سندھ حکومت اور پولیس آمنے سامنے

عبدالرحمان منگریو  اتوار 15 دسمبر 2019

پاکستان میں اختیارات کی تفویض ایک ایسا معاملہ ہے جو 72سال گذرجانے کے باوجود بھی غیر تصفیہ ہے ۔ پہلے ہر چھ ماہ بعد اور اب تو روزانہ کی بنیاد پر اختیارات کے نام پر قانون کو ایسے پُرپیچ راستے پر سفر کرنے پر مجبور کیا ہوا ہے ، جس کے چپے چپے پر رکاوٹیں ہیں ۔ جو اس کی رفتار کو کنٹرول کرنے کے لیے ہیں ۔

حالانکہ ملک میں ایسے قابل قانون دان موجود رہے ہیں جو 1973جیسا آئین اور اُس میں 25کے قریب ترامیم کرچکے ہیں مگر پھر بھی ملک میں قانون اور اُس کی فعالیت اگر ناکام ہے تو اس کے پیچھے کوئی قانون سازی کی نااہلی نہیں بلکہ یہاں پائی جانیوالی ارضی ، اراضی و خلائی مخلوق ہے جو کسی بھی قانون کی عمل پیرائی کو تیار نہیں ۔ دستاویزی سطح پر قوانین بنتے ہیں اور ہر بار کامیاب قانون سازی کے تمغے سینے پر سجائے جاتے ہیں ۔

کوئی آرڈیننس کا چیمپئن بن کر سامنے آتا ہے تو کوئی 18ویں، 19ویں وغیرہ پر ٹرافیوں کا حقدار بن جاتا ہے لیکن اصل مسئلہ اُنہی قوانین کے رائج ہونے کا رہا ہے ۔ اسمبلیوں میں قانون سازی کرنے والے اور عملی طور پر قانون نافذ کرنے والے اکثر و بیشتر اگر ایک پیج پر نظر نہیں آتے تو اس کے پیچھے بھی یہی اختیارات کی جنگ ہے جو اس ملک کے قیام سے ہی طاقتور بیوروکریسی اور کمزور و موقع پرست سیاسی حکومتوں کے مابین جاری ہے ۔ جس کا داؤ لگتا ہے وہ دوسرے پر غالب آجاتا ہے ۔

علم سیاسیات کی رو سے تو یہ دونوں ہی گروہ عوام کے نوکر ہیں ۔ ایک اگر تنخواہ دار پکا ملازم ہے تو دوسرا پانچ سالہ کنٹریکٹ اور وظیفہ حاصل کرنے والا خادم ہے ۔ لیکن یہاں دونوں ہی قوتیں خود کو اس ملک کا مالک تصور کرتی ہیں ۔ کوئی آئین کو لہرا لہرا کر اس پر اجارہ داری جتاتا ہے تو کوئی اُسی آئین کو مروڑ کر ماسٹر بن جاتا ہے ۔ جب کہ اس ملک کے اصل مالک عوام بے چارے تماشائی اور غلام رعایہ بن کر رہ گئے ہیں ۔ ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باوجود نہ یہاں اب جمہوریت کی تشریح کے مطابق ’’اصل طاقت عوام رہے ہیں ‘‘ اور نہ ہی اسلام کی روح کے مطابق عوام ’’مخدوم‘‘ رہے ہیں ۔

عوام اس ملک میں صرف جائز و ناجائز محصول اور بے ضمیر ووٹ دینے والے اور نادیدہ زنجیروں میں جکڑے غلام بن کر رہ گئے ہیں ۔ انھیں اگر کوئی اختیار یا آزادی ہے تو ’’واہ واہ ‘‘ اور ’’ جئے جئے ‘‘ کرنے کی ۔ اس کے آگے ان کا کردار اس ملک میں نہیں ہے ۔ ملک بھر کی اس مجموعی صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے صوبہ سندھ میں سندھ حکومت اور سندھ پولیس کے درمیان اُبھرنے والے تازہ تضاد کی بات کرتے ہیں، جس کے باعث صوبہ ایک بار پھر اختیارات کی کُشتی کا اکھاڑہ بن چکا ہے۔

گذشتہ ماہ سندھ پولیس کی جانب سے ڈرامائی انداز میں گرفتار کیے گئے دہشت گرد یوسف ٹھیلے والا کے وزیر اعلیٰ سندھ کے خلاف بیان دلانے کی سازش سے شروع ہونے والا سندھ پولیس اور سندھ حکومت کا یہ ٹکراؤ بروقت نوٹس لینے ، جانچ پڑتال اورملوث ایس ایس پی کو ہٹانے جیسی تدارکی کارروائی سے اُس وقت تو ٹل گیا لیکن درحقیقت وہیں سے اس سرد جنگ کا آغاز ہوا جو کہ ایس ایس پی شکار پور کے تبادلے سے کھل کر سامنے اُس وقت آیا جب چیف سیکریٹری سندھ نے وفاق کو ایس ایس پی رضوان احمد کو واپس اپنے پاس بلانے کی سفارش کی اور آئی جی نے کھل کر سامنے آتے ہوئے ایس ایس پی رضوان احمد کو چارج نہ چھوڑنے کا حکم دیا ۔

میڈیا کی رپورٹس کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے آئی جی سندھ پولیس کلیم امام کو کہا ہے کہ’’ آپ گھبرائیں نہیں ،آپ وزیر اعلیٰ سندھ کے ماتحت نہیں ہیں ‘‘۔ وزیر اعظم کا اس طرح کھل کر کسی صوبائی منتخب حکومت اور صوبائی ایگزیکٹو اتھارٹی کے خلاف بیانات اور بیوروکریسی کو شہہ دینا کسی طور درست نہیں ہوسکتا، خاص طور پر سندھ کے معاملے میں احتیاط اور سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ اس طرح کا رویہ سندھ کے عوام میں صوبائی جغرافیائی ، ڈیمو گرافی اور مالی اُمور پر پہلے سے موجود مایوسی و غصے کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔ پھر عوام میں یہ تاثربھی پیدا ہوگا کہ اگر سندھ پولیس، آئی جی صاحب کے توسط سے وفاق کے ماتحت ہے یا سندھ پولیس مکمل طور پر خودمختار ہے تو پھر سندھ کے اساتذہ ، نرسز ، پیرا میڈیکل اسٹاف اور دیگر عوامی حلقوں کے احتجاج پر کیے گئے تشدد کی ذمے دار بھی سندھ حکومت نہیں بلکہ سندھ پولیس اور وفاق کو قرار دینا چاہیے ۔

یہاں ایک طرف تو فریقین کے مابین اختیارات کی جنگ تھی لیکن دوسری طرف عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر ہمارے صوبہ میں ہوکیا رہا ہے ؟ اس صوبہ کی ایگزیکٹو اتھارٹی کون ہے؟ سندھ اسمبلی اور سندھ کی صوبائی حکومت کی حیثیت کیا ہے ؟ اور کیوں ایسے تضادات بار بار صرف ہمارے صوبہ میں ہی پیدا کیے جاتے ہیں ؟ کیا یہ محض اس لیے ہورہا ہے کہ ملک بھر میں سندھ ہی ایسا صوبہ ہے جہاں پی ٹی آئی مخالف حکومت ہے ؟

وزیر اعلیٰ سندھ کی سربراہی میں ہونے والی صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن کی اہم ترین میٹنگ میں ایک پولیس افسر نے شرکت نہ کرکے اسلام آباد میں وزیر اعظم کی سربراہی میں سندھ کے پی ٹی آئی ارکان اور دیگر جماعتوں کے ساتھ سندھ حکومت کے خلاف ہونیوالے ایک سیاسی اجلاس میں خصوصی شرکت نے حکومت ِ سندھ کے ضبط کے سارے بند بھی توڑدیے۔ یوں 2سال قبل اُس وقت کے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سے سندھ حکومت کے تکرار کی طرح ایک بار پھر سندھ حکومت اور سندھ پولیس اختیارات کے نام پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں۔

2017میں بھی سندھ حکومت اور سندھ پولیس کے مابین افسران کے تبادلے اور تقرریوں پر تنازعہ پیدا ہوا، جوپی پی پی کی جانب سے اپنا ہی قائم کردہ 2011کا پولیس ایکٹ ختم کرکے مشرف کے دور کا 2002کا پولیس آرڈر تھوڑی سی ترمیم کے بعد لاگو کیا ۔ جس پر تنازعہ بڑھتا ہی گیا اور اُس کے وقت کے آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے اُس ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کردیا ۔

عدالت نے مشرف کاپولیس آرڈر 2002 ختم کرکے 2011کے ایکٹ کو آئینی قرار دیا اور پولیس میں صوبائی حکومت اور اُس کے وزراء کی مداخلت کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو قانون سازی کا اختیار دیا ۔ اس فیصلے کے تحت آئی جی سندھ کو وزیر اعلیٰ سندھ سے زیادہ اختیارات حاصل ہوگئے اور وہ صوبائی اختیاری سے نکل کر براہ راست وفاقی اختیاری کے ماتحت ہوگیا ، جب کہ پولیس کی کمانڈمکمل طور پر آئی جی کے کنٹرول میں آگئی اور افسران کی تقرری و تبادلے بھی آئی جی کا استحقاق بن گیا ۔

پھر آئی جی کی تقرری کی مدت پربھی تنازعہ پیدا ہوا جو کہ 1986کے رولز آف بزنس میں 5سال تھی ، جب کہ عدالتی فیصلہ کے تحت مشہور ِ زمانہ انیتا تراب کیس میں آئی جی کی تقرری کی مدت 3سال تھی۔ عدالت نے آئی جی کو اپنی ٹیم کے تعاون سے افسران کی تقرری اور تبادلوں سے متعلق ایک ماہ میں نئے رولز کا مسودہ تیار کرنے کا پابند کیا اور کابینہ کو 15یوم کے اندر مسودہ کی منظوری دینے کا پابند کیا ۔ آئی جی کو کابینہ اجلاس میں شرکت کرنے کی اجازت دی اور کابینہ کی جانب سے رولز میں تبدیلی کی صورت میں آئی جی کو دوبارہ رولز بنانے کا بھی حکم صادر کیا اور ساتھ ہی سندھ حکومت کی جانب سے جائزہ نہ لینے کی صورت میں ہائی کورٹ نے خود کو جائزہ لینے کا مجاز قرار دیا ۔

آگے چل کر عدالتی حکم کی روشنی میں حکومت ِ سندھ نے ملک بھر کی طرح 2002کے پولیس آرڈر کے بنیادی ڈھانچے میںمئی 2019 میں مزید ترامیم کر کے صوبہ میں لاگو کرنے کے لیے گورنر سندھ کو بھیج دیا ۔ گورنر کے کچھ اعتراضات کے مطابق دوبارہ ترامیم کرکے اسمبلی سے پاس کروایا اور پولیس پبلک سیفٹی کمیشن قائم کرکے اختیارات میں توازن قائم کرنے کی کوشش کی جس سے آرڈر کے اختیارات نہ سہی پر آرڈر کے لیے سفارشات کے اختیارات صوبائی حکومت کو میسر آگئے ۔ جس میںکمیشن کے توسط سے سندھ حکومت آئی جی، ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیزکی تقرری کی مدت کا تعین اور خدمات وفاق کے سپرد کرنے کی سفارشات کرسکے گی ۔ آئی جی ، ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز کے لیے 3نام وزیر اعلیٰ سندھ کو دیں گے جن میں سے وزیر اعلیٰ ایک کو منتخب کریں گے ، ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز کا تبادلہ صوبائی حکومت کا استحقاق ہوگا۔

ڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی کمیشن بھی ترتیب دیے گئے جنھیں سول کورٹ کے برابر اختیارات دیے گئے ہیں ۔ جب کہ پہلی بار ڈی ایس پیز رینک پر بھی براہ راست سندھ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتیاں کرنے کی منظوری دی گئی ۔ اس طرح پولیس کو ہنگامی بنیادوں پر کہیں بھی کوئی بھی روڈ یا عوامی مقامات بند کرنے کے اختیار دیے گئے ،پولیس بلا وارنٹ کسی بھی جگہ اور دکان پر چھاپہ مارسکے گی ۔منشیات کے خلاف اعلیٰ اختیاریوں کوبلا بتائے کارروائی کرنے کے اختیارات بھی حاصل ہوگئے ہیں ۔ اس دن سے سندھ پولیس قانونی طور پر ایک خودمختار ادارہ بن گیا ، جس کے تمام تر اختیارات اور کمانڈ آئی جی کے پاس ہے ۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ 2017میں عدالت کے آئی جی کے حق میں دیے گئے فیصلے کے بعد 2، ڈھائی سالوں میں سندھ پولیس کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے ؟ کیا پولیس پر سیاسی اثر رسوخ ختم ہوا ہے ؟

پولیس کی جانب سے ماورائے عدالت قتل ، فل فرائی اور ہاف فرائی جیسی سنگین اصطلاحات کی حامل سفاک کارروائیاں یہ سب پولیس کے اختیارات کے تجاوز کی داستان کے سیاہ اوراق ہیں ۔ نقیب اللہ محسود اور سید ضامن شاہ سے میر مرتضی بھٹو جیسے کئی شہیدوں کا خون بھی پولیس افسر کے سر ہے ۔ جب کہ دونوں ٹانگوں سے معذور کیا گیا ڈاکٹر دیپک بھی پولیس کی دہشت گردی کی زندہ مثال ہے ، جسے حال ہی میں عدالتی کارروائی کے بعد ایس ایس پی عرفان بلوچ سے بھاری جرمانہ دلوایا گیا ہے ۔ جب کہ رشوت ، چوری کا مال ہضم کرنا اور جرائم پیشہ افراد سے یارانے بھی اِسی پولیس کا وطیرہ رہا ہے ۔ اور عملی طور پر محکمے کی یہ حالت ہے کہ گٹکے اور مین پڑی جیسی چھوٹی منشیات بھی یہ بااختیار قوت بند نہیں کراسکی ہے ۔ صوبہ میں اغوا برائے تاوان ایک کاروباری انڈسٹری کی حیثیت اختیار کرگیا ہے ۔ جس پر نہ تو پولیس کنٹرول کر پائی ہے اور نہ ہی صوبہ میں حکومت سندھ کے اخراجات پر 30سال سے موجود دیگر فورسز ہی قابو پاسکی ہیں۔

پہلے صرف پیسے والے مرد افراد اغوا ہوتے تھے لیکن ماضی قریب سے تو یہ دائرہ ننھی سی معصوم بچیوں اور نوجوان لڑکیوں تک آپہنچا ہے ۔ اس تمام تر صورتحال میں پولیس کی سب سے بدنما صورت یہ ہے کہ پولیس نہ تو کسی مغوی کو بازیاب کراسکی ہے اور نہ ہی معصوم بچیوں اور نوجوان لڑکیوں کے قتل کے کیسز حل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس لیے سندھ پولیس اور اس کی موجودہ کمانڈ کو اپنے مورال کا خیال رکھتے ہوئے حاصل اختیارات اور اپنی صوبائی حیثیت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ یوں صوبائی سیاسی مداخلت سے بچ کر وفاقی سیاسی و اداراتی مداخلت کے تحت کسی کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے ۔ پھر آئی جی صاحب کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ 2017میں سندھ کے عوام نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی حمایت اُن کے بے داغ ماضی اور ایماندارانہ کردار کی وجہ سے کی تھی۔ آپ کی ایمانداری پر تو کسی کو کوئی شک نہیں ۔

محکمہ سندھ پولیس ،اُس کے تمام تر اخراجات ، بھرتیاں ، آپریشن اور انفرااسٹرکچر سندھ حکومت کے ماتحت ہے اور اُس پر اختیار و کنٹرول سندھ حکومت کا ہی ہونا چاہیے ، جس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے اور اس کے لیے 18ویں ترمیم کے تحت اُس پر قانون سازی کا آئینی حق بھی حاصل ہے لیکن سندھ حکومت کو اپنے ساتھ ساتھ سندھ پولیس کے وقار کو بحال کرانے پر توجہ دینی چاہیے ۔ یوں منتظمین، حکومتی وزراء ، مشیروں ، معاونین ِ خصوصی ، سیاسی شخصیات اور منتخب نمایندگان یا دیگران کی پروٹوکول فورس بن کر رہ جانے والی چھاپ اتارکر اُسے اپنے قیام کے ابتدائی عروج و عالمی اُصولوں کے مطابق عوام کی خدمت کرنے والی ایک رائل فورس بنانے پر توجہ دینی چاہیے ۔ جس سے نہ صرف صوبہ میں حکومت اور پولیس کے درمیان یہ اختیارات کی جنگ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے گا بلکہ اس سے سندھ پولیس کا مورال بھی بلند ہوگا جوکہ صوبہ میں امن و امان و حکومتی رٹ کے قیام میں معاون ثابت ہوگا ۔

اختیارات کا یہ معاملہ کیا رخ اختیار کرتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر یہاں پولیس اصلاحات اور امن امان کے حوالے سے جو بات انتہائی اہم ہے وہ یہ ہے کہ عوام کو ایک طویل مدت سے شکایات ہیں۔ اختیارات سے تجاوز ، طاقت کے بے دریغ استعمال ، سیاسی مداخلت کے باعث عوام سے ناجائزیوں کی ایک طویل تاریخ ہے ۔ پولیس ایکٹ انگریز کے دور والا ہو ، 1986والا ہو، 2002والا ہو یا پھر 2011والا مگر عوام کی شکایتوں میں کوئی کمی نہیں آئی اور نہ ہی عوام کی شکایات کا کبھی ازالہ کیا گیا ہے ۔

سندھ کے عوام پولیس افسران کی سیاسی بنیادوں پر تقرری کے سلسلے کے مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ پولیس کی پروٹوکول فورس اور عوام مخالف فورس والی شناخت کو تبدیل کرنے کے بھی خواہش مند ہیں ۔ اس لیے اب دونوں فریقین یعنی سندھ حکومت اور سندھ پولیس کو عوام کے تحفظ اور صوبہ میں امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھنے والی اولین ترجیح کو فوقیت دینی چاہیے اور پولیس کی کارکردگی اور سندھ حکومت کی نگرانی کا ایسا میکنزم بنانا چاہیے جس سے لوگوں کے جان و مال کا تحفظ اور صوبہ کے جغرافیائی ، ڈیمو گرافی ، سیاسی ، انتظامی اور معاشی خودمختاری سالم رہ سکے ۔

پولیس کو اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں اور پروفیشنل امیج کو بحال کرنے کی ضرورت ہے تو سندھ حکومت کو بھی عوام کی جانب اپنی ذمے داریوں کی سرانجامی کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے محکمہ کو غیرجانبدار بنانے میں نہ صرف اپنی بلکہ ہر طرف کی سیاسی مداخلت کی روک تھام شفافیت اور نیک نیتی سے میرٹ کو ملحوظ رکھتے ہوئے قانونی و آئینی ذمے داری نبھانے کو ترجیح دینی چاہیے ۔ کیونکہ اختیارات مکمل طور پر آئی جی کے پاس رہے ہوں یا صوبائی حکومت یا پھر وفاقی حکومت کے پاس رہے ہوں ۔ سندھ کے عوام کو صوبہ میں امن امان اور تحفظ کبھی میسر نہیں ہوسکا ہے ۔ ایسے میں اگر کوئی افسر یا اتھارٹی انفرادی کوششیں کرتا نظر آتا ہے تو وہ عوام کا ہیرو بن جاتا ہے لیکن مجموعی طور پر پولیس کا موجودہ نظام بہرحال کسی طور پربھی عوامی خدمت اور عوام کے تحفظ کی اصطلاحات پر پورا نہیں اترتا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔