تعلیم یافتہ پرتشدد جتھے

محمد مشتاق ایم اے  اتوار 15 دسمبر 2019
وکلا نے پرتشدد ہجوم کی صورت پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر دھاوا بول دیا۔ (فوٹو: فائل)

وکلا نے پرتشدد ہجوم کی صورت پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر دھاوا بول دیا۔ (فوٹو: فائل)

ہمارا پیارا ملک پاکستان دنیا کے ان چند خوش قسمت ملکوں میں سے ایک ہے، جہاں ملک کی مجموعی آبادی کی اکثریت جوانوں پر مشتمل ہے۔ دنیا میں اس وقت ہمارا ملک اپنی آبادی میں جوانوں کی تعداد کی نسبت کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے۔ بلاشبہ یہ ایک نعمت خداوندی ہے، لیکن ہمارے ملک کو اس سے فائدہ صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب نوجوانوں کی اس بڑی تعداد کو ایسی مثبت سرگرمیوں میں مشغول رکھا جائے جو ملکی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے اسے ترقی کی ڈگر پر چلا سکیں۔

اور اگر خدانخواستہ ان نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی سرگرمیاں اختیار کرلے جن کا انجام ناکامی و مایوسی کے سوا کچھ نہ ہو، تو پھر نوجوانوں کا یہی اثاثہ خوش قسمتی کے بجائے بدقسمتی بن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ ایسی صورت میں نوجوانوں کے بپھرے ہوئے جذبات کے گھوڑوں کو لگام ڈالنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

ہم تو ان خوش قسمت لوگوں میں شامل ہیں جن کی جھولی میں پاکستان ایک نعمت خداوندی کی شکل میں آ گرا اور ہمیں اس کےلیے کچھ بھی نہیں کرنا پڑا۔ لیکن ہمیں اپنے بزرگوں سے اور کتابوں میں محفوظ حالات و واقعات سے پتہ چلا کہ اس وقت کے مسلمانوں نے آگ اور خون کے کتنے دریا عبور کیے۔ آج کل اسی سلسلے کی ایک کتاب ’’ہم نے پاکستان کیسے حاصل کیا؟‘‘ میرے زیر مطالعہ ہے۔ جس میں درج ایک ایک واقعے کو پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور خون انسان کی رگوں میں جمتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس میں مختلف لوگوں اور مختلف علاقوں کی سچی کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔ اس پوری کتاب میں مجھے جن واقعات نے خون کے آنسو رلایا وہ مسلمانوں پر سکھوں اور ہندوؤں کے جتھوں کے حملے ہیں۔ وہ واقعات تو بیان بھی نہیں کیے جاسکتے کہ کس قدر ظلم کا بازار گرم رہا۔ جوانوں پر مظالم کی الگ داستان اور پھر ہماری ماؤں، بہنوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھے گئے وہ ناقابل یقین حد تک دردناک ہیں۔

چند دن پہلے ٹی وی اسکرین پر وکلا کے ہجوم کی طرف سے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر دھاوا بولنے کی ویڈیوز دیکھ کر دل دہل گیا۔ ایسا لگا گویا ہم 2019 کے بجائے پیچھے 1947 میں چلے گئے ہیں اور گویا جن پر دھاوا بولا جارہا ہے وہ کسی اور قوم، ملک یا مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کو بس تہس نہس کردینا ہی ہمارا نصب العین ٹھہرا ہے۔

اسی طرح کے جتھوں نے 1947 میں مسلمانوں کے گھروں پر حملے کیے تھے اور جتنا نقصان وہ کرسکتے تھے، انہوں نے کیا۔ یہی حال میں نے ٹی وی اسکرین پر پڑھے لکھے جتھے کی طرف سے ہوتا دیکھا۔ صرف ایک لمحے کو سوچیے کہ حملہ کرنے والے کون ہیں؟ اس ملک کے پڑھے لکھے وکیل اور قانون کے محافظ۔ دوسری طرف جن پر حملہ کیا گیا وہ کون ہیں؟ اس ملک کے پڑھے لکھے ڈاکٹرز۔ اور جس عمارت پر حملہ کیا گیا وہ ایسا اسپتال ہے جہاں دل کے مریض اپنا علاج کراتے ہیں۔ دل کے زیادہ تر مریض ویسے ہی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔ جب وکیلوں کی طرف سے اسپتال پر دھاوا بولا گیا تو مریضوں کے لواحقین اپنے ساتھ اپنے پیاروں کی جانیں بچانے کی تگ و دو میں لگ گئے۔ اس سارے واقعے میں قیمتیں جانیں بھی ضائع ہوئیں اور املاک کو جو نقصان پہنچا، اس کا تخمینہ تو بعد میں بننے والی کمیٹیاں لگائیں گی۔

اب یہ اسپتال بند پڑا ہے۔ لاہور کی اہم عمارتوں پر رینجرز تعینات ہے اور ملک کے اہل درد اس سوچ میں ڈوبے ہیں کہ ہمیں ہو کیا گیا ہے اور ہم کس طرف جارہے ہیں اور کہاں جاکر رکیں گے؟ اور کبھی اپنے آپ کو سدھار بھی پائیں گے یا نہیں؟ اسپتال پر تو کوئی جنگ کے دوران بھی حملہ نہیں کرتا، تو ہم یہ کون سا کلچر پروان چڑھانا چاہتے ہیں؟

اس سارے واقعے میں وکیل اور ڈاکٹرز ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ مگر ہمارا مقصد یہاں کسی ایک گروپ کو سچا اور دوسرے کو جھوٹا یا کسی کی طرف داری کرنا بالکل بھی نہیں ہے۔ ظاہر ہے اس واقعے کی وجوہات ہوں گی تو یہ سب کچھ ہوا۔ مگر کیا معاملات کو حل کرنے کا یہ طریقہ کار ہے جو اپنایا گیا ہے؟ اور بے گناہ لوگ بھی اس میں اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ ہم اتنے پرتشدد کیوں ہوگئے ہیں کہ اپنے مخالف کو جان سے ہی مار دینے سے کم پر راضی نہیں ہیں یا ہماری رائے اور ہمارے نظریے سے اختلاف رکھنے والے کو ہم یہاں رہنے اور جینے کا حق تک دینے کو تیار نہیں ہیں؟

ہمارے ملک میں اس قسم کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ پہلے بھی اس سے ملتے جلتے واقعات ہماری مختصر سی تاریخ پر ایک سیاہ دھبے کی مانند موجود ہیں۔ یہاں بھی محض وکلا کے اس طرز عمل کی مذمت مقصود نہیں ہے، بلکہ مدعا یہ ہے کہ جب پڑھے لکھے طبقے کا یہ رویہ ہے تو عام غیر تعلیم یافتہ طبقے سے کوئی کیا گلہ کرسکتا ہے؟ یہاں رونما ہونے والے واقعات کی ایک طویل فہرست ہمیں بتاتی ہے کہ اپنے مطالبات کے پورا نہ ہونے کی صورت میں ہمارے پڑھے لکھے طبقات پرتشدد جتھوں کی صورت اختیار کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ اگر وہ ڈاکٹرز ہوں تو اسپتال بند کردیتے ہیں اور مریض جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اگر وکیل ہوں تو وہ عدالتوں کا بائیکاٹ کردیتے ہیں اور سالہا سال سے عدالتوں میں پیشیاں بھگتنے والے ایک اور مصیبت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کبھی استاد اسکول میں بچے کو کسی غلطی پر مار مار کر ادھ موا کردیتا ہے اور کبھی کسی دینی مدرسے سے ایسی بات سامنے آجاتی ہے کہ منہ چھپانا پڑتا ہے۔ الغرض جس کسی کے مفادات پر زد پڑتی ہے، وہی انسان سے درندے کا روپ دھار لیتا ہے اور اپنے مخالف کو چیر پھاڑ کر ختم کرنے سے کم پر راضی نظر نہیں آتا۔

اب شنید یہ بھی ہے کہ حکومت کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبا تنظیموں پر لگائی گئی پابندی کو اٹھانے پر غور کررہی ہے، بلکہ یہ فیصلہ تقریباً ہوچکا ہے۔ اس کے حق میں دلیل دی جارہی ہے کہ طلبا تنظیموں سے مستقبل کے لیڈر تیار ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں طلبا تنظیمیں ملک کی سیاست کی نرسریاں ہوں گی۔ یہ سب باتیں بجا ہوں گی، مگر یہاں ہمارے ملک میں ابھی تک کے پنپنے والے کلچر میں ایسا سوچنے سے بہتر ہے کہ کوے کو سفید کہہ دیا جائے یا سورج کی روشنی کو کم سمجھ کر اس کے سامنے ایک دیا جلادیا جائے۔ ایسے خواب کی تعبیر کو پانے کےلیے طلبا کی تربیت کو ایسی سطح پر لایا جانا ضروری ہے جہاں وہ اپنی ان ذمے داریوں کو سمجھ سکیں اور پھر جاکر مستقبل کے لیڈر بنیں۔ موجودہ صورتحال میں طلبا تنظیموں کو فعال کرنے کا واحد مقصد ملک میں پہلے سے موجود تعلیم یافتہ پرتشدد جتھوں میں مزید اضافہ کرنا ہے۔

بلاشبہ وزیراعظم صاحب نے کہا ہے کہ طلبا تنظیموں کےلیے ایک کوڈ آف کنڈکٹ بنایا جائے گا، جس پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے گا۔ مگر اس بات کو ایک دیوانے کی بڑ سے زیادہ کیا کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے بھی تو ملک میں ہر کام کےلیے کوڈ آف کنڈکٹ بنے ہوئے ہیں۔ ہر کام کےلیے ایک قانون موجود ہے، لیکن کیا ان پر ان کی روح کے مطابق عمل ہورہا ہے؟

کیا وکلا نے جو دھاوا اسپتال پر بولا ہے اس کی اجازت ملک کا کوئی بھی قانون دیتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ تو پھر آپ کو کیسے یہ یقین ہے کہ طلبا تنظیموں کےلیے جو کوڈ آف کنڈکٹ آپ بنائیں گے، اس سے تعلیمی اداروں میں دودھ کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی۔ دراصل مسئلہ قانون بنانا نہیں اس پر عمل کرانا ہے اور حکومتی اداروں کی رٹ قائم کرنا ہے، جو بدقسمتی سے کسی بھی دور حکومت میں نظر نہیں آئی۔

13 دسمبر 2019 بروز جمعہ، صبح آٹھ بجے کے نیوز بلیٹن میں خبر سنی کہ اسلام آباد کی یونیورسٹی میں طلبا کے دو گروپوں میں تصادم کے نتیجے میں دو طلبا جان سے گئے اور یونیورسٹی بند رہے گی۔ خدارا تعلیمی اداروں کو صرف تعلیمی سرگرمیوں کےلیے مختص رکھیں اور انہیں سیاسی جماعتوں کا اکھاڑہ نہ بنائیں۔ تعلیمی اداروں میں طلبا یونینز کے قیام سے پہلے ہمیں بہت سے اصول و ضوابط نہ صرف سیکھنے ہوں گے، بلکہ ان پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔ اگر ہم نے محض اپنی سیاسی جماعتوں کو تقویت پہنچانے کےلیے یہ اقدام اٹھایا تو پھر گلی محلوں کے علاوہ تعلیمی اداروں میں بھی ’’جس کی لاٹھی، اس کی بھینس‘‘ والا ہی قانون چلے گا۔ جو کسی کے فائدے میں ہو یا نہ ہو، ملک کےلیے نقصان دہ ہوگا۔

ان حالات و واقعات کی روشنی میں ہم عوام، حکومت وقت اور مقتدر اداروں سے ایک امید باندھنے کی صرف جسارت ہی کرسکتے ہیں کہ ہم پر رحم کریں اور ملک میں موجود ان پرتشدد جتھوں کی بیخ کنی کےلیے حقیقی معنوں میں کوئی ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ اس کےلیے نیک نیتی سے سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کر بلاتمیز و تفریق قانون کی عملداری کو یقینی بنانا ہوگا۔ قانون کی خلاف ورزی چاہے انفرادی طور پر ہو یا کسی جتھے کی شکل میں، اس کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے اور ان کی بلیک میلنگ میں ہرگز نہ آیا جائے۔ حق دار کو اس کا حق فوری انصاف کی صورت میں باعزت طریقے سے فراہم کرنا ہی ایک فلاحی ریاست کا کام ہے۔ موجودہ حکومت تو ویسے بھی ملک کو ریاست مدینہ کی طرح بنانے اور چلانے پر یقین رکھتی ہے۔ تو پھر دیر کس بات کی؟ آئیے! بسم اللہ کیجیے۔ اس ملک کے عوام آپ کے ساتھ ہوں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد مشتاق ایم اے

محمد مشتاق ایم اے

بلاگر ایک کالم نگار، سیاسی، سماجی اور کاروباری تجزیہ کار ہیں۔ سیاست، مذہب، تعلیم اور دوسرے سماجی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان ہی پر زیادہ لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر آئی ڈی @MMushtaq28 پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔