’افغانستان پیپرز‘ امریکی خارجہ پالیسی کیخلاف چارج شیٹ ہیں ماہرین

اعلیٰ ترین امریکی حلقے بھی پُر یقین نہیں تھے کہ افغانستان میں حقیقی مشن دراصل کیا ہونا تھا


ذیشان احمد December 13, 2019
افغانستان میں امریکا عجلت سے کام لیا اور اپنے سیاسی تحفظات کے تحت اسی عجلت کا شکار رہا۔ فوٹو: اے ایف پی

امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے پیر کو جاری کی گئی خفیہ دستاویزات ' افغانستان پیپرز' سے اس طویل ترین جنگ سے متعلق خدشے کی تصدیق ہوتی ہے جسے ایک لمبے عرصے سے امریکا کے اندر اور باہر محسوس کیا جارہا تھا۔

عسکری جدوجہد سے منسلک کلیدی امریکی حکام کے خفیہ انٹرویوز اس جنگ کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں کہ اعلیٰ ترین حلقے بھی اس سلسلے میں پُریقین نہیں تھے کہ افغانستان میں حقیقی مشن دراصل کیا ہونا تھا۔ دو عشروں پر محیط جنگ پر ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے باوجود امریکا کوئی پیش رفت نہیں کرسکا کیوں کہ اس کی لیڈرشپ کو کوئی آئیڈیا نہیں تھا کہ کس نوع کی پیشرفت ہونی چاہیے تھی۔ 19 سالہ جنگ کے دوران امریکا کا پاکستان سے ہمیشہ ڈو مور کا مطالبہ رہا اور اب ایک بار پھر یہی بات دہرائی گئی۔

دائیں بازو کے امریکی نیوزچینل فوکس نیوز سے بات کرتے ہوئے سینیٹر لنزے گراہم نے دعویٰ کیا کہ اگر پاکستان نے طالبان کو محفوظ پناہ گاہ فراہم نہ کی ہوتی تو افغان جنگ ہفتوں میں ختم ہوجاتی۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ پر تنقید کرتے ہوئے سابق یو ایس جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے بھی کچھ اسی طرح کے خیالات اظہار کیا۔

دفاعی تجزیہ کار میجنرجنرل ( ر) انعام الحق کا اس بارے میں کہنا ہے کہ جب بھی امریکی حقیقت سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں تو پاکستان کے گرد ایک بیانیہ تخلیق کرنے لگتے ہیں۔ سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔

ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ واشنگٹن یہ بات کبھی نہیں سمجھا کہ پاکستان اور اس کی مسلح افواج اور سیکیورٹی ایجنسیوں کو موردالزام الزام ٹھہرانے کی جابرانہ اورہتک آمیز اپروچ قابل ملامت اورکاؤنٹر پروڈکٹیو تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔