دل کے اسپتال پر حملہ : دل ٹوٹ گئے ہیں

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 13 دسمبر 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ( المعروف پی آئی سی) پر جو وحشیانہ حملہ ہُوا ہے، اس کی دہشت ابھی تک ملک بھر کی فضا پر قائم ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ امراضِ قلب کا مرکزی اور حساس شفا خانہ بھی ایسی درندگی کا ہدف بن سکتا ہے۔

دل کے اسپتال پر دھاوا بولنے اور انتقام کی آگ میں باؤلے ہو جانے والے لاہور کے سیکڑوں وکیلوں نے اس حرکت کا ارتکاب کر کے در حقیقت اپنے لیے ساری قوم کی نفرت سمیٹی ہے۔ بلوائیوں کی شکل میں وکلا کے جتھے پی آئی سی کے ڈاکٹروں، مریضوں اور اُن کے لواحقین پر اس لیے چڑھ دوڑے کہ انھیں اپنے ’’ملزم‘‘ ڈاکٹروں سے بدلہ لینا تھا۔

چند دن پہلے مبینہ طور پر پی آئی سی کے چند ڈاکٹروں سے چند وکیلوں کا جھگڑا ہو گیا تھا، اور وہ بھی اس لیے کہ کسی ڈاکٹر نے اسپتال آئے وکیلوں کو یہ کہنے کی جسارت کی تھی کہ بھائی صاحب، قطار میں لگ کر، اپنی باری پر دوا لیجیے۔ اس جسارت پر وکیل مشتعل ہو گئے۔ پی آئی سی کے ڈاکٹرز بھی جوابی اشتعال میں آ گئے۔ مبینہ طور پر ڈاکٹروں نے پی آئی سی میں موجود وکیلوں کی پٹائی کی۔ ویڈیو بنا کر توہین بھی کی گئی۔

یہ رویہ ڈاکٹروں کو کسی بھی طرح زیب نہیں دیتا تھا۔ فوری طور پر اس کا احساس بھی ہُوا ؛ چنانچہ ڈاکٹروں نے وکلا برادری کی لیڈر شپ سے ذاتی طور پر معافی مانگی۔ اخلاقاً معذرت قبول کر لینی چاہیے تھی لیکن متعلقہ وکیلوں نے قبائلی عصبیت کا مظاہرہ کرتے ہُوئے معافی قبول کرنے کے بجائے بدلہ لینے کی ٹھان لی۔

اور پھر 10 دسمبر کو پی آئی سی پر وکیلوں نے حملہ کر کے جس خوں آشامی کا مظاہرہ کیا ہے، یہ المناک داستان پاکستان کے 22 کروڑ عوام کے سامنے آ چکی ہے۔ ہر شخص مذمت کر رہا ہے۔ حملے کے دوران دل کے آپریشن کرتے ڈاکٹرز بھاگ اُٹھے اور مریض آپریشن کی میزوں پر تڑپتے رہ گئے ۔پی آئی سی کی عمارت، فرنیچر اور قیمتی مشینری کو تہس نہس کر دیا گیا۔ ظلم یہ کیا گیا ہے کہ وکیلوں نے پی آئی سی میں زیر علاج دل کے کریٹیکل مریضوں کو بھی نہ بخشا۔

پی آئی سی پر سیکڑوں وکلا کی طرف سے جو وحشیانہ دھاوا بولا گیا ہے، اِسے دیکھ اور سُن کر یہ کہنا مشکل ہے کہ ہم ایک مہذب اور منظم معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس حملے نے دل توڑ ڈالے ہیں۔

اقوامِ عالم کے سامنے پہلے ہماری کیا توقیر تھی کہ اب اس حملے نے ہماری رہی سہی عزت بھی خاک میں ملا دی ہے۔ جس وقت ہمارے نجی چینلزکی اسکرینیں پی آئی سی پر وکلا حملے کی لائیو رپورٹنگ دکھا رہے تھے، مجھے نیویارک، لندن اور ٹورانٹو میں مقیم اپنے عزیزوں اور احباب کی طرف سے کئی فون وصول ہُوئے۔

سب کے لبوں پر ایک ہی سوال تھا: ’’ یار، یہ کیا ہو رہا ہے؟ اس ظلم کو لاہور میں روکنے والا کوئی بھی نہیں؟ قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں ہیں؟ مغربی ممالک کے شہروں میں تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اسپتال پر بھی حملہ ہو سکتا ہے، اسپتالوں کو تو جنگوں میں بھی محفوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔‘‘ وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ مغربی ممالک میں بھی وکیلوں کے سیکڑوں مسائل ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی یوں تشدد آمیز اور ظالمانہ اقدام کا تصور نہیں کر سکتا۔ بھارتی میڈیا نے بھی پی آئی سی کے اس سانحہ کی بنیاد پر پاکستان کے کئی سنگین مسائل اور ہماری سرکاری انتظامیہ کی نااہلی (خصوصاً ہماری پولیس ) پر کئی سوالات اُٹھا کر ہمیں شرمندہ کیا ہے۔

ہمارے ہاں نجی اور سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹر برادری کا رویہ بھی خاصا قابلِ گرفت ہے۔ اس کا احتساب کرنے سے مگر ہمیشہ گریز کیا جاتا ہے۔ کہنا پڑے گا کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں جو شرمناک سانحہ رُونما ہُوا ہے، یہاں کے ڈاکٹر بھی کسی نہ کسی طرح اس کے ذمے دار تھے۔ انھیں سرے سے ہی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایکسپریس نیوز کے ایک پروگرام ( ایکسپرٹس) میں بجا طور پر کہا گیا ہے کہ ’’یہ لڑائی دو مافیاز کے درمیان تھی ۔‘‘ پی آئی سی میں بے وسیلہ، بے زر اور بے سفارش مریضوں کی کوئی شنوائی نہیں ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ اس شفا خانے پر بڑا متنوع بوجھ ہے لیکن یہاں تو موت وحیات کی آخری دہلیز پر کھڑے مریضوں کی بھی توہین کر دی جاتی ہے۔ ایسے واقعات تو اب معمول بن چکے ہیں۔ یہ وہی ادارہ ہے جہاں شہباز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران سیکڑوں دل کے مریضوں کو غلط دوا دیے جانے کے سبب کئی مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے لیکن کسی ایک کو بھی سزا نہیں دی گئی۔ سارا شرمناک واقعہ دبا دیا گیا تھا۔ اس اسپتال سے راقم کی بھی کئی تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ تین سال پہلے میرے سگے بھائی، جو پولیس کے سینئر ملازم تھے، پر اُس وقت دل کا حملہ ہُوا جب وہ شام کے وقت آن ڈیوٹی تھے۔

انھیں فوری طور پر پی آئی سی لایا گیا لیکن یہاں انھیں شام آٹھ بجے سے سحری تین بجے تک بیڈ تک نہ دیا گیا۔ وہ تقریباً سات گھنٹے وہیل چیئر پر بیٹھے رہے اور اِسی حالت میں انھیں ڈرپ لگائی گئی۔ پھر انھیں کہا گیا کہ اگر ’’سرکاری طور پر‘‘ علاج کروانا ہے تو ڈیڑھ سال بعد آئیں۔ اور اگر پی آئی سی ہی میں پرائیویٹ علاج ( دل کا بائی پاس) کروانا ہے تو کل ہی ہو جائے گا، لیکن اس کے لیے چار لاکھ روپے فوری ادا کرنا ہوں گے۔

مرتے کیا نہ کرتے۔ بھائی کی حالت خاصی تشویشناک تھی ؛ چنانچہ بہ امر مجبوری بھاگ دوڑ کرکے لاکھوں روپوں کا بندوبست کیا گیا۔ خون کی بوتلوں کا اکٹھا کرنا مزید آزمائش تھی۔ دوسرے دن ہی اُن کا بائی پاس ہو گیا۔ لاکھوں روپے بھرنے کے باوجود اسپتال مذکور میں جو توہین آمیز روئیے برداشت کرنے پڑے ، اُس کی یاد اب بھی تکلیف دیتی ہے۔ کچھ ایسی ہی یادیں راولپنڈی میں بروئے کار امراضِ قلب کے سرکاری اسپتال (آر آئی سی) سے بھی وابستہ ہیں جہاں کے عذاب سے خود مجھے گزرنا پڑا۔ عذاب کے اس بیلنے کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جس کی جان اس شکنجے میں پھنس جاتی ہے۔

پنجاب کے دل، لاہور، میں واقع دل کے اسپتال پر حملہ دراصل ملک بھر میں رجسٹرڈ ایک لاکھ 60 ہزار وکیلوں کے ماتھے پر نہ مٹنے والا داغ لگا گیا ہے ۔ افسوس کی بات مگر یہ بھی ہے کہ پنجاب حکومت اس بلوے کو بروقت روکنے میں ناکام رہی۔ پنجاب پولیس کا کردار محض ایک خاموش تماشائی کا تھا ۔ کارروائی کے لیے سب ’’اوپر‘‘ کے اشارے کے منتظر پائے گئے، محض اس لیے کہ کوئی دوسرا سانحہ ماڈل ٹاؤن نہ ہو جائے؟ اور اس دوران بلوائی وکیلوں نے پی آئی سی اور اس کے جاں بلب مریضوں کی جانیں ہلکان کیے رکھیں۔

یہ سانحہ پنجاب پولیس کے نئے سربراہ کی اہلیت اور کارکردگی پر بھی کئی سوال ثبت کر گیا ہے۔ پنجاب کے کئی اداروں اور اُن کے سربراہوں کے تحفظ کے لیے تعینات ہونے والے رینجرز کے کارن بھی یہ سوال اُٹھائے جانے لگے ہیں کہ آیا پولیس صرف بے گناہوں اور کمزوروں کی چھترول کرنے کے لیے رہ گئی ہے؟

پنجاب کی وزیر صحت، ڈاکٹر یاسمین راشد ، بھی کئی سوالوں کی زَد میں ہیں اور صوبائی وزیر قانون، راجہ بشارت، بھی ۔ پی آئی سی سانحہ نے یہ سوال ایک بار پھر اُٹھا دیا ہے کہ ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود ابھی تک پنجاب میں کوئی وزیر داخلہ کیوں نہیں سامنے لایا جا سکا؟ یہ وزارت وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس کیوں رکھی گئی ہے؟ پی آئی سی پر وکلا کے سنگین حملے نے سنگین سوالات کے جنگل اُگا دیے ہیں۔ اس جنگل میں خود جناب عمران خان بھی کھڑے ہیں۔ انھیں ان سوالوں کے جواب دیتے ہُوئے اپنے ’’وسیم پلس‘‘کی کارکردگی کا بھی سنجیدگی سے فوری جائزہ لینا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔