مسجد اقصیٰ کا آخری محافظ ، ’’کارپورل حسن‘‘

محمد عثمان جامعی  اتوار 15 دسمبر 2019
جدید مُسلم تاریخ کا ایک عجیب واقعہ، ایمان واخلاص کا دل گداز قصہ

جدید مُسلم تاریخ کا ایک عجیب واقعہ، ایمان واخلاص کا دل گداز قصہ

خودغرضی، مفادات، ایمان فروشی اور حرص وہوس کی کالی کتھائیں ہر طرف پھیلی ہیں، ہمارے باطن میں اپنا اندھیرا بھر رہی ہیں اور ناگن کی طرح ہمارے کردار کو ڈس رہی ہیِں، مگر ہمارے ماضی وحال میں ایسی کہانیاں بھی دمک رہی ہیں جن کے تابندہ لفظ دل میں اُجالا اور روح کو اُجلا کردیتے ہیں۔

’’کارپورل حسن‘‘ کا قصہ بھی ان ہی کہانیوں میں سے ایک ہے۔ ایمان، خلوص، محبت کی روشنی سے لکھی کہانی۔ یہ محض ایک فرد نہیں ایک روایت کی حکایت ہے۔

یہ 1972کا ذکر ہے۔ دہکتے مئی کے دن تھے۔ ترکی سے تعلق رکھنے والے صحافی اِلہان بردکچی (Ilhan Bardakci) جو اب دنیا میں نہیں رہے، اس وقت نوجوان تھے۔ وہ اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کی سنگت میں اسرائیل کا دورہ کر رہے تھے۔ واضح رہے کہ تُرک فوج اور مقتدرہ کی ’’وطن دوست‘‘ مگر دین بیزار سوچ اور حکمت عملی کے باعث ترکی کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ تُرک سیاست دانوں اور تاجروں کا ایک وفد اسرائیل کا دورۂ خیرسگالی کر رہا تھا اور الہان اور ان کے ساتھی صحافی اس دورے کی کوریج کے لیے ہم سفر بنے تھے۔

یہ اس دورے کا چوتھا روز تھا جب اسرائیلی میزبان ترک وفد کو تاریخی اور سیاحتی مقامات کی سیر کرانے لے گیا۔ انھیں مسجد اقصیٰ بھی لے جایا گیا۔ الہان کہتے ہیں،’’اس مقدس مسجد کی اوپری منزل کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میرے جسم میں سنسنی پھیلی ہوئی تھی۔

اوپر کی منزل کے وسیع وعریض احاطے کو وفد کے اسرائیلی میزبان ’بار ہزار فانوسوں والا صحن‘ کے نام سے متعارف کرا رہے تھے۔ دراصل عثمانی خلیفہ سلطان سلیم اول کے دور میں اس احاطے میں بارہ ہزار فانوسوں میں شمعیں فروزاں کرکے روشنی کا انتظام کیا جاتا تھا۔ القدس میں تعینات عثمانی فوج ان شمعوں کی روشنی میں نماز عشاء ادا کرتی تھی۔‘‘

یکایک الہان بردکچی کی نذر احاطے میں موجود ایک شخص پر پڑی۔ صہیونیوں کی مقبوضہ مسجد اقصیٰ کی اوپری منزل پر وہ تنہا شخص بڑا پُراسرار لگ رہا تھا، عمر کی نوے دہائیاں دیکھ لینے والا بوڑھا۔ الہان اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اس کے جسم پر فوجی وردی تھی، مگر یہ اسرائیلی فوج کی وردی نہیں تھی۔

ملبوس بھی پہنے والے کی طرح اپنی قدامت کا پتا دے رہا تھا۔ وردی پر جا بہ جا پیوند لگے تھے۔ یہاں تک کہ جگہ جگہ لگے یہ پیوند بتارہے تھے کہ انھیں بھی باربار سیا گیا ہے۔ صاف لگتا تھا کہ وہ جسم پر وردی سجائے رکھنے پر مُصر ہے۔ اِلہان کہتے ہیں کہ ایسا لگ رہا تھا جیسے ہمارے سامنے کوئی صدیوں پُرانا پیڑ ہو۔ وہ شخص اپنے طور پر سرحد پر پہرہ دیتے سپاہی کی طرح تن کر کھڑا تھا، مگر پیٹھ پر نکلا کُب پورے قد سے کھڑا ہونے میں رکاوٹ بن گیا تھا۔ خمیدہ کمر کے باوجود وہ قدآور بوڑھا بارعب اور بردبار شخصیت کا مالک تھا۔

مقصد اقصیٰ کی دھوپ سے بھرے صحن میں ستون کی طرح ایستادہ اس بوڑھے کے قریب سے گزرتے ہوئے الہان نے اپنے گائڈ سے پوچھا، ’’یہ شخص اس حِدت میں کیوں کھڑا ہے؟‘‘ جواب ملا،’’جہاں تک میں یاد کرسکتا ہوں یہ شخص یہاں (روز) آتا ہے۔ غروب آفتاب تک یہیں رہتا ہے۔ نہ کسی سے بولتا ہے نہ کسی کی بات سُنتا ہے۔ یہ بس انتظار کرتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ تھوڑا پاگل ہے۔‘‘

الہان حیران تھے کہ دور تک پھیلے ماہ وسال کی گرد اس بوڑھے کی سفید داڑھی کا کچھ نہ بگاڑ سکی تھی، جو دھوپ میں دمک رہی تھی، اور سر پر جمی تُرکوں کی مخصوص ٹوپی ’’کالپیک‘‘ اس کی شان بڑھا رہی تھی۔

الہان جھجک رہے تھے کہ اس سے بات کریں یا نہیں۔ بوڑھے نے جان لیا تھا کہ الہان اس کے قریب ہورہے ہیں، مگر وہ اپنی جگہ قدم جمائے چوکس کھڑا رہا، ذرا سی جنبش کے بغیر۔

آخر الہان نے ہمت کرکے اسے ترکی میں مخاطب کیا،’’السلام وعلیکم بابا!‘‘

اس نے اپنا سر ذرا سا گھما کر الہان کی طرف موڑا اور جواب دیا،’’وعلیکم السلام بیٹا۔‘‘

’’آپ کون ہیں؟ یہاں کیا کر رہے ہیں؟‘‘ استفسار کرتے ہوئے الہان کی آواز مرتعش تھی، شاید یہ بوڑھے کی پراسراریت اور اس کے رعب کا اثر تھا۔

’’میں کارپورل حسن ہوں، 20 ویں کور، 36ویں بٹالین، 8 ویں اسکواڈرن ہیوی مشین گن ٹیم سے۔‘‘

اس کی بوڑھی آواز میں ذرا بھی لرزش نہیں تھی۔ وہ یوں بول رہا تھا جیسے اپنے کسی افسر کو زبانی رپورٹ دے رہا ہو۔ واضح رہے کہ ’’کارپورل‘‘ عثمانی فوج میں حوالدار کی سطح کا عہدہ تھا۔

’’میرا تعلق اناطولیہ (ترکی) کے علاقے اگدر سے ہے۔‘‘

اس نے سلسلۂ کلام جوڑا، اُسی رپورٹ دیتے لب ولہجے میں۔

’’جنگ عظیم (اول، 1914تا 1918) کے دوران ہمارے فوجیوں نے نہرِسوئز کے محاذ پر برطانوی فوج پر حملہ کیا۔ ہماری شان دار فوج کو شکست ہوئی۔ اب (علاقے سے) دست بردار ہونا ناگزیر تھا۔ اجداد سے ورثے میں ملی زمینیں ایک ایک کرکے ہمارے ہاتھ سے نکلنے والی تھیں۔ اور پھر برطانوی فوجی القدس کے دروازوں تک آ پہچنے، انھوں نے شہر فتح کرلیا۔ ہم قدس کی حفاظت پر مامور سپاہیوں کے طور پر یہاں متعین کردیے گئے۔‘‘

یہ پہلی جنگ عظیم کا قصہ ہے، جب برطانیہ نے ارض فلسطین کو خلافت عثمانیہ سے چھین لیا تھا، بعدازاں انگریزوں نے اس مقدس سرزمین پر صہیونی اڈا قائم کردیا، تب سے آج تک بیت المقدس سمیت فلسطین صہیونیوں کے قبضے میں ہے۔

انگریز فوج سے شکست کھانے کے بعد عثمانی عسکر نے بیت المقدس کی حفاظت کے لیے اپنے کچھ فوجی وہیں چھوڑ دیے تھے، تاکہ انگریز فوج کے داخلے تک یہ قابل احترام مقام، شہر کی غیرمسلم آبادی کی ممکنہ لوٹ مار اور بے حرمتی سے محفوظ رہے۔ ماضی کی جنگوں میں یہ روایت رہی ہے کہ جب ایک ریاست پسپائی کے بعد کوئی شہر دشمن کے حوالے کرتی تھی تو اس شہر میں حفاظتی اور نظم کے امور انجام دینے والے شکست خوردہ فوج کے سپاہیوں سے فاتح فوج اسیروں والا برتاؤ نہیں کرتی تھی۔

برطانوی چاہتے تھے کہ عثمانی فوج کے سپاہیوں کی ایک قلیل تعداد مقبوضہ شہر میں رہے، تاکہ جب انگریز فوج القدس میں بہ طور فاتح داخل ہو تو اسے عوامی ردعمل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مغرب کا یہ پُرانا حربہ ہے کہ وہ مسلم سپاہ کو اپنے اور مسلمان عوام کے درمیان دیوار بنا لیتا ہے!

’’ ہم محافظوں میں سے تریپن سپاہی تھے۔ ‘‘

اس نے اپنی کہانی جاری رکھی۔

’’ہم نے خبر سُنی کہ معاہدے (خلافت عثمانیہ اور اتحادی ممالک کے درمیان ہونے والا سمجھوتا) کے بعد ترک فوج (فلسطین کی سرزمین سے) سبک دوش ہوگئی ہے۔ ہماری قیادت کرنے والے لیفٹیننٹ نے کہا، میرے شیرو! ہمارا ملک ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ وہ ہماری عالی شان فوج کو پس پا کروا رہے ہیں، اور مجھے استنبول بُلا لیا گیا ہے۔ مجھے جانا ہوگا۔ اگر میں ایسا نہیں کرتا تو حکم عدولی کا مرتکب ہوں گا۔‘‘

اس کے بعد لیفٹیننٹ نے جو کچھ کہا، اور اُس کی سُن کر تُرک سپاہیوں نے جو کچھ کیا، وہ ایمان اور اخلاص کی لازوال نظیر ہے۔

’’اگر تم میں سے کوئی وطن واپس جانا چاہے تو جاسکتا ہے، لیکن اگر میری بات مانو تو میں تم سے ایک درخواست کرتا ہوں۔ القدس سلطان سلیم (سلطان سلیم اول، جن کے دور میں خلافت عباسی خاندان سے عثمانی خاندان کو منتقل ہوئی) کا تاریخی ورثہ ہے۔ چناں چہ تم اس کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے رہو۔ لوگوں کو یہ سوچ کر پریشان نہ ہونے دو کہ عثمانی ہمیں چھوڑ گئے۔ اگر عثمانی اپنے پیارے نبی ﷺ کا قبلہ اول (بے یار ومددگار) چھوڑ گئے تو اہل مغرب خوشی سے بغلیں بجائیں گے۔ اسلام کی عزت اور عثمانیوں کی شان پامال نہیں ہونے دینا۔‘‘

لیفٹیننٹ نے اپنے سپاہیوں کو وطن واپسی کی اجازت بھی دی تھی اور ان سے اسلام کی حُرمت اور خلافت عثمانیہ کے وقار کی خاطر وطن سے کوسوں دور القدس کی حفاظت کرتے رہنے کی استدعا بھی کی تھی۔ وطن کی محبت، گھر کی راحت اور بیوی بچوں ماں باپ بہن بھائیوں دوست احباب کی چاہت پر دین اور خلافت کی آبرو کا خیال بازی لے گیا۔

’’ہمارے سپاہی قدس میں رک گئے۔ سال گزرتے گئے، اور میرے بھائی (ساتھی سپاہی) ایک ایک کرکے زندگی کی بازی ہارتے گئے۔ ہم دشمن کے ہاتھوں زیر نہیں ہوئے، ہاں گزرتے برسوں سے شکست کھا گئے۔ بس اب صرف میں یہاں رہ گیا ہوں۔ صرف میں، القدس میں تنہا کارپورل حسن۔‘‘

الہان کہتے ہیں کہ کاپورل حسن نے جب اپنی بات ختم کی تو اس کی پیشانی سے بہتا پسینہ آنسوؤں کے ساتھ اس کے جُھرّیوں بھر چہرے پر بہہ رہا تھا۔

وہ بولتا رہا:

’’بیٹا! میں تم پر اعتماد کرتے ہوئے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ وہ جو میں نے برسوں سے چُھپا رکھا ہے۔ کیا تم اسے وہاں پہنچا دو گے جہاں اسے پہنچنا چاہیے؟‘‘

’’بالکل‘‘

الہان کا جواب تھا۔

’’جب تم ترکی پہنچو، اور اگر توکت (ترکی کا ایک شہر) سے گزرو، تو براہ مہربانی وہاں رُک کر لیفٹیننٹ مصطفی سے ملنا، یہ وہی کمان دار ہے جس نے مجھے مسجدِاقصیٰ کی حفاظت پر مامور کیا تھا اور ان مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے مجھ پر اعتماد کیا تھا۔ میری طرف سے اس کے ہاتھ چومنا، اور اسے بتانا، صوبہ اگدر کا 11ویں مشین گن ٹیم سے تعلق رکھنے والا کارپورل حسن اب تک القدس میں ہے جہاں تم اسے تعینات کرگئے تھے، اس نے اپنا فریضہ تَرک نہیں کیا، اور وہ تمھارے لیے رحمت کا خواہش مند ہے۔‘‘

الہان نے حسن سے اس کا پیغام پہنچانے کا وعدہ کرلیا۔ وہ کہتے ہیں،’’اس نے جو کہا میں وہ لکھنے کی کوشش کر رہا تھا اور اپنے آنسو چُھپا رہا تھا۔ میں نے اس کے سخت ہاتھوں کو تھام کر انھیں بار بار چوما اور کہا۔۔۔الوداع بابا!‘‘

اس نے جواب دیا،’’شکریہ بیٹا! ممکن نہیں کہ اب ان سرزمینوں (ترکی) کو دیکھ پاؤں، وہاں سب کو میری نیک تمنائیں پہنچا دینا۔‘‘

الہان کہتے ہیں کہ واپس ہوتے ہوئے یوں لگ رہا تھا جیسے کتابوں میں پڑھی ہوئی ساری تاریخ سامنے آ کھڑی ہوئی ہو۔ انھوں نے اپنے گائیڈ کو کارپورل حسن کی کہانی سُنائی، وہ یقین کرنے پر تیار نہیں تھا۔ الہان نے اسے اپنا پتا دیتے ہوئے درخواست کی،’’برائے مہربانی، کچھ بھی ہو اس سے مجھے آگاہ کرنا۔‘‘ ان کا اشارہ کارپورل حسن کی زندگی کی طرف تھا، جس کی عمر کی نقدی بس ختم ہونے کو تھی۔

الہان وطن واپس پہنچ گئے۔ وہ حسن کے بتائے ہوئے شہر توکت گئے اور وہاں کمان دار مصطفیٰ آفندی کی تلاش کے لیے فوجی ریکارڈ کھنگالا۔ وہ کئی سال پہلے دنیا سے جاچکا تھا۔ ’’میں اپنا وعدہ پورا کرنے کے قابل نہیں تھا۔‘‘ الہان بڑے دکھ کے ساتھ کہتے ہیں۔

وقت گزرتا گیا۔ 1982آپہنچا۔ ایک روز الہان کو اطلاع ملی کہ جس ادارے میں وہ کام کرتے تھے وہاں ان کے لیے ایک تار آیا ہے۔

تار صرف ایک سطر پر مشتمل تھا،’’مسجد اقصیٰ میں انتظار کرتا آخری محافظ آج وفات پاگیا۔‘‘

2017 میں ترکی کی انسانی فلاح کے لیے سرگرم ایک این جی او ’’آئی ایچ ایچ‘‘ نے غزہ کے علاقے ’’تل الھوا‘‘ میں کارپورل حسن سے منسوب ایک مسجد ’’اونباسی حسن مسجد‘‘ تعمیر کی ہے۔ جب اسرائیل القدس کی سرزمین پر اذانوں کی آواز بند کرنے کے لیے کوشاں تھا تو ’’اونباسی حسن مسجد‘‘ صہیونی تسلط کا شکار علاقوں کی وہ پہلی مسجد تھی جس کے میناروں سے گونجتی اذان صہیونیوں کے سینوں میں پیوست ہوئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔