج نے گیارہ گھنٹوں کی لڑائی کے بعد علاقہ میں ٹائیگر ہلز کا علاقہ واپس لے لیا، 5 جولائی کو بھارت نے دارس کا علاقہ واپس لے لیا۔

اسی دوران امریکی صدر نے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی اور اُنہوں نے کارگل سے فوجوں کو واپس بلوانے کا اعلان کر دیا۔ 14 جولائی بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واچپائی نے آپریشن ویجے کی کامیابی کا اعلان کر دیا اور پاکستان سے بات چیت کے لیے شرائط رکھ دیں، 29 جولائی 1999 ء کو کارگل کی جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔

بھارتی فوج دوبارہ اُس علاقے میں آگئی جہاں 3 مئی سے جولائی12 تک کشمیری مجاہدین اور پاکستانی فوج کا قبضہ تھا۔کارگل میں کشمیری مجاہدین اور اِن کے پیچھے رہ کر سپورٹ پاکستانی فوج نے دی اور جب 3 مئی کو کارگل میں قبضہ ہو گیا تو یہ بھارت کے لیے اتنا ہی حیران کن تھا جتنا ہمارے لیے ،1984 میں بھارت کی جانب سے سیاچن پر قبضہ کیا گیا اُس وقت پا کستان افغان محاذ پر مصروف تھا اور اُسے بھارت کی خصوصی برفانی یا موٹین ڈویژن کی تیاریوں کے بارے میں دیر سے خبر ہوئی تھی لیکن یہاں تو بھارت کی فوج برسوںسے موجود تھی۔

اِس مقام پر قبضہ بہرحال ایک کارنامہ تھا اور یہ مقام اسٹرٹیجک اعتبار سے بہت اہم ہے اس سے سری نگر اور کار گل تک راستہ بھارتی فوج کے لئے کٹ گیا تھا اگر چہ سیاچن پر بھارتی فوجو ں کی سپلائی ہوائی جہاز وں سے ہوتی ہے مگر یہاں سے اِن ہوائی جہازوںکو بھی نشانے پر لیا جا سکتا تھا، بھارت نے کارگل پر 30000 فوج بھیجی جب کہ یہاں پر اس کے مقابلے میں تعداد  صرف پانچ ہزار تھی، اس جنگ میں بھارتی فوج کے مطابق اُس کے دو لڑاکا جنگی طیارے تباہ کئے گئے اور ایک ہیلی کاپٹر گرایا گیا۔

جس میں سوار چار بھارتی فوجی افسر گرفتار کر لیے گئے، یوں جب کارگل کی جنگ میں فتح کی خبریں عوام تک پہنچیں تو اُن کی جذباتی وابستگی والہانہ انداز میں افواج پاکستا ن کے ساتھ مزید بڑھ گئی،28 مئی 1998 کو پاکستان بھارت کے مقابلے میں فوراً ہی ایٹمی قوت بن گیا تھا اور اب ایک سال سے بھی کم مدت میں پاکستان نے بھارت کو ایک چیلنج دے دیا تھا۔

پاکستان فاتح تھا، دونوں ملک ایٹمی قوت تھے اور مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ میں قراردادیں موجود ہیں جن میں بھارت نے یہ تسلیم کر رکھا ہے کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیر ی عوام کی مرضی سے کیا جائے ۔گا، لیکن امریکی صدر کی جانب سے فون آنے اور پھر 4 جولائی 1999 کو واشنگٹن جا کر صدر سے ملا قات کر نے کے بعد وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کار گل سے بغیر کسی مطالبے اور شرائط کے فوجیں واپس بلوا نے کا اعلان کردیا اور یہاں سے فوجیں واپس ہو گئیں اور وزیر اعظم کے اس اقدام کو عوام نے سخت ناپسند کیا،

جب نواز شریف نے فوجوں کی کارگل میں موجودگی کو تسلیم کرلیا اور پھر واپسی کا حکم دے دیا تو اس کے بعد نواز شریف نے یہ بھی کہا کہ کارگل آپریشن اُن کے علم میں لائے بغیر کیا گیا پھر کہا کہ آپریشن سے پہلے اور بعد میں تفصیلات سے آگاہ کیا گیا اس پر اُن کو بتایا گیا کہ اُنہیں جنوری سے مئی 1999 تک تین مرتبہ بریفنگ دی گئی، 29 جنوری1999 کو نوازشریف کو بتایا گیا کہ بھارتی فوجیں لائن آف کنٹرول کے ساتھ سکردو کے بالکل قریب بھاری تعداد میں آگئی ہیں اور کارگل کے بارے میں بتایا گیا، پھر 5 فروری1999 کو فوج نے کارگل کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔

اور 12 مارچ کو فوج نے راولپنڈی میں کارگل کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا گیا تھا اور فائنل 17 مئی کو آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر میں کارگل سے متعلق بتایا گیا تھا،جون کے اختتام پر ڈی سی سی میٹینگ میں نواز شریف نے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سے کہا تمیں شروع ہی میں مجھے بتانا چاہیے تھا اس کے جواب میں انہوںنے جیب سے اپنی نوٹ بک نکالی اور اپنی ذاتی میٹنگیں جن تاریخوں میں اور جن عنوانات کے تحت کارگل جنگ کے سلسلے میں ہوئی تھیں اُن کی پو ری تفصیلات کے ساتھ اُن کے سامنے رکھ دیں۔

اس ریکارڈ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پہلے نواز شریف نے اس آپریشن اور اس کی کامیابی کو اپنی شہرت اور نیک نامی کے انداز میں بہتر سمجھا اور جب اُن پر دباؤ آیا تو انہوں نے شروع میں کارگل آپریشن کی حمایت کی اور یہ نہیں کہا کہ یہ آپریشن اُن کے علم میں لائے بغیر کیا گیا مگر بعد میں اُنہوں نے انحراف کیا تو جنرل پرویز مشرف اور دیگر اعلیٰ فوجی افسران نے ثبوت سامنے رکھ دئے مگر پھر بھی نواز شریف نے مختلف مواقع پر فوجوں کی واپسی کے بعد یہ کہا کہ بریفنگ تو دی گئی مگر آپریشن کے بارے میں نہیں بتایا، لیکن یہ نواز شریف کی ایک کمزوری تھی جو تاریخ میں نہ صرف پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق بلکہ امریکہ کے حکومتی ریکارڈ میں بھی زندہ ہے، نوازشریف اگر کارگل پر اسٹینڈ لے لیتے تو پاکستان کی تاریخ میں اُن کا نام فاتح کی حیثیت سے لکھا جاتا۔

بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا جنگ دسمبر 1971 سے چند دن قبل تھا جب بھارت نے پاکستان پر پوری شدت سے حملے کا فیصلہ کر لیا تھا اور فوجیں تیار تھیں تو اُس وقت کے امریکی صدر نکسن نے اندرا گاندھی کو فون کر کے کہا کہ وہ پاکستان پر حملہ نہ کریں اور اندرا گاندھی نے صدر نکسن کو یقین دلایا کہ بھارت ہرگز ایسا نہیں کرے گا۔ پھر نہ صرف پوری شدت سے بھارت نے حملہ کیا بلکہ جب تک مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے اور جب تک اُن کے آرمی چیف نے نہیں کہا،اندرا نے امریکی صد ر سے کوئی بات نہیں کی، یہ موقع تھا پھر جب 1984 میں سیا چن گلیشئر پر بھارتی فوجوں نے قبضہ کر لیا تو اُس وقت امریکہ یا برطانیہ کس نے بھارت کو روک لیا تھا ؟ یہاں تو پا کستان کا موقف بھی درست تھا۔

اگر نوازشریف کارگل کے آپریشن پر فوج کے ساتھ ہوتے تو 28 مئی کے ایٹمی دھماکوں کے اعزاز کی طرح یہ افتخار اور اعزاز بھی نواز شریف کے حصے میں آتا مگر شائد نواز شریف کی طبیعت ایسی ذمہ داری اُٹھانے کے قابل نہ تھی وہ خصوصاً صدر بل کلنٹن سے ملاقات کے بعد گھبرا گئے تھے۔

نیویارک ٹائم نے کارگل جنگ کے حوالے سے ایک رپورٹ کو آخری بار 24 جولائی2014 کو کارگل جنگ کے خاتمے کے پندرہ برس پورے ہونے پر ایک بار پھر شائع کیا یہ وائٹ ہاوس کے ریکارڈ کے مطابق اندر کی کہا نی ہے جس میں صدر بل کلنٹن کے ایک پرانے دوست لکھاری اور مورخ Taylor Branch کی کتاب کاحوالہ دیا گیا ہے، اس کتاب یا تاریخی نوعیت کے مسودے کا نام ،،A President’s Secert Diary (Simon and Schuster 2009 )  ) ہے۔

ٹائلر برانچ کا تعارف یوں ہے وہ کلنٹن کے دوست اور مورخ ہیں اور اُن کی دو چاردن یا ہفتے بعد صدر سے ملاقاتیں متواتر ہوتی رہتی تھیں اور اُن سے وہ سرکاری نوعیت کے معاملات اور کاروائیوں سے متعلق باتیں کرتے، اقدامات یا فیصلے جو صدر کی جانب سے کئے جاتے اُن کی تفصیلات معلوم کرتے تھے جو امریکہ اور دنیا کے لیے اہم ہوتے ہیں اور خصوصاً دنیا کے آزاد ملکوں کے سربراہان سے ملاقاتیں جو امریکہ کی عالمی سیاست اور خارجہ امور کے حوالے سے اہم ہوتی ہیں، یوں صدر بل کلنٹن ٹائلر برانچ کو یہ باتیں بتاتے ہیں اور وہ اِن ٹیپوں اور ریکارڈ کی بنیاد پر اِن واقعات اور شخصیات سے ملاقاتوں اور امور کو تحریر کرتے ہیں اور یہ تمام ریکارڈ جیسے صدر نے بتایا بالکل اسی حالت میں مرتب کر دیا گیا تاکہ یہ تاریخ کا حصہ رہے اور آنے والے مورخین کے کام آتارہے۔

مورخ کی کتاب کے صفحات نمبر 560 اور561 کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹر لکھتا ہے کہ اُن دنوں صدر بل کلنٹن صدارت کے دوسرے دور میں مونیکا نامی خاتون کے ساتھ ناجائز تعلقات کے اسکینڈل کی وجہ سے امریکی ناقدین اور کانگریس کے زیر عتاب تھے اور اُ ن کے مواخذے کی باتیں ہو رہی   تھیں اور وہ ذہنی دباؤ کا شکار تھے کہ کارگل کا واقعہ رونما ہوا جس میں حریت پسند کشمیری اور پاکستانی فوجی پاکستانی علاقے سکردو کے قریب کنٹرول لائن کے پار بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے کارگل پر قبصہ کر بیٹھے تھے اور برسوں کے حریف ملک بھارت اور پا کستان میں ایک بڑی جنگ کے اندیشے بہت بڑھ گئے تھے، صدر بل کلنٹن، ٹائلر برانچ کو بتاتے ہیں کہ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو اُنہوں نے اس موقع پر واشنگٹن آنے کی دعوت نہیں دی۔

انہوں نے اپنے طور پر واشنگٹن آنے کی دعوت خود ہی لی، باوجود اس کے کہ صدر بل کلنٹن نے انہیں منع کیا کہ وہ امریکہ نہ آئیں مگر جب وہ پاکستان سے امریکہ کے لیے طیارے سے روانہ ہوگئے، تو 4 جولائی 1999 ء کو جو امریکہ کا یوم آزادی ہے اور امریکہ میں اس روز سرکاری سطح پر عام تعطیل ہو تی ہے اور خصوصاً امریکی صدر کی اس لحاظ سے اہم قومی نوعیت کی مصروفیات ہو تی ہیں، صدر کلنٹن نے اُن کو پسِ پشت ڈالا اور یوم آزادی کی بیشتر مصروفیات کو چھوڑ کر یہ فیصلہ کیا کہ وہ وزیر اعظم نواز شریف سے بات چیت کریں۔

نواز شریف کے آنے پر انہوں نے 4 جولائی یومِ آزادی کی وجہ سے وائٹ ہاوس میں اُن کا استقبال نہیں کیا بلکہ اپنے  اس گھر  کے سامنے اسٹریٹ کے پار، بیلر ہاوس لائبریری میں ملاقات کی کلنٹن، ٹائلربرابچ کو بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے نواز شریف کو بلا جھجک کہا کہ تماری فوج یہاں پر غلط ہے اور اس بحران میں کلنٹن کشمیر پر ثالثی نہیں کر سکتا کیونکہ ثالثی کے لیے ضروری ہے کہ دونوں یعنی پاکستان اور بھارت اس پر راضی ہوں اور بھارت نے ثالثی سے انکار کیا ہے۔

اُن کا موقف یہ ہے کہ کشمیر ہمارا ہے اور اس پر ثالثی کی ضرورت نہیں۔ یوں صدر کلنٹن نے اپنی پوزیشن واضح کردی اورکہا اگر تم کارگل سے اپنی فوجیں واپس بلواتے ہو تو امریکہ تمارا ممنون ہوئے بغیر اِس پر اطمینان محسوس کرے گا اور اگر نواز شریف اس سے انکار کر دے گا تو امریکہ جس کے پاکستان سے اتحادی کی حیثیت سے تاریخی نوعیت کے تعلقات ہیں اِن تعلقات کو برسر عام ترک کردے گا، اور بھارت کی طرف رخ کرے گا، اس پر نوازشریف کے ہمراہ آتے ہوئے وفد اور کلنٹن کی ٹیم کے درمیان کئی گھنٹے گرما گرم بحث ہوئی، پاکستانی ماہرین جو نوازشریف کے ہمراہ تھے اُن کاکہنا تھا کہ وہاں کشمیری مجاہدین ہیں جو بھارت سے نبرد آزما ہیںاور اس وقت ضرور ت ہے کہ امریکی صدر پاکستان پر کسی طرح عنایت کرے۔

آخر طویل اور گرما گرما بحث کے بعد صدر بل کلنٹن نے پاکستان کی جانب سے نواز شریف کے ساتھ آئے ہوئے اراکین کو اور اپنی ٹیم کے ممبران کو کہا کہ وہ یہاں سے چلے جائیں اور مجھے اور نوازشریف کو آپس میں اکیلے بات چیت کرنے دیں،اس کے بعد صدر بل کلنٹن نے وزیراعظم نواز شریف سے کہا کہ کارگل کی لڑائی کوئی معمولی سرحدی تنازعہ کی بات نہیں ہے یہ لڑائی ایک ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

صدر نے کہا کہ جب 1962 میں امریکہ اور سوویت یونین کیوبن میزائل بحران سے گزر رہے تھے اور ایٹمی جنگ کے خطرات تھے تو اُس وقت امریکہ اور سوویت یونین دونوں ایک دوسرے کے ایٹمی ہتھیاروں اور ایک دوسرے کی ایٹمی صلاحیتوں سے واقف تھے مگر ابھی اِس وقت بھارت اور پاکستان دونوں ایک دوسرے کے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے،انہوں نے نواز شریف سے کہا کہ تم اس ایٹمی جنگ کو روک سکتے ہو، امریکی صدر کے سامنے نوازشریف بے بس ہو گئے اور بولے یہ اُن کے لیے بہت برا ہو گا،کلنٹن نے کہا کہ وہ محب ِ وطن بن کر ایٹمی جنگ کے احکامات جاری کریں یا اس رسک کو دیکھیں کہ جنرل پرویز مشرف اُن کا تخت الٹ دیں گے،اُ ن کا خیال تھا کہ کارگل کا منصوبہ جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں کا تیار کردہ ہے۔

نواز شریف کاکہنا تھا کہ اُن کی گردن پرویز مشرف کے ہاتھوں میں دی جارہی ہے، صدر نے کہا کہ بطور سربراہ حکومت فوجوں کو واپس بلوانا آپ کی ذمہ داری ہے اور پھر یہ آپ ہی نے دیکھنا ہے کہ کس طرح آپ خود کو محفوظ رکھتے ہیں،آخر میں کلنٹن کہتے ہیں کہ اُنہوں نے 4 جولائی کو یوم آزادی کا پورا دن اس بحث میں گزاردیا مگر یہ سیاسی اعتبار سے ایک کامیاب مقابلہ تھا جس کی وجہ سے بھارت اور پاکستان دونوں جانب کے ہزاروں لوگوں کی جانیں بچ گئیں،یہ رپورٹ یا تحریر کارگل جنگ کے واقعات کے تضاد ات خود سامنے لاتی ہے۔

سب سے پہلے یہ کہ اس میں صدر کلنٹن یہ نہیں بتاتے کہ انہوں نے 15 جون کو کیوں وزیر اعظم نوازشریف کو فون کیا تھا؟ اور کار گل میں جنگ روکنے اور فوجوں کو واپس بلوانے کے لیے کیوں کہا تھا اور یہ بھی نہیں بتاتے ہیں کہ 15 جون کو نواز شریف نے کیا جواب دیا تھا؟ اس ملاقات میں صدر بل کلنٹن 1962 میں کیوبا میں سوویت یونین کی جانب سے نصب کئے جانے والے ایٹمی میزائلوں کے شدید بحران کا حوالہ تو دیتے ہیں مگر کیا یہ سوال نہیںاٹھتا کہ اس بحران کے حل میں امریکہ کیوبا میں کیمونسٹ حکومت کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرنے کی ضمانت سوویت یونین کو دیتا ہے۔

جس کا ثبوت یہ ہے کہ وہاں نصف صدی سے زیادہ تو فیڈل کاسترو کی حکومت رہی اور اب بھی اُسی سیاسی جماعت کی حکومت ہے اور اب بھی امریکہ اُس عہد نامے پر قائم ہے، پھر جو بھی شخص بین الاقوامی تعلقات کے شعبہ سے ذرا بھی واقفیت رکھتا ہے وہ یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے سربراہ کا امریکی صدر سے ملنا پھر بغیر شیڈول کے، منع کرنے کے باوجود واشنگٹن پہنچ جانا یہ ہو ہی نہیں سکتا۔

پھر بل کلنٹن بطور صدر امریکہ کے یومِ آزادی کی مصروفیات کوچھوڑ کر کئی گھنٹے نوازشریف کے ساتھ اپنی ٹیم کے اور نواز شریف کے ساتھ آئے ہوئے ماہر ین کے ہمراہ خاصی گر ما گرم بحث کے بعد آخر یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف اور وہ تنہا بات کریں گے اور وہ جو باتیں کی گئیں وہ بھی صدر کلنٹن ہی نے برانچ کو بتائیں اور یہ سب کچھ بھی عرصے بعد سامنے آیا اور اپنے خاص انداز سے سامنے آیا ، یہ سب تقریباً ناممکن ہے، ساتھ ہی رپورٹر مصنف کے حوالے سے یہ بھی بتاتا ہے کہ نہ صرف امریکی صدر مونیکا اسکینڈل کی وجہ سے پریشان تھے بلکہ اُس دن 4 جولائی کی تاریخ ہے جو کہ امریکہ کا یوم آزادی ہے اور جاننے والے یہ جانتے ہیں کہ امریکی سینٹ اور اسٹیلشمنٹ کی جانب سے پوری صورتحال اور تفصیلا ت کی فراہمی اور صدر کے لیے تعین کردہ فیصلے اور متبادلات کے بغیر ایسے مواقع پر امریکی صدر کسی ملک کے سربراہ سے ایمر جنسی میں بات نہیںکرتا ہے۔

یوں یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کو کارگل پر قبضے سے بہت زیادہ پریشانی تھی اور یہ وہ دور ہے جب صدر ضیا الحق کو دنیا سے گزرے گیارہ برس ہو گئے تھے، سوویت یونین بکھرچکا تھا نیو ورلڈ آرڈر کے چرچے شروع ہوگئے تھے اور پاکستان کے مقابلے میں امریکہ بھارت اس لیے قریب آچکے تھے کہ امریکہ نے چین کے مقابلے میں بھارت کو استعمال کرنا شروع کر دیا تھا اور یہاں پرانا لداخ جس کا ایک بڑا حصہ گلگت  بلتستان کی صورت میں پاکستان کے پاس ہے ایک حصہ اکسائی چن کے ساتھ چین کے پاس ہے اور لداخ کا ایک حصہ بھارت کے پاس مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہے۔

یہ اُس وقت ہی سے اسٹرٹیجک ا عتبار سے اہمیت رکھتا ہے اور اب اس کی اہمیت کہیں زیادہ نمایاںہو کر سامنے آرہی ہے، نواز شریف کی واپسی پر یہ حقیقت ہے کہ عوام کے ساتھ فوج نواز شریف کے اس فیصلے سے ناخوش تھی، مگر نوازشریف کو قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت حاصل تھی، آئین سے صدر کے اسمبلی تحلیل کرنے اور حکومت برخاست کرنے کے اختیارات بھی ختم کر دئیے گئے تھے اور صدر بھی اب مسلم لیگ کے رفیق تارڑ تھے، اسی طرح اقتدار میں آتے ہی مسلم لیگ ن نے پاکستان پیپلز پارٹی پر کرپشن کے مقدمات قائم کرتے ہوئے آصف علی زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو جیل میں ڈالا، فوج اورنوازشریف حکومت کھچاؤ کا شکار تھی اور مسلم لیگ ن میں سے ہی بہت سے اہم لیڈر نواز شریف کے اقدامات سے نالاں تھے۔

اکتوبر 1999 میں آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سری لنکا کی فوج کی 50 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کے لیے گئے اور اُن کی واپسی 13 اکتوبر کی شام کو ہو رہی تھی کہ اِن کی عدم موجودگی میں وزیراعظم نواز شریف نے اُن کو آرمی چیف کے عہد ے سے برطرف کرنے کے احکامات کے ساتھ جنرل ضیاء الدین خواجہ کو نیا آرمی چیف بنا دیا اور وزیراعظم ہاوس میں اِن کو آرمی چیف بنانے کے لیے بازار سے بیجز منگوائے گئے، یہاں جب جنرل پر ویز مشروف پی آئی اے کے جس طیارے میں کراچی آرہے تھے تو اُن کے طیارے کو کراچی ائرپورٹ ٹاور سے حکم دیا گیا کہ طیارہ کراچی ائیر پورٹ پر اترنے کی بجائے ایمرجنسی میں بھارت میں لینڈ کرے، مگر اسی دوران جب طیارہ فضا میں کراچی کے اُوپر چکر لگا رہا تھا راولپنڈی سے فوج حرکت میں آئی۔

وزیر اعظم ہاوس میں ہی نواز شریف کو گرفتار کر لیا گیا اور ریڈیو، ٹی وی کو کنٹرول میں لینے کے بعد نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے اعلانات ہوئے، کراچی میں فوج نے ائرپورٹ ٹاو ر کو کنٹرول میں لے لیا اور پرویز مشروف کا طیارہ جس میں تیل ختم ہو رہا تھا ایمرجنسی میں کراچی ائر پورٹ پر لینڈ کر گیا۔

پھر نواز شریف کو گورنمنٹ گیسٹ ہاؤس میں منتقل کر دیا گیا، اور پھر نومبر 1999 کو انہیں ڈیالہ جیل بھیج دیا گیا، یہ وہی جیل ہے جہاں سابق وزیر اعظم ذوالفقا رعلی بھٹو کو رکھا گیا تھا،اِن پر باقاعدہ گرفتاری کے بعد ارادہ قتل اور طیارے کے اغوا کے مقد مات درج ہوئے، مارچ 2000 میں مقدمے کا آغاز ہوا اور انسداد دہشت گردی کی سرسری سماعت کی خصوصی عدالت قائم کی گئی تھی، اسی دوران کراچی میں اُن کے وکیل اقبال راؤ کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا اور اُن کے وکلا نے اِس قتل کا الزام حکو مت پر عائد کیا، اُس زمانے میں یہ افواہیں عام گردش کر رہی تھیں کہ نواز شریف کو بھی سابق وزیراعظم بھٹو کی طرح جلد سزائے موت دے دی جائے گی۔

یوں عالمی سطح پر اور خصوصاً امریکہ اور سعودی حکومت کی جانب سے نواز شریف کی رہائی کے لیے حکومت پر دباؤ بہت بڑھ گیا، یوں 2000 میں نواز شریف نے حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے اور عالمی سطح پر اہم شخصیات کی ضمانت پر سعودی عرب جلا وطن ہو گئے، جنرل پرویز مشرف 13اکتوبر 1999 کو وہ نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد چیف ایگزیکٹو بن گئے اور پھر عدلیہ کی جانب سے اُنہیں دو سال کی مدت میں ملک کے بحران کو دور کرکے انتخابات کروا کر ملک میں جمہوریت بحال کرنے کے لیے حکمرانی کا اختیار دیا گیا، وہ 13اکتوبر1999 سے 20 جون 2002 تک چیف ایگزیکٹو رہے اس کے بعد 20 جون2001 سے18 اگست 2008 صدر مملکت رہے، نواز شریف کا تخت الٹنے کے بعد پہلے دو سال اُن کی جانب سے کئے گئے اقدامات سے ملک کے معاملات میں بہتری آئی۔

نوازشریف کو دباؤ کے تحت سعودی عرب بھیجنے اور پھر اپنے اقتدار کو طو ل دینے اور خصوصاً 11 ستمبر 2001 کے بعد امریکہ سے تعاون کر نے اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے پاکستان میں بہت سی شخصیات اور سیاسی گروہوں سے مفاہمت کرنے کی وجہ سے وہ اپنا اعتماد کھوتے گئے۔

محترمہ بینظیر بھٹو کا قتل، نواب اکبر بگٹی کی وفات، لال مسجد اسلام آباد واقعہ سے اور پھر سپریم کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کیخلا ف کاروائی ایسے اقدامات کی وجہ سے آخر کار وہ 18 اگست 2008 میں صدارت سے فارغ ہو گئے، اوراُن کی جگہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور محترمہ بینظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری صدر ہوئے، سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں میاں سومرو نگران وزیر اعظم اور میر ظفر اللہ خان جمالی، چوہدری شجاعت حسین اور شوکت عزیز وزیر اعظم رہے۔ (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔