- پختونخوا کابینہ؛ ایک ارب 15 کروڑ روپے کا عید پیکیج منظور
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- وزیر اعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو کر دی
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
برطانیہ میں جمہوریت کا انتخابی حسن
برطانیہ اورجمہوریت لازم وملزوم ہیں۔ حالیہ عام انتخابات میں موجودہ وزیراعظم بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی نے اپنی تاریخی فتح پرآیندہ ماہ جنوری میں بریگزٹ کا وعدہ کر دیا ہے۔ تمام مسائل کا حل جمہوری نظام میں موجود ہوتا ہے ۔ برطانیہ کے عوامی نمایندوں کو بار بار بریگزٹ (یعنی برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی)کے مسئلے پر عوام کی عدالت میں جانا پڑا اور وہ اس میں سرخرو ہوئے ہیں۔ اپنی جماعت کی جیت پر وزیر اعظم بورس جانسن کا کہنا تھا کہ ’’ ان نتائج سے انھیں بریگزٹ کے لیے مینڈیٹ مل گیا ہے۔
ہم نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔ یہ اس ملک کے لیے ایک نئی صبح ہے‘‘ جب کہ دوسری جانب حزب اختلاف کی مرکزی جماعت لیبر پارٹی کی کارکردگی اس الیکشن میں مایوس کن رہی ہے اور یہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جماعت کی الیکشن میں بدترین کارکردگی ہے۔ ان انتخابات کی دلچسپ بات یہ ہے کہ 15 پاکستانی نژاد برطانوی بھی اپنی نشستوں پرکامیاب ہوئے ہیں۔ انتخابات میں ایک سو سے زیادہ پاکستانی امیدواروں نے حصہ لیا تھا، جن میں سے 20 ٹوری اور 19 لیبر پارٹی سے تعلق رکھتے تھے جب کہ بعض آزادانہ حیثیت میں بھی کھڑے ہوئے تھے۔
پاکستانی امیدواروں کی کامیابی سے ثابت ہوتا ہے کہ بلاتفریق رنگ ونسل ہرایک کو مساوات کی بنیاد پر جمہوری نظام میں حق نمایندگی دیا جاتا ہے۔ الیکشن کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی برطانوی پاؤنڈکی قدر میں 2.7 فیصد اضافہ ہوجانا ، ایک پاؤنڈ کی موجودہ قدر 1.35 ڈالر کے برابرہونا، یورو کے مقابلے میں پاؤنڈ کی قدر ساڑھے تین سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ جانا، اس امر پر دلیل ہیں کہ برطانوی جمہوری نظام کو دنیا مانتی ہے۔ ویسے بھی دنیا بھرکے پارلیمانی نظام حکومت وجمہوریت میں برطانیہ کو ماں کا درجہ حاصل ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’’برطانیہ اور امریکا اب بریگزٹ کے بعد نئے تجارتی معاہدے کے لیے آزاد ہیں۔
اس معاہدے میں یورپی یونین سے کسی بھی معاہدے کے مقابلے میں کہیں بڑے اور زیادہ منافع بخش ہونے کا امکان ہے‘‘ ان تیسرے انتخابات کے نتائج کو دیکھا جائے تو برطانیہ میں کسی بھی قسم کا آئینی بحران پیدا نہیں ہوا۔ الزامات کی سیاست سے پرہیز کیا گیا۔ پر امن انداز میں ووٹنگ ہوئی،کوئی پرتشدد واقعہ رونما نہیں ہوا،سارا جمہوری عمل جاری وساری رہا اور عوام کی رائے کا احترام کیا گیا، یہی جمہوریت کا بہترین حسن ہے، جو ہمیں برطانیہ میں نظرآیا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔