جدہ ، مکہ اور مدینہ کا روحانی سفر (حصہ دوم)

ایم قادر خان  جمعـء 13 دسمبر 2019

حجر اسود خانہ کعبہ کے مشرقی کونے میں نصب ہے روایات ہے اللہ تعالیٰ نے یہ پتھر جنت سے بھیجا تھا تا کہ اسے خانہ کعبہ میں رکھا جا سکے۔ خانہ کعبہ اور حجر اسود کا درمیانی حصہ منتظمین کہلاتا ہے اس جگہ کی چوڑائی کم و بیش 2 میٹر ہے۔

کہا جاتا ہے اس جگہ مانگی گئی دعائیں قبول ہو جاتی ہیں۔ کعبہ کا داخلی دروازہ مشرق کی جانب ہے تعمیر کے وقت اس کی اونچائی زمین کے برابر تھی۔ جب قریش نے کعبہ کی تعمیر نئے سرے سے کی تو اسے بلندی پر نصب کیا میزاخ (بارش کا پانی گرنے والا پرنالا) خالص سونے کا بنا ہوا پرنالا جس سے خانہ کعبہ پر گرنے والے چھت کے پانی کا نکاس ہوتا ہے۔

کعبہ سے منسلک جگہ زمین حجرہ اسماعیلؑ بھی کہلاتی ہے اس جگہ پر حضرت ابراہیمؑ حضرت اسماعیلؑ اور ان کی والدہ بی بی حاجرہؑ کی رہائش گاہ تعمیر کی تھی ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس پتھر پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیمؑ نے کعبہ کی دیوار کی چنائی کی تھی جب کہ حضرت اسماعیلؑ زمین پر کھڑے ہو کر ان کو پتھر پکڑاتے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے یادگار کے طور پر تعمیر کے قدموں کے نشان اس چٹان پر ثبت کر دیے تا کہ آنے والی نسلیں اس کی تعمیر کی حقیقت کو یاد رکھیں۔ خانہ کعبہ کا ایک کونہ رکن یمنی کہلاتا ہے کیونکہ یہ یمن کی جانب ہے۔ خانہ کعبہ کو بیت اللہ بھی کہا جاتا ہے یعنی اللہ کا گھر۔

طواف مکمل کرنے کے بعد مقام ابراہیمؑ پر دو رکعت نفل نماز ادا کی، عمرہ کا اگلا رکن صفا مروہ کی سعی تھا، آب زم زم سیر ہو کر پیا بدن میں مزید توانائی آ گئی۔

کوہ صفا کی جانب بڑھے خانہ کعبہ سے نہایت قریب واقع ہے صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگائے مسلسل تکبیر کلمہ طیبہ، کلمہ شہادت اور قرآنی آیات دہراتے رہے۔ ہری روشنیوں کے درمیان بھاگنا بی بی حضرت حاجرہ کے بھاگ کر بے تاب پانی کی تلاش میں بھاگ دوڑ پر کیا جاتا ہے۔ حج کی عبادت حضرت ابراہیمؑ کے خاندان کے گرد گھومتی ہے۔

اسلامی عقیدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو حکم دیا کہ اپنی حاملہ بیوی حضرت حاجرہؑ کو عرب کے سمرہ میں واقع وادی بطحہٰ میں چھوڑ آئیں۔ یہ وہی مقام ہے جہاں آج کل مکہ مکرمہ آباد ہے یہ پیغمبر کے ایمان کی آزمائش تھی۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے رب تعالیٰ کے حکم پر لبیک کہا اور بیوی کو اس مقام پر چھوڑ گئے جہاں آج کل بیت اللہ موجود ہے۔

ایک وقت آیا کہ خوراک اور پانی کا ذخیرہ ختم ہو گیا حضرت حاجرہؑ نے بچے کو ایک پتھر کے سائے میں لٹایا اور پانی کی تلاش میں بھاگیں۔ شمال میں واقع پہاڑی صفا پر چڑھ گئیں ہر جانب نظر دوڑائی لیکن پانی نہ ملا۔ بچے کا خیال آیا تو واپس دوڑیں اسماعیلؑ پیاس کی شدت سے ایڑیاں رگڑ رہے تھے۔ آپؑ جنوبی سمت مروہ کی طرف بھاگیں اس طرح ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سات چکر لگائے وہ راستہ جس پر آپ نے چکر لگائے صفا اور مروہ کے درمیان اس راستے پر سات چکر لگائے ہیں۔

یہ رکن سعی کہلاتا ہے۔ جب آپ مروہ سے پلٹیں اور بچے پر نظر ڈالی جو پیاس کی شدت سے ایڑیاں رگڑ رہا تھا ، اچانک ایک معجزہ ہوا ، عین اسی مقام پر جہاں اسماعیلؑ نے ایڑیاں رگڑی تھیں ایک چشمہ پھوٹ پڑا۔ حضرت حاجرہ بولیں زم زم ، زم زم کے معنی ہیں رک رک، پانی کا بہاؤ آہستہ ہو گیا اور چشمہ کا نام زم زم پڑ گیا۔

یہ چشمہ تقریباً چار ہزار سال سے اس علاقے کو پانی فراہم کر رہا ہے جو ایک معجزہ ہے۔ زم زم کنوئیں کی گہرائی 23 میٹر ہے، 1953ء تک کنوئیں سے پانی نکالنے کے لیے ڈول (بالٹی) استعمال کی جاتی تھی پھر یہاں پر الیکٹرک پمپ نصب کر دیے گئے۔ ان پمپوں کی مدد سے پانی ٹینکوں میں بھرا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق زم زم کنوئیں سے روزانہ 13 لاکھ گیلن پانی حاصل کیا جاتا ہے۔

سعی مکمل کرنے پر سر کے بال منڈوائے یہ صرف مردوں پر لازم ہے۔ اب احرام کی پابندی ختم ہو چکی تھی۔ دوپہر کو عمرہ کرنے کا وقت مناسب لگا بھیڑ کم ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ صبح 3 بجے کا وقت بھی مناسب ہے رش تھوڑا کم ہوتا ہے۔ کئی بار عمرہ کرنے کے لیے بالکل ایسا ہی کرنا پڑے گا کہ مسجد عائشہ جا کر غسل کریں احرام پہنیں عمرہ کی نیت کریں 2 رکعت نماز نفل مسجد عائشہ میں ادا کریں پھر وہاں سے روانہ ہو کر بیت اللہ آ کر طواف کریں۔ بسیں، ٹیکسی مکہ سے مسجد عائشہ جاتی ہیں زیادہ دور نہیں یہ مکہ سے قریبی مقامات ہے۔

اطراف مکہ مزدلفہ: حاجی نویں ذی الحجہ کی رات کھلے آسمان تلے خیموں میں گزارتے ہیں اس صحرا کی لمبائی چار کلو میٹر ہے رقبہ 12.25 مربع کلو میٹر۔ منہا یہاں حاجی آٹھویں، گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ کی راتیں گزارتے ہیں۔ 1997ء تک حاجی روایتی سوتی خیمے استعمال کرتے تھے۔ 1997ء میں ہونے والی مشہور آتشزدگی کے بعد آگ سے محفوظ ریشہ سے بنے خیمے استعمال ہونے لگے۔ اس آتش زدگی کے واقع میں متعدد خیمے جل گئے اور بڑی تعداد میں حاجی شہید ہوئے۔ جمراد بھی یہیں واقع ہے اس مقام پر حاجی تین شیاطین کو کنکریاں مارتے ہیں۔

اس عمل کے ساتھ ہی حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں ایک روایت منسوب ہے کہا جاتا ہے جب حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے کی صورت میں لے کر منہا کو روانہ ہوئے تو شیطان نے انھیں تین مقامات پر ورغلانے کی کوشش کی۔

آج ان تین مقامات پر تین ستون ایستادہ ہیں حاجی ان ستونوں کو کنکریاں مار کر حضرت ابراہیمؑ کے ایمان کی پختگی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ آج کل اس سارے علاقے میں کچھ خاص نہ ملا اسی جگہ حاجی دس، گیارہ اور بارہ ذی الحجہ سورج غروب ہونے سے قبل کوئی نہ کوئی دنبہ، بکرا وغیرہ قربان کرتے ہیں، جو حج کے لازمی مناسک میں سے ایک ہے۔

مسجد حیف تاریخی مسجد منہا کے جنوب میں واقع ایک پہاڑی کے قریب واقع ہے اس کے قریب ہی سب سے چھوٹے شیطان کا ستون ہے۔ کہتے ہیں اس مسجد میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ بے شمار انبیائے کرام نے بھی نماز ادا کی۔ وادی محارص جو منہا اور مزدلفہ کے درمیان واقع ہے اس مقام پر اللہ نے یمن کے بادشاہ ابراہہ کے لشکر کو تباہ کیا۔

قرآن پاک میں یہ واقعہ سورۃ الفیل میں بیان کیا گیا ہے۔ حاجی اس مقام سے تیزی سے گزر جاتے ہیں کیونکہ اس جگہ پر اللہ کا عذاب نازل ہوا تھا۔ نبی کی سنت بھی یہی ہے۔ وادی ادانہ مسجد نمرہ یہ جگہ عرفات کے میدان میں ہے حج اسنودہ کے موقع پر حضرت محمدؐ نے اپنا خیمہ یہیں پر نصب کیا تھا۔

حضرت محمدؐ نے اپنا مشہور خطبہ وادی ارانہ میں دیا۔ یہ بعداز دوپہر کا وقت تھا خطبے کے بعد نماز کی امامت فرمائی اس وقت حضورؐ کے ساتھ ایک لاکھ سے زائد مسلمان تھے۔ مسجد اقوج اس کو مسجد بیت بھی کہا جاتا ہے ۔ منہا کے مقام پر مکہ کے قریب واقع یہ مسجد آج تک اسی حالت میں ہے جیسی یہ حضورؐ کے زمانے میں تھی۔ مسجد جفرانہ یہ خانہ کعبہ سے 24 کلو میٹر شمال مشرق کی طرف واقع ہے اس مسجد میں بھی عمرے کے زائرین احرام باندھ سکتے ہیں۔

(جاری ہے۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔