سلام کیجیے، دل جیتیے!

ایم ایم صدیق  جمعـء 13 دسمبر 2019
سلام کے دیگر مختلف طریقوں میں بھی سلامتی اور نیک خواہشات کا پیغام ہی پنہاں ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

سلام کے دیگر مختلف طریقوں میں بھی سلامتی اور نیک خواہشات کا پیغام ہی پنہاں ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

ہر معاشرت میں یہ رواج ہے کہ جب لوگ ملاقات کرتے ہیں، تو پہلے کسی عمل یا الفاظ سے ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرتے ہیں، اس کے بعد دیگر گفت گُو شروع کرتے ہیں۔ اسلام نے ہمیں ایک دوسرے کو ’’السلام علیکم‘‘ کہنے کا حکم دیا ہے جس سے ایک طرف طرز معاشرت کا رکن ادا ہوتا ہے، تو دوسری طرف بالواسطہ یہ ایک دوسرے کے لیے رب تعالیٰ کے حضور سلامتی کی دعا بھی بن جاتی ہے۔

السلام علیکم کے الفاظ پر غور کیجیے کہ یہ کس قدر مختصر اور جامع ترین کلمہ ہے، یعنی آپ پر سلامتی ہو۔ اس کا وسیع مفہوم یہ ہے کہ اﷲ تمہیں ہر طرح کی سلامتی اور عافیت سے نوازے اور تمہاری جان، مال، گھر بار، اہل و عیال اور متعلقین سے لے کر دین و دنیا کی تمام خیر اور بھلائیاں تمہارے لیے لکھ دے۔

اگر دیکھا جائے تو سلام کے دیگر مختلف طریقوں میں بھی سلامتی اور نیک خواہشات کا پیغام ہی پنہاں ہوتا ہے، لیکن اسلام نے ہمیں ملاقات کا ادب سکھاتے ہوئے یہ مقررہ کلمات عطا فرمائے ہیں، جس سے مسلمانوں کے تشخص کا اظہار بھی ہوتا ہے اور دوسری طرف ایک دوسرے کے لیے دل میں محبّت بھی بڑھتی ہے۔

السلام علیکم کہنے پر دس نیکیاں، السلام علیکم و رحمۃ اﷲ پر بیس نیکیاں اور السلام علیکم و رحمتہ اﷲ و برکاتہ پر تیس نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔ جب فرشتے مومنین کی روح قبض کرنے آتے ہیں تو وہ بھی سلام کرتے ہیں۔ جب متّقی جنّت کے دروازے پر پہنچیں گے تو وہاں کے دربان بھی سلام کرتے ہوئے انہیں خوش آمدید کہیں گے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سلام کو کس قدر اہمیت دی ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں سلام کرنے کو ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر عاید پانچ حقوق میں سرفہرست رکھا گیا ہے۔

یہ پانچ حقوق سلام کا جواب دینا، مریض کی عیادت کرنا، جنازے کے ساتھ جانا، دعوت قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث کے مطابق سلام کا جواب دینا ہی نہیں، بل کہ دوسرے مسلمان بھائی سے ملاقات کے موقع پر اسے سلام کرنا بھی حق شمار کیا گیا ہے۔

رسول کریمؐ سے پوچھا گیا کہ اسلام کا بہترین عمل کون سا ہے تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’غریبوں کو کھانا کھلانا اور ہر مسلمان کو سلام کرنا، چاہے اس سے شناسائی ہو یا نہ ہو۔‘‘ یہی نہیں نبی اکرمؐ نے ایک دوسرے کو سلام کرنے کو جنّت میں داخلے کا ایک راستہ بھی بتایا۔ آپؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’تم لوگ جنّت میں نہیں جاسکتے جب تک کہ مومن نہیں بنتے اور تم مومن جب تک نہیں بن سکتے جب تک کہ ایک دوسرے سے محبّت نہ کرو۔ میں تمہیں وہ تدبیر کیوں نہ بتا دوں، جسے اختیار کرکے تم آپس میں ایک دوسرے سے محبّت کرنے لگو، وہ یہ کہ آپس میں سلام کو پھیلاؤ۔‘‘ (مشکوۃ)

ہم اپنے اردگرد کا جائزہ لیں تو بہت کم لوگ ایسے دکھائی دیتے ہیں، جو ہر خاص و عام کو سلام کریں۔ ہم نے غیر محسوس طریقے سے سلام کو صرف اپنے احباب سے ادا کی جانے والی ایک رسم سمجھ لیا ہے، شرعی تعلیمات کی رو سے یہ نہایت غلط بل کہ ناپسندیدہ فعل ہے۔

نبی اکرمؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’ قیامت کے قریب لوگ مجلسوں میں لوگوں کو مخصوص کرکے سلام کرنے لگیں گے۔‘‘ (الادب المفرد) یہی نہیں ہمارے ہاں سلام ایک مرتبے کی علامت بھی بن گیا ہے، ہم میں سے اکثر لوگ اپنے سے چھوٹے رتبے یا چھوٹی عمر والے کو سلام کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ اگر ہم نے سلام کرلیا تو اس سے ہماری بڑائی گھٹ جائے گی۔ اس لیے ہماری عزت و وقار اور شان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم نہیں بل کہ ہمارے سامنے والا ہی ہمیں سلام کرے۔ یہ نہایت غلط عادت ہے۔

کچھ نام نہاد عالی مرتبت تو اس قدر بلندی پر فائز ہو جاتے ہیں کہ وہ یہ بھی گوارا نہیں کرتے کہ سلام کا جواب دیں۔ اس لیے سرِراہ بھی کہیں مل جائیں، تو یوں نگاہیں پتھرائے اور چہرے پھرائے گزر جاتے ہیں کہ کہیں انہیں کسی کے سلام کا جواب نہ دینا پڑ جائے اور تب بھی اگر کوئی انہیں سلام کرلے تو اَن سنا کرکے یہ تاثر دیں گے کہ انہوں نے تو سنا ہی نہیں۔ جب کہ یہ دینی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ دین تو ہمیں بلا تفریق ہر چھوٹے، بڑے، امیر، غریب اور کسی بھی مرتبے اور عہدے کے بغیر سلام پھیلانے کا حکم دیتا ہے۔ ہمیں تو تاکید کی گئی ہے کہ چھوٹے بچوں کو بھی سلام کیا جائے تاکہ ان کے اندر سلام کرنے کی عادت پختہ ہو، یہ ہمارے پیارے نبی کریمؐ کی سنّت مبارکہ بھی ہے۔

ہمارے ہاں بڑے عہدوں پر متمکن کچھ افراد کا وطیرہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماتحت یا دیگر عام افراد سے زبانی علیک سلیک تو کر لیتے ہیں، لیکن مصافحہ کرنا عار سمجھتے ہیں ۔ ہمیں اپنی اس عادت کی بھی اصلاح کرنا چاہیے۔ عبداﷲ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: مکمل سلام یہ ہے کہ مصافحہ کے لیے ہاتھ بھی ملائے جائیں۔ جناب حذیفہ بن یمانؓ سے مروی ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’جب دو مومن ملتے ہیں اور سلام کے بعد مصافحہ کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو دونوں کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں، جس طرح درخت سے سوکھے پتّے۔‘‘ سلام کے حوالے سے ہم یہ سوچتے ہیں کہ بس دن میں ایک دفعہ سلام کرلینا کافی ہے یا کہیں سفر سے ہو آئے تو پھر دوبارہ سلام کرلیا، یہ سوچ بھی درست نہیں ہے۔

حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ صحابہؓ کے درمیان سلام کی کثرت کا یہ حال تھا کہ کسی درخت کی اوٹ میں ہو جاتے اور پھر سامنے آتے، تو سلام کرتے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’جو شخص اپنے مسلمان بھائی سے ملے تو اسے سلام کرے اور اگر درخت یا دیوار یا پتھر بیچ میں اوٹ بن جائے اور پھر اس کے سامنے ائے تو اسے پھر سلام کرے۔‘‘ اس سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ ہمیں دن میں جتنی بار بھی موقع ملے، آپس میں اس بے مثال دعا کا تبادلہ کرتے رہنا چاہیے اور سلام کرنے میں پہل کرنا چاہیے۔

ہمیشہ بہ آواز بلند سلام کریں تاکہ جسے سلام کر رہے ہیں وہ سن لے۔ اپنے بڑوں کو سلام کرنے کا اہتمام کیجیے۔ رسول اﷲ ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے: چھوٹا شخص بڑے کو، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو، اور تھوڑے افراد زیادہ لوگوں کو سلام کرنے میں پہل کریں، سواری پر چلنے والے پیدل چلنے والوں کو اور پیدل چلنے والے بیٹھے ہوئے لوگوں کو اور تھوڑے آدمی زیادہ آدمیوں کو سلام کرنے میں پہل کریں۔ (الادب المفرد)

نبی کریمؐ نے راستوں میں بیٹھنے سے منع فرمایا۔ جب دربار رسالتﷺ میں عرض کیا گیا کہ یا رسول اﷲﷺ! ہمارے لیے راستوں میں بیٹھنا ناگزیر ہے۔ جس پر آپؐ نے تلقین فرمائی کہ اگر ایسا ہے تو پھر راستے کا حق ادا کرنا، اپنی نگاہیں نیچی رکھنا، دُکھ نہ دینا، سلام کا جواب دینا اور نیکی کی تلقین کرنا اور برائیوں سے روکنا۔ (متفق علیہ)

ان دنوں ایک اور عادت غیر محسوس طریقے سے ہمارے درمیان بڑھتی جا رہی ہے کہ ہم سلام کرنے کے بہ جائے، اور بھئی کیا حال ہے؟ یا کیسے ہیں؟ جیسے الفاظ بولنے لگے ہیں، اس کے بعد عام گفت گُو شروع ہو جاتی ہے۔ بالخصوص بہت سے کاروباری، دفتری احباب یا بے تکلّف دوستوں کے درمیان السلام علیکم کی جگہ ان کلمات نے لے لی ہے۔ ہمیں اپنی بھی اصلاح کرنی چاہیے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرنا چاہیے کہ وہ گفت گو کا آغاز سلام کے بعد کیا کریں۔ یقیناً یہ امر ان کے عمل صالحہ میں اضافے کا باعث ہوگا اور رب تعالیٰ کے حکم سے اس کی رحمتیں اور برکتیں ہماری زندگی میں شامل ہو جائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔