خبردار! یہاں داخلہ لینا منع ہے

سید امجد حسین بخاری  جمعرات 19 دسمبر 2019
طالب علموں کا موقف ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں سنے بغیر ایکسپیل کیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

طالب علموں کا موقف ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں سنے بغیر ایکسپیل کیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو وزیراعظم پاکستان نے دو اہم نکات کے باعث پاکستان کے بڑے صوبے کے انتظام و انصرام کی ذمے داری سونپی۔ پہلی وجہ احساس محرومی کا خاتمہ اور دوسری اہم وجہ ان پر کپتان کا کنٹرول ہے۔ مجھے ان کی کارکردگی سے غرض ہے اور نہ ہی کپتان کے قابل اعتماد فرد ہونے پر سوال ہے۔ مجھے ان کے انتخاب کی پہلی وجہ پر دکھ ہے، جس بنیاد پر وہ وزیراعلیٰ بنے ہیں۔ انہوں نے اس پر کبھی غور کیا ہے اور نہ ہی اس کے تدارک کےلیے کوئی ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار احساس محرومی کے شکار خطے سے منتخب ہوئے۔ انہیں جنوبی پنجاب کا نمائندہ سمجھا گیا۔ ان کے گھر بجلی کے کھمبوں کے فقدان کا رونا رویا گیا۔ تعلیمی نظام پر سوالات اٹھائے گئے۔ میں بھی وزیراعظم کے اس انتخاب پر انہیں داد دینے پر مجبور ہوا۔ انہوں نے تخت لاہور پر جلوہ افروز ہوتے ہی اپنے گاؤں میں بجلی کے کھمبے نصب کرنے کے احکامات صادر کیے۔ مجھے امید ہوچلی تھی کہ جس طرح وزیراعلیٰ کے گاؤں میں روشنیاں جگمگا رہی ہیں، ایسے ہی جنوبی پنجاب کی سڑکوں پر گاڑیاں دوڑیں گی۔ اسی طرح جنوبی پنجاب میں علم کے دیپ چلیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے کچھ بھی نہ ہوا۔

مجھے وزرات خزانہ سے معلومات ملیں کہ وزیراعلیٰ نے ڈیرہ غازی خان کے حلقوں پر خزانے کے منہ کھول دئیے۔ یہ انعام و اکرام اور نوازشات عوام تک کیسے پہنچیں گی؟ یہی سوال پوچھنے کےلیے میں نے مختلف افراد سے رابطہ کیا، لیکن میری تشنگی کم نہ ہوئی۔ اسی دوران مجھے بہاولپورکے تین سو سے زائد طلبا کے بارے میں اطلاع ملی، جنہیں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے داخلہ دینے سے انکار کردیا تھا۔

یونیورسٹی میں اس معاملے کا آغاز رواں سال ہوا، جب چند طلبا نے داخلے کےلیے آن لائن اپلائی کرنے کی کوشش کی۔ طلبا نے جونہی اپنا شناختی کارڈ نمبر درج کیا، خودکار نظام کے ذریعے انہیں بتایا گیا کہ آپ جامعہ میں داخلہ لینے کے اہل نہیں ہیں۔ ایسا کسی ایک طالب علم کے ساتھ نہیں ہوا، بلکہ سیکڑوں طلبا اس معاملے سے دوچار ہوئے۔ اس مسئلے کے سامنے آنے کے بعد طلبا نے یونیورسٹی انتظامیہ سے بات کی۔ جس پر انہیں بتایا گیا کہ آپ کو یونیورسٹی سے ایکسپیل کیا گیا تھا، اس لیے آپ پر جامعہ میں داخلہ لینے کی تاحیات پابندی ہے۔

چند طلبا نے اس واقعے کو سوشل میڈیا پر بیان کیا، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ بعد ازاں اس معاملے پر تحقیقات کی گئیں تو کئی راز کھلتے گئے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے محض مفروضوں کی بنیاد پر طلبا کو ایکسپیل کیا۔ انہیں یونیورسٹی میں ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے تاحیات داخلہ دینے پر پابندی لگادی گئی۔ طلبا کی اکثریت مختلف پروگرامز میں بی ایس کی ڈگری ملنے کے باوجود ایم ایس میں داخلہ لینے سے قاصر ہے۔

تاحیات پابندی کا شکار صرف طلبا ہی نہیں بلکہ طالبات بھی ہیں۔ طلبا کو ایکسپیل کرنے کے حوالے سے یونیورسٹی کی جانب سے جاری ڈاکومنٹس کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ طلبا کو شہر کے کسی چوک میں احتجاج کرنے، یونیورسٹی ہاسٹلز کے اندر پارکنگ کرنے پر، اساتذہ سے دوران لیکچر مدلل اختلافات کرنے پر ایکسپل کیا گیا۔ متعدد طالبات کو یونیورسٹی انتظامیہ کو اساتذہ کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کی شکایات کرنے پر داخلے سے محروم کیا گیا۔ یہاں یہ امر حیرانگی کا باعث ہے کہ کئی طلبا کو یونیورسٹی سے ایکسپیل بھی نہیں کیا گیا اور نہ ہی انہیں کوئی وارننگ ملی۔ اس کے باوجود انہیں بھی داخلے سے نااہل قرار دے دیا گیا۔

یونیورسٹی کے سابق طالب علموں کا موقف ہے کہ انتظامیہ، سنڈیکیٹ نے انہیں سنے بغیر نہ صرف ایکسپیل کیا ہے بلکہ تاحیات داخلے سے محروم کردیا ہے۔ چند طلبا کا موقف ہے کہ انہیں کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا، ان کا موقف سنا گیا، جس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے خود انہیں ڈگری مکمل کرنے کی اجازت دی، مگر اب انہیں ویب سائٹ سے بلاک کردیا گیا ہے۔ کئی طلبا اب اہم سرکاری محکموں میں نوکری بھی کررہے ہیں، انہیں اپنی پرموشن کےلیے مزید تعلیم درکار ہے، مگر بلاک ہونے کی وجہ سے وہ داخلہ لینے کے اہل نہیں ہیں۔ اس حوالے سے اسلامیہ یونیورسٹی کے ترجمان سے رابطہ کیا تو انہوں نے موقف دینے سے انکار کردیا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ میڈیا اور طلبا کا پروپیگنڈا ہے۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی سابقہ طالبہ، جو بی ایس کرنے کے بعد اب ایک تعلیمی ادارے میں معلمہ ہیں، انہوں نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ میڈیا کی رسائی نہ ہونے کے باعث جامعہ میں جنسی ہراسگی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ مرد اساتذہ کئی طالبات کو ہراساں کرچکے ہیں۔ جن کی کئی بار انتظامیہ کو شکایت کی گئی لیکن اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ اگر کوئی طالبہ اپنے موقف پر ڈٹ جاتی ہے تو اسے یونیورسٹی سے خارج کردیا جاتا ہے۔ یہی نہیں اخراج کے بعد اسے مزید کسی پروگرام میں داخلہ لینے کی اجازت بھی نہیں ملتی۔ یونیورسٹی کے سائیکالوجی ڈپارٹمنٹ کی ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ دو سال قبل جامعہ میں پارکنگ کے مسئلے پر سیکیورٹی گارڈ نے ایک طالب علم کو تشدد کا نشانہ بنایا، جس پر انہوں نے احتجاج کیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے تحقیقات کے بجائے انہیں خارج کردیا اور تاحیات کسی بھی پروگرام میں داخلہ لینے سے محروم کردیا۔

فیضان احمد نے جامعہ سے 2018 میں بی ایس ایجوکیشن کی ڈگری مکمل کی اور اب وہ ایک سرکاری محکمے میں ملازم ہیں۔ فیضان کے مطابق انہیں یونیورسٹی میں دوران تعلیم تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انتظامیہ نے ان پر تشدد کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے انہیں ہی جامعہ سے بے دخل کردیا۔ فیضان کے مطابق وہ ایک غریب کسان کا بیٹا ہے، لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے اس کے کیریئر کو تباہ کردیا۔

طلبا کیا کہتے ہیں؟ یونیورسٹی انتظامیہ کے اقدامات قابل اعتراض سہی، لیکن اس سارے معاملے میں جنوبی پنجاب کے تین سو نوجوانوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ یہ 300 نوجوان نہیں بلکہ اس قوم کے 300 ہیرے ہیں، جنہیں بچپن سے لے کر جوانی تک خوب تراشا گیا، ان کی چمک میں اضافہ کیا گیا۔ اب جبکہ ان ہیروں کے ارض پاکستان کے تاج میں سجنے کا وقت ہوا چاہتا ہے، ریاست کو ان سے فائدہ حاصل کرنا تھا، یونیورسٹی نے ان کی روشنی کو مدھم کردیا۔ ان کے خوابوں کو چکنا چور کردیا۔

شیر شاہ سوری کے دیس میں جہاں پڑھے لکھے نوجوانوں کا کیریئر خراب ہورہا ہے، وہاں وسیم اکرم پلس سے کیسے توقع رکھی جائے کہ گلی میں کوڑے سے کھیلتے بچوں کو اوج ثریا پر پہنچا سکیں گے۔ اگر طلبا یونیورسٹی کےلیے ناپسندیدہ شخصیت تھے تو انہوں نے پہلی ڈگری کیسے مکمل کی؟ معافی اور جرمانے کی ادائیگی کے بعد طلبا کو مشروط داخلہ دینے کے بجائے انہیں تاحیات تعلیم سے محروم کرنا بہرحال کسی بھی صورت میں قابل دفاع فعل نہیں ہے۔ اگر طالب علم اپنے رویے کے باعث ناپسندیدہ شخصیت تھے تو انہیں سرکاری ملازمتیں کیسے دی گئیں؟

بعض طلبا ایسے بھی ہیں جنہیں یونیورسٹی نے کبھی ایکسپیل کیا، نہ ہی ڈراپ ہوئے اور نہ ہی انہوں نے کبھی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی۔ پھر ان پر تاحیات داخلے کی پابندی کیوں عائد کی گئی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب یونیورسٹی انتظامیہ سے بھی پوچھا گیا۔ ایچ ایس ای حکام کے سامنے رکھا، لیکن کسی نے تسلی بخش جواب نہیں دیا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب حکومت، جس کے ممبران یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے ممبر بھی ہیں، طلبا کا موقف سنیں۔ ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر یونیورسٹی کےلیے طلبا ناپسندیدہ شخصیت ہیں، یونیورسٹی کو ان سے کوئی مسئلہ بھی ہے تو ان پر تاحیات پابندی کے بجائے داخلے کے وقت طلبا سے تحریری معاہدہ کرلیا جائے۔

عثمان بزدار صاحب! آپ کو تو علم ہی ہے کہ ایک طالب علم کی تعلیم پر ریاست اور طالب علم کے کتنے وسائل خرچ ہوتے ہیں۔ حضور! ان وسائل کو بروئے کار لانے کےلیے کردار ادا کیجئے، نہ کہ وسائل کےلیے مسائل کھڑے کیے جائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید امجد حسین بخاری

سید امجد حسین بخاری

بلاگر میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ نجی ٹی وی چینل سے بطور سینئر ریسرچ آفیسر وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی موضوعات پر قلم اٹھانے کی سعی کرتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر Amjadhbokhari پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔