بموں نے اُگایا باغ

مرزا ظفر بیگ  اتوار 15 دسمبر 2019
بم باری کے باعث زمین میں پڑنے والے گڑھے جو بعد میں خوب صورت باغات میں بدل گئے

بم باری کے باعث زمین میں پڑنے والے گڑھے جو بعد میں خوب صورت باغات میں بدل گئے

یہ 20 ستمبر1940 کی بات ہے کہ ہٹلر کی فوج نے چھے سالہ جنگ کے بعد پولینڈ پر یلغار کردی تو اس کے بعد ایک جرمن طیارے نے جرأت و ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لندن کے اوپر پہنچ کر اس شہر پر بم گرادیا اور یہ فضائی حملہ بھی اسی یلغار کا ہی ایک حصہ تھا جس کا مقصد لندن میں تباہی و بربادی پھیلانا اور اس شہر کو دنیا کے نقشے سے نیست و نابود کرنا تھا۔

اصل میں اس جرمن لڑاکا طیارے کا ہدف تو ویسٹ منسٹر کیتھیڈرل یا چرچ تھا، مگر اس موقع پر غالباً لندن والوں کی خوش قسمتی نے ان کا بھرپور ساتھ دیا تھا، کیوں کہ وہ بم تو اپنے ہدف تک نہ پہنچ سکا، بلکہ اس طیارے کا پائلٹ trajectory کے حساب کتاب میں گڑبڑ کرگیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فضا سے زمین پر پھینکا گیا وہ بم اس چرچ پر تو نہ گرسکا اور نہ ہی اسے نشانہ بناسکا، بلکہ یہ کیتھیڈرل اور مارفیٹ ٹیرس کے درمیان میں ایک choir کے درمیان اس جگہ میں جاگرا جہاں خاصی جگہ خالی تھی، اور اس بم کے پھینکے جانے کے نتیجے میں اس قدر زور دار دھماکا ہوا کہ وہاں ایک بہت بڑا گڑھا پڑگیا اور بعد میں نشان کے طور پر اس کا بھی صرف دہانہ باقی رہ گیا۔

اب ہم بات کرتے ہیں اس crater یعنی اس دہانے کی جو وہاں نمودار ہوا تھا، وہ دہانہ اس جگہ پر آنے والے موسم بہار تک ایسے ہی برقرار رہا، یعنی اس میں نہ کوئی تبدیلی ہوسکی اور نہ ہی مزید کوئی رد و بدل ہوسکا، پھر اس کے بعد اس چرچ کے کیئر ٹیکر مسٹر ہیز نے وہاں ایک باغ یعنی سرسبز و شاداب گارڈن بنانے کے امکانات کا جائزہ لینا شروع کردیا اور اس بارے میں باقاعدہ غور و خوض بھی شروع ہوا کہ آیا اس جگہ ممکنہ طور پر کوئی باغ بن سکتا ہے یا نہیں اور یہ کہ کیا اس باغ کو مقامی لوگ پسند بھی کرسکیں گے یا نہیں۔ ایسا تو نہیں ہوگا کہ یہ باغ مقامی لوگوں کی پسند پر پورا نہ اترسکے۔ پھر یہ بحث چلتی رہی، مگر اس کا کوئی فوری نتیجہ نہ نکل سکا۔

٭دی ویسٹ منسٹر کیتھیڈرل کریٹر گارڈن:

ہماری اس دنیا نے اب تک جو بھی تباہ کن اور عظیم جنگیں دیکھی ہیں، وہ اس دنیا کے لیے بڑی تباہی اور بربادی لے کر آئی تھیں اور ان جنگوں کی وجہ سے ہماری دنیا تباہی کے بعد ترقی کی دوڑ میں نہ صرف بہت پیچھے رہ گئی تھی، بلکہ وہ دوسرے ملکوں کی طرح خود بھی تباہی کا شکار ہوئی تھی۔ بالکل ایسا ہی دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی ہوا تھا، یہ جنگ بھی پہلی جنگ عظیم کی طرح ساری دنیا کے لیے خوراک وغذا، ملبوسات اور دیگر چیزوں کی قلت لے کر آئی تھی اور اس کمی کے پوری دنیا پر اور اس میں رہنے والے لوگوں پر نہایت سنگین قسم کے اور مضر اثرات مرتب ہورہے تھے۔

لوگ بے چین اور پریشان تھے، ان کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ان چیلنجز سے نمنٹنے کے لیے کیا کریں، وہ کون سی حکومت عملی اختیار کریں تاکہ ان کی جان ان مسائل سے چھٹ سکے اور وہ بھی اطمینان و سکون کا سانس لیتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرسکیں۔ ان کی زندگیوں سے امن، سکون اور چین ختم ہوچکا تھا، اور متعدد گھرانے ایسے تھے جن کی حکومت ان کی مدد کرتی اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتی، انہیں اپنی خوراک اور سبزیاں اگانے میں ان کا ساتھ دیتی تھی جس کے لیے مذکورہ حکومتوں نے ان لوگوں کو زمین کے چھوٹے چھوٹے پلاٹس بھی دیے تھے جن کے عقبی حصوں میں وہ سبزیاں وغیرہ اگالیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے قریبی کھیلوں کے میدانوں میں اور یہاں تک کہ عوامی پارکس تک میں ان کی سبزیاں کاشت کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی تھی۔

ان تمام باغات کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور انہیں عوام الناس نے ’’وکٹری گارڈنز‘‘ کہہ کر پکارا، یہ ایسی ٹرم تھی جس کو سب سے پہلے جارج واشنگٹن کارور نے متعارف کرایا تھا، جارج واشنگٹن کارور ایک امریکی زرعی سائنس داں تھا اور اپنے کام میں بڑا ماہر بھی تھا۔ ان وکٹری گارڈنز کے ذریعے اس وقت کی حکومت نے بلاواسطہ جنگ سے متاثر ہونے والوں کی ہر طرح سے مدد کی، انہوںنے انہیں مالی امداد بھی دی اور مادی امداد بھی فراہم کی، یہ وکٹری گارڈنز صرف باغات نہیں تھے۔

بلکہ یہ تو مایوس اور دل شکستہ انسانوں کو مایوسی اور دل شکستگی سے بچاتے تھے اور ان کے اندر نیا حوصلہ، نیا جذبہ اور نیا ولولہ پیدا کرتے تھے۔ انہیں مایوسی کے گرداب سے باہر نکالتے تھے اور ایک نئے اور انوکھے جہان کی سیر کراتے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جب یہ مالی اور گارڈنرز اپنے باغوںمیں خود محنت کرتے، اپنا پسینہ بہاتے تو ان کے اندر بھی عجیب سا احساس جلوہ گر ہوتا تھا اور وہ خود کو پہلے سے زیادہ متحرک، چوکس اور توانا محسوس کرتے تھے، کیوں کہ اس سارے کام میں ان کی اپنی محنت بھی شامل ہوجاتی تھی اور بعد میں ان کی اسی محنت کا انعام انہیں اس پیداوار کی شکل میں ملتا تھا جو بعد میں ان کے سامنے ان کے اپنے کھیتوں سے لاکر رکھی گئی ہوتی تھی۔

پھر ایک تحریک چلی جس کا عنوان تھا:“Dig for Victory”

اس تحریک نے رفتہ رفتہ اسپیڈ پکڑی اور اس کے نتیجے میں یہ تحریک یعنی “Dig for Victory”پورے یورپ اور امریکا بھر میں پھیل گئی جس کے نتیجے میں برطانیہ میں بہت سی غیراستعمال شدہ زمین جو عام طور سے ریلوے لائنوں کے ساتھ ساتھ واقع تھی یا دوسرے آرائشی باغات اور لانز بھی فارم لینڈ میں بدلتے چلے گئے۔ ان کے علاوہ کھیلوں کے میدان اور گالف کورسز کے بارے میں بھی معلومات جمع کیں، مگر انہیں کھودنے یا ان میں کھدائی کرنے کے بجائے، انہیں بھیڑ بکریوں کی چراگاہوں کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ لندن کے ہائیڈ پارک میں لان کا ایک سیکشن ایسا بھی تھا جس میں ہل چلایا گیا اور پھر اس میں مختلف سبزیاں بودی گئیں، جب کہ البرٹ میموریل کے شیڈ میں پیاز اگائی گئی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بکنگھم پیلیس اور ونڈسر کیسل میں سبزیوں کے گارڈن ہیں۔

٭ dig for victory:

صرف مسٹر ہیز ہی وہ واحد انسان نہیں تھے جنہوں نے تباہی و بربادی کے ایک عمل کے دوران ایک ایسا موقع تلاش کیا تھا جب وہ بہت کچھ کرسکتے تھے۔

ایک دوسرے صاحب مغربی لندن کے رہنے والے تھے جن کا گھر اس بم سے بال بال بچا تھا۔ اس کے نتیجے میں بننے والے دہانے نے وہاں ایک باغ کی راہ ہموار کی تھی جہاں انہوں نے پھول بھی اگائے اور سبزیاں بھی۔ ایسے ہی اچھے تعلقات اور معاملات ویت نامیوں کے درمیان اس وقت بھی قائم ہوئے جب ان کے درمیان تنازعات اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

ویت نام جنگ کے دوران جو لگ بھگ دو دہائیوں تک جاری رہی، ریاست ہائے متحدہ امریکا نے ویت نام، لاؤس اور کمبوڈیا پر (مشترکہ طور پر)7ملین ٹن بم گرائے، جو اس سے لگ بھگ تین گنا سے بھی زیادہ ہیں جو امریکا نے یورپ اور ایشیا پر تمام جنگ عظیم دوم کے دوران گرائے تھے۔ ان ملکوں میں اس بمباری کے باعث پڑنے والے گڑھوں اور دہانوں میں یہاں کے دیہی افراد نے پانی کے تالاب بنالیے جن میں مچھلیاں پالنے لگے۔ اس طرح جرمن بمباری نے ایک طرف تو متاثرہ ملکوںکو باغات کے تحفے دیے اور دوسری جانب مچھلی کے فارم بھی فراہم کردیے، گویا یہ بمباری متاثرہ ملکوں کے لیے نیک فال ثابت ہوئی اور بجائے اس کے کہ وہ اس کا کوئی منفی اثر لیتے، بلکہ انہوں نے اس کا مثبت اثر لیا اور اس کی مدد سے ترقیاتی امور انجام دیے اور پھر آگے بڑھتے چلے گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔