سوئٹزر لینڈ: پاکستان کو اکاؤنٹس تفصیلات دینے کی منظوری

ایڈیٹوریل  جمعـء 13 دسمبر 2019
 سویٹرز لینڈ کو 24لاکھ سوئس شہریوں کی معلومات حاصل ہوئی تھیں۔ فوٹو:فائل

سویٹرز لینڈ کو 24لاکھ سوئس شہریوں کی معلومات حاصل ہوئی تھیں۔ فوٹو:فائل

سوئٹزرلینڈ کی پارلیمنٹ نے پاکستان سمیت مزید 18ملکوں سے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات شیئر کرنے کی اجازت دے دی، تاہم اس سہولت سے نئے ممالک 2021سے فائدہ اٹھا سکیںگے، غیر ملکی میڈیا ذرایع کے مطابق سوئس بینک کے مطابق شام کو اس کی کارروائی کے پیش نظر اس عمل میں شامل نہیںکیا گیا ہے،اس حوالہ سے البتہ ترکی کا جائزہ لیاجارہا ہے، سوئیٹزرلینڈ نے 2018میں پاکستان کو سوئس بینک اکاؤنٹس تک رسائی اور کرپشن کے خاتمہ کے لیے تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔

پاکستان کے مالیاتی اور معاشی ذرایع نے اسے ایک اہم بریک تھرو قراردیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اب حکمرانوں کے پاس اس بات کا کوئی عذر لنگ نہیں ہوگا کہ بیرون ملک سے لوٹی گئی رقوم واپس لانے میں مختلف سطح پر مشکلات اورقانونی رکاوٹوں کا سامنا ہے اس لیے احتساب کے عمل میں متعدد بار تعطل پیدا ہوتارہا۔

واضح رہے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے گزشتہ دنوں ایک بیان میں کہا تھا کہ غیرملکی بینکوں سے رقوم واپس نہیں لائی جاسکتیں۔ سوئس بینک اکاؤنٹس کی حیثیت عرصہ دراز سے دیومالائی بن گئی تھی، پہلی بار 10مئی کو سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے فلور پر یہ انکشاف کیا تھا کہ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں نے 200ارب ڈالر غیرقانونی طریقے سے چھپائے ہیں۔

اپنے تحریری بیان میںڈارنے کہا تھا کہ حکومت پاکستان سوئس حکومت سے اس ضمن میں رابطہ میں ہے۔ میڈیا کے مطابق اس وقت پی ٹی آئی کے وزیر عارف علوی نے ایک سوئس  بینکر اور سابق وزیر مشلین کالمے رے کے حوالہ سے انکشاف کیا کہ ان کے بقول صرف ان کے بینک میں79   ارب ڈالر جمع ہیں جب کہ ڈار کا موقف تھا کہ 200 ارب ڈالر چھپائی گئی رقم کی کبھی کسی ذرایع نے تردید نہیں کی ۔ سابق وزیر خزانہ ڈار کے مطابق200ارب ڈالر کی بازیابی کے لیے سوئس حکومت نے restitution of assets act 2010کے تحت حکومت پاکستان سے اطلاعات کے تبادلے کی اجازت بھی دی جاسکتی تھی۔

تاہم اس سلسلے میں مزید پیش رفت نہ ہوسکی ۔لیکن پی ٹی آئی حکومت نے ملک سے کرپشن کے خاتمہ اور شفاف و بلاامتیاز احتساب ایجنڈے کے تحت بار بار قوم کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان سے لوٹی گئی اربوں کی  رقوم بہت جلد پاکستان واپس لائی جائیں گی اور عوام کے معاشی مسائل اس سے حل ہوجائیں گے۔

سوئس میڈیا کے مطابق جن ملکوں کو تفصیلات کی شیئرنگ سے فائدہ ہوگا ان میں پاکستان، عمان، آذر بائی جان، قازقستان، لبنان، برونائی، اور پیرو سمیت 18ملک شال ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کے ایوان نمایندگان اور سینیٹ نے گزشتہ دنوں بینک اکاؤنٹس کے خود کار طریقے سے شیئرنگ کی منظور دی، اس طرح سوئس حکومت ان ملکوں میں اپنے شہریوں کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی حاصل کرسکے گی۔ حال ہی میں سوئس حکام نے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ اس معاہدہ میں پہلے سے شامل 75ملکوں سے31لاکھ بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات شیئر کی گئی تھیں، جس کے جواب میں سویٹرز لینڈ کو 24لاکھ سوئس شہریوں کی معلومات حاصل ہوئی تھیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ حکومت احتسابی عمل میں حائل داخلی اور بیرونی دشواریوں کا سوئس حکومت کے اقدام کی روشنی میںجائزہ لے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے قومی خزانے اور ملکی معیشت اور جمہوری سسٹم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے، ان کے خلاف غیر جانبدارانہ  تحقیقات ،تفتیش اور احتساب کا فالٹ فری میکنزم وضع ہونا چاہیے، اس شکایت کا بھی ازالہ ناگزیر ہے جو احتسابی عمل کے حوالہ سے اپوزیشن کی طرف سے آئی ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ احتساب کی توپوں کا رخ صرف دو سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے خلاف ہے۔

ان شکوک وشبہات اور افواہوں کا سدباب ہونا چاہیے جو عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات اور ان میں شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر الزام ثابت ہوئے بغیر سیاست دانوں کو جیلوں میں بند رکھے جانے سے متعلق ہیں۔بلاشبہ احتساب ہر اعتبار سے شفاف ہوگا تو حکومت کو دوسرے کاموں پر توجہ دینے کا کافی وقت مل جائے گا، اور سیاسی درجہ حرارت میں بھی کمی آئیگی، مشاہدہ میںآیا ہے کہ پراسیکیوشن، ٹھوس تفتیش اور شواہد کی فراہمی میں تاخیر سے کیسز کی سماعت پر سیاسی ماحول بھی تناؤ کا شکار ہے۔

لہٰذا حکومت احتساب عمل کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے اقدامات کرے، اسے چند بنیادی اہداف طے کرنا ہوں گے ،ان میںسب سے اہم ہدف غیرملکی بینکوں میں پاکستانیوں کی غیر قانونی اور لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے لیے قانونی چینلز کے کھلنے اور سوئس حکام کی طرف سے یقین دہانی کا پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے، عوام احتساب اور لوٹی گئی دولت کے اس شیئر سے ریلیف کے کیک کا ’’ٹکڑا‘‘ مانگتے ہیں۔ حکومت نے اقتصادی مشیر اور معاونین خصوصی کے ذمے جو اہم ٹاسک ہیں اور انھیں ریکوری بھی جلد کرنی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔