ناامیدی‘ امید کے درمیان

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 13 دسمبر 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

جب سے اشرافیہ کے ہاتھوں سے اقتدار نکل گیا ہے، اشرافیہ کی فرسٹریشن اور مایوسی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ابتدا میں اشرافیہ سخت خوفزدہ رہی ، اس کے بعد کچھ سنبھالا لیا بڑھ بڑھ کر حکومت پر حملے کرتی رہی پھر بوجوہ بے عملی کا شکار رہی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ شریف برادران ملک سے باہر ’’ علاج ‘‘ کے لیے چلے گئے ہیں ان کے کچھ حمایتی اخباری بیانات اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے پارٹی کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میاں صاحب نے بڑی کاوشوں سے اپنی بیٹی مریم نوازکو ولی عہد بنانے کی کوشش کی کچھ عرصہ مریم نواز غیر معمولی طور پر سرگرم رہیں لیکن ایسا لگتا ہے باپ اور چچا کی ہجرت کے بعد وہ بھی خاموش ہیں۔ محترمہ نے بھی ملک سے باہر کچھ عرصہ گزارنے کے لیے عدلیہ سے رجوع کیا ہے۔

امید ہے کہ مریم کو اجازت مل جائے تو وہ وقت ضایع کیے بغیر اپنے بزرگوں کے قافلے سے لندن میں جا ملیں گی اور امکان یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ قافلہ لمبے عرصے تک لندن میں قیام پذیر رہے گا اور دونوں جگہ مصاحبین پارٹی کا نام زندہ رکھنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ بڑے میاں صاحب کی بیماری اب تک پیچیدہ صورت اختیار کیے ہوئے ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق میاں صاحب کو علاج کے لیے ایک بار پھر امریکا بھیجنے کی تیاری ہو رہی ہے۔

ادھر دوسری بڑی اپوزیشن یعنی پیپلز پارٹی کا حال برا ہے ، پنجاب اور دوسرے صوبوں میں کہا جاتا ہے کہ پارٹی کا شیرازہ بکھر چکا ہے ، البتہ سندھ میں زبان اور قومیت کے حوالے سے ابھی تک سروائیو کر رہی ہے لیکن اگر مسلم لیگ (ن) غیر فعال ہوجاتی ہے تو اکیلی پی پی پی کے لیے اپنے آپ کو زندہ رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ جیلوں کے لمبے لمبے چلے کاٹنے والے حضرت زرداری جیل میں بڑی حد تک خاموشی کی زندگی گزارتے رہے ہیں،اب وہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہا ہوگئے ہیں البتہ حضرت بلاول عمران خان پر سلیکٹڈ کے الزامی بیانات کے ساتھ اپنی سیاسی زندگی کی گاڑی کھینچ رہے ہیں ، اللہ اللہ خیر صلا۔

کچھ گلزار ٹائپ کی جماعتیں بڑے بابوؤں کے ساتھ ان کی تقریروں اور پریس کانفرنسوں کے دوران کھڑی نظر آتی ہیں لیکن چونکہ یہ گلزاری جماعتوں کے پاس نفری نہیں ہے لہٰذا ان کا عدم اور وجود برابر ہے۔ باقی میدان سیاست بیان بازیوں سے سرسبزوشاداب ہے ، البتہ ایک امید  مولانا فضل الرحمن سے وابستہ تھی، انھوں نے اپنے کارکنوں کو جمع کرکے ایک امید پیدا کی تھی لیکن اکیلا چنا بھلا کیا بھاڑ پھوڑ سکتا ہے۔ مولانا اپنی سی کوششوں اور حق رفاقت ادا کرنے کے بعد سیاسی مراقبے میں چلے گئے ہیں۔

اس کشمکش کا اصل کاز یہ ہے کہ سابق حکمران جماعتیں اس سائیکی سے باہر نہیں نکل سکیں کہ اقتدار ان کی میراث ہے۔ اس سائیکی کی وجہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے 72 سال تک یہی اشرافیائی جماعتیں اقتدار اور سیاست پر براجمان رہیں۔اس 72سالہ طویل اقتداری عرصے نے ان کی سائیکی ہی بدل دی ہے۔

بھارت ہمارے ساتھ آزاد ہوا، کشمیر کے حوالے سے بھارت پاکستان کی تنقید کی زد میں رہتا ہے اگر کشمیر کو بھارت پاکستان سے تعلقات کی قیمت پر اہمیت دینا بند کرے اور مسئلہ کشمیر جو کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل کرنے پر آمادہ ہوجائے تو اس خطے کا نقشہ ہی بدل سکتا ہے۔ بدقسمتی سے بھارتی حکمران طبقہ ابتدا ہی سے کشمیر ایشو پر تنگ نظری اور متعصبانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ بھارت اس حقیقت کو بھول گیا ہے کہ قوموں کی زندگی سیکڑوں سال پر مبنی ہوتی ہے اور اس طویل عرصے میں دنیا بدل جاتی ہے۔

آج ہم جس سماجی اور سیاسی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں ،کل آنے والا جدید دور ان رشتوں کو بدل سکتا ہے پھر یہ دشمنیوں نفرتوں کی پالیسی کا کیا ہوگا۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت کا حکمران طبقہ ہندو بن کر سوچنے کے بجائے انسان اور انسان کی اولاد بن کر سوچے توکشمیر جیسا گمبھیر مسئلہ حل کرنے میں اسے مشکلات پیش نہیں آئیں گی۔

بھارت اور پاکستان کا تعلق پسماندہ ملکوں سے ہے جہاں کے کروڑوں انسان آج بھی نان جویں کو محتاج ہیں۔ ایسے پسماندہ ملکوں میں بجٹ کا ایک بڑا حصہ اگر دفاع پر خرچ کرنے کا رواج مضبوط ہو تو پسماندگی دور کرنے کے سارے امکانات ختم ہوکر رہ جاتے ہیں۔

پاکستان چونکہ بھارت کے مقابلے میں ایک کمزور ملک ہے لہٰذا وہ اپنی درست بات بھی دباؤ کے ساتھ بھارت کو نہیں بتا سکتا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت پاکستان کی کوئی معقول بات بھی سننے کے لیے تیار نہیں جس کا نتیجہ دونوں ملک ایک دوسرے کے سامنے تلواریں سونتے کھڑے ہیں۔ اگر صرف ایک کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے تو نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان عوامی سطح پر محبت اور بھائی چارے کا کلچر تیزی سے فروغ پائے گا اور دونوں ملکوں کی خارجہ پالیسی کی بنیادیں ہی بدل جائیں گی۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بھارت میں عوامی جمہوریت کارفرما ہے اور پاکستان 72 سالوں سے ابھی تک اشرافیائی جمہوریت ہی سے گزر رہا ہے دونوں ملکوں کے درمیان یہ سیاسی تفاوت بھی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی خرابی کی ایک وجہ بنا ہوا ہے۔ بھارت کے ترقی پسندوں کی ذمے داری ہے کہ وہ بھارت کو پاکستان کے حوالے سے اپنی پالیسی بدلنے پر مجبورکریں جس کا فائدہ پورے خطے کو ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔