شرم و حیا

ثریا طارق عباسی  جمعـء 13 دسمبر 2019
عثمان غنیؓ کی حیا کی بابت سرورِ کونینؐ فرماتے ہیں: ’’کیا میں اِس آدمی سے حیا نہ کروں، جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔‘‘

عثمان غنیؓ کی حیا کی بابت سرورِ کونینؐ فرماتے ہیں: ’’کیا میں اِس آدمی سے حیا نہ کروں، جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔‘‘

حیا، دینِ اِسلام کی زینت ہے۔ یہ وہ وصف ہے جس کے لیے رب کے حبیب ﷺ نے فرمایا: ’’حیا، ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ (بخاری)

رسول کریمؐ نے انسان کو زمانۂ جاہلیت کی بے حیائی سے بے نیاز کرکے باحیا قالب میں ڈھال دیا۔ انسان کو بتایا کہ تم احسنِ تقویم ہونے کی وجہ سے باعثِ تکریم ہو، جب راستوں سے گزرو تو اپنے جیسے انسانوں کے چہروں کو گھُورتے نہ گزرو۔ بل کہ گردن اُونچی رکھ کر اور نظر جھکا کے باوقار انداز سے گزرو۔ اپنے پہناوے میں وہ انداز اختیار کرو جس سے تمہاری زینت بھی ہو اور ستر پوشی بھی۔ تمہاری متانت، تمہارے وقار پر فحش گوئی، گالم گلوچ، لعنت ملامت اور طعنہ زنی کی گرد نہ پڑے۔ اﷲ کے چنیدہ بندے باحیا اور پُروقار ہوتے ہیں۔

مذاق کے نام پر بھی گالی و فحش گوئی سے کوسوں دور۔ یہی وجہ ہے کہ جب جب کوئی کذاب نبوت کا مدعی ہوا لوگوں نے اُس کے اندازِ تکلم سے پہچان لیا کہ آلودہ زبان رکھنے والا یہ شخص ہرگز حق دارِ نبوت نہیں ہے۔ قافلۂ نبوّت کے سردار اعظم ﷺ کی حیا دیکھیے کہ صحابیؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ پردہ نشین دوشیزہ سے بھی زیادہ حیادار تھے۔ عثمانِ غنیؓ وہ شخصیت ہیں جنہیں حیا اور سخاوت کی بنا پر سراہا گیا۔ جناب عثمان غنیؓ کی حیا کی بابت سرورِ کونینؐ فرماتے ہیں: ’’ کیا میں اِس آدمی سے حیا نہ کروں، جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔‘‘

ہم حیا والوں کے پیروکار تھے، حیا والوں کے وارث تھے۔ نہ جانے اِس پاکیزہ کارواں میں زہر کی طرح سے سرایت کر جانے والی بے حیائی کہاں سے در آئی۔ جِن کے آبا و اجداد کے لیے نظر کی خیانت بھی حیا و غیرت کے منافی تھی، آج اُن کی اولاد ہر طرح کی خیانت میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتی۔ غیرت کے ماضی و حال کی داستاں یہ ہے کہ جو پاکیزہ نفوس کل تک بے شرموں کی بے ہودگیوں کے شر سے اپنی مومن بہنوں کو بچاتے تھے آج اُن کے نام لیواؤں کے شر سے اُنہی کی دینی بہنیں پناہ مانگتی ہیں۔

اپنے کردار کو آبگینوں کی مانند سمیٹ کر چلنے والے لوگ چھپ گئے اور عصرِ حاضر کی تہذیبوں سے بے باکی سمیٹنے والے رہ گئے۔ جن کے نزدیک زمانے سے ہم آہنگی اور ترقی کا مطلب اپنے آپ کو حصارِ دین میں رکھ کر طلب و حصولِ علم نہیں، رب ِ کائنات کے بنائے جہانوں پر فکر و تدبر نہیں، بل کہ ملبوس کو تراش تراش کر دھجیوں میں بدل ڈالنا ہے۔ جن کے نزدیک شرم و حیا کے افکار دقیانوسی ہیں اور بے باکی و بے حمیتی ترقی کا عَلم۔ مومن کو یقینا اپنے زمانے سے ہم آہنگ رہنے کی تعلیم دی گئی ہے۔

مگر زمانے سے ہم آہنگی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اُس دور میں پنپنیوالی ہر بُرائی کو بھی من و عن اپنا لیا جائے۔ اِس جہانِ فانی سے برتنے کو بس وہی اشیاء، محرکات اور انداز چُنیں جو رب کے پسندیدہ طریقوں کے منافی نہ ہوں، جو ہم سے جہانِ باقی کو زائل کرنے والے نہ ہوں۔ حُبِ احمدؐ کا اگر دعوی ہے تو اوصافِ رسول ﷺ بھی اپنائیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔