انسانیت کی تعفن زدہ لاش

نسیم انجم  اتوار 15 دسمبر 2019
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

پی ٹی آئی کی حکومت کو آئے ہوئے چودہ ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے، اس عرصے میں حکومت کو استحکام اور وقار حاصل ہوا، اس کا ذکر اختتامی سطور میں کرنے کی کوشش کروں گی لیکن فی الوقت پاکستان سے جہالت کے خاتمے کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے، اس کا تذکرہ ضروری ہے۔

اندرون سندھ اور دوسرے صوبوں کے جرگہ سسٹم کے ان قوانین اور اس کی بالادستی کو ترامیم کے ذریعے ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے جن کی وجہ سے انسانیت پامال ہوئی ہے اور بے قصوروں کا لہو انصاف کی صدا لگا رہا ہے۔

حال ہی میں ضلع دادو کی معصوم اور غریب ماں باپ کی بچی جس کی عمر صرف 9 سال تھی اسے سنگسارکردیا گیا اور اس کارخیر میں بچی کے دادا ، نانا جیسی عمر کے فرعونوں نے حصہ لیا۔ کیا اس قسم کا تشدد و بربریت کا مظاہرہ کرنے والے پتھرکے زمانے کے لوگ تھے، ان کے سینے میں دل نہیں دھڑکتا تھا، وحشیانہ کھیل کھیلنے میں ان کا کلیجہ نہیں کانپا ،گل سما کی چیخیں ، آہیں اور سسکیاں انھیں سنائی نہ دیں وہ کس بے رحمی اور سنگدلی کے ساتھ اس ننھی اور بے خطا بچی کو مذبح خانے میں لے گئے، انھیں ذرہ برابر رحم نہیں آیا۔ ماں باپ نے اپنے گوشہ جگر کو کس تڑپتے دل سے رخصت کیا ہوگا۔ کیا گزری ہوگی ان پر، بڑا ہی المناک منظر تھا، جس نے ویڈیو دیکھی خبریں پڑھیں وہ اشکبار ہوا بلکہ اس سانحے کے کرب نے صاحبان دل و دماغ کو تھوڑی دیر کے لیے کومے میں پہنچا دیا، مزید جاننے اور سمجھنے کے لیے دماغ مفلوج ہوگیا۔

اس قبیل کا پہلا واقعہ جسے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی وہ مختاراں مائی کا تھا، وہ بھی کسی کی بیٹی اور بہن تھی کسی کی عزت تھی جسے برہنہ کرکے سر راہ گھمایا گیا۔ اس کے بعد تو اس طرح کے واقعات ہر روز رونما ہونے لگے۔ یہ کون سے مذہب کا طریقہ کار ہے کہ اپنی ماں بہنوں کو گلی کوچوں میں رسوا کرتے ہیں۔ جرگہ سسٹم وہ طاقت ور فیصلہ ہے جس کے آگے حکومت اور قانون سب بے بس ہیں، ہر شخص تماشائی ہے، ضمیر مردہ ہوگئے ہیں، گل سما نادار خاندان کی تھی اور دعا منگی صاحب ثروت تھی جس کے ماں باپ نے تاوان دیا اور دعا خیریت سے گھر پہنچ گئی جس کے لیے سب نے دعا کی تھی۔ اللہ کا بڑا کرم کہ وہ بخیر و عافیت گھر پہنچ گئی، دعا کے لیے بے شمار لوگوں نے دعائیں کیں جوکہ بارگاہ الٰہی میں مستجاب ہوئیں۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم بذات خود ان سنگین واقعات کا نوٹس لیں اور جرگہ سسٹم کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں، جن لوگوں نے معصوم جان کو بڑے سے پتھر پر بٹھا کر سنگ باری کی ہے انھیں بھی ایسی ہی دردناک موت سے گزارا اور میڈیا کے ذریعے اس قسم کی درندگی کا مظاہرہ کرنے والوں کے لیے عبرتناک سزاؤں کی بار بار تشہیر کی جائے۔

افسوس کا مقام ہے بے خطا شہریوں کو محض شبے یا گاڑی نہ روکنے کی بنا پر فوراً فائرنگ کے ذریعے مار دیا جاتا ہے اگر روکنا ہی ہے تو ٹائروں کو ناکارہ بنانے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ لیکن دیر تو بندہ مارنے میں بھی نہیں لگتی۔ اسی لیے یہ انسان کو جان سے مارنا بہتر سمجھتے ہیں۔

تشدد کے واقعات ہر روز جنم لیتے ہیں سفاکی اور درندگی اپنی حدود کو پارکرگئی ہے اب وہ لوگ بھی جو بظاہر ڈگری یافتہ ہیں وہ بھی رحم دلی، عفو و درگزر، شرافت اور تہذیب سے دن بہ دن دور ہوتے چلے جا رہے ہیں، لاہور میں وکلا گردی کی مثال بالکل انسانیت کی تعفن زدہ لاش کی مانند ہے انھیں دل کے مریضوں کا بھی خیال نہیں آیا۔ ان کی بہیمانہ کارروائی کی بدولت کئی مریض زندگی کی بازی ہارگئے۔ بے شک جب علم کی روشنی چھن جائے تب انسان اندھا ہوجاتا ہے، بھیڑیا بن جاتا ہے اور صاحبان اقتدار کی یہی رضا ہوتی ہے کہ عوام شعور سے بے گانہ رہیں اور ان کی خادم بنی رہے جو وہ چاہیں وہی کام ہو، اسی لیے قاتلوں کو سزا نہیں دی جاتی ہے سب کو جمع کرلیا جاتا ہے۔ یقینی بات ہے ان سے ان کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑے بڑے کام لیے جاتے ہیں، ملزمان و مجرمان آسمان سے تو نہیں ٹپکے ہیں، تعلیمی اداروں پر قفل لگا کر ان کی کھیپ تیار کی گئی ہے۔

گل سما کی یہ غلطی تھی کہ اس کے ماں باپ نے یہ رشتہ دینے سے اس لیے انکار کردیا تھا کہ اس کی عمر شادی کی نہیں تھی، رشتہ مانگنے والے طاقتور تھے، انھیں بے بس و مجبور اور افلاس زدہ والدین کے انکار نے چراغ پا کردیا اور انھوں نے جرگہ بلاکر ان کی پسند کا فیصلہ دے دیا۔ یہ لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں؟ چھ کلموں کی بات تو دورکی ہے انھیں پہلا کلمہ اور اس کا مطلب معلوم نہیں ہے، اور پھر دعویٰ کرتے ہیں مسلمان ہونے کا، کیا یہ جرگے کے لوگ سنگسار کے قواعد و ضوابط سے واقف نہیں، انھیں سورہ ’’نور‘‘ کا ترجمہ اور تفسیر سمجھانے کی ضرورت ہے کہ سنگسار کرنے کا حکم کن حالات میں آتا ہے۔اس کام کے لیے دینی جماعتیں اور فلاحی انجمنیں اپنا کردار بہتر طریقے سے انجام دے سکتی ہیں، پولیس کی معاونت بھی ضروری ہے ورنہ تو یہ جہلا کی ٹیم درس قرآن دینے والوں کے لیے بھی فی الفور فیصلہ سنا کر موت کے گھاٹ اتار سکتے ہیں، ہم نے پہلے بھی اپنے کالم میں اس بات کا تذکرہ کیا تھا کہ اس تاریک دور میں روشنی کی بہت ضرورت ہے اس مقصد کے لیے تعلیم بالغاں کے اداروں کو فعال کرنا گویا اجالا پھیلانے کے مترادف ہوگا۔

وزیر اعظم عمران خان مدینے کی حکومت کی جھلکیاں اسی وقت دکھا سکتے ہیں جب وہ مہنگائی پر قابو پالیں اور انصاف کی گرفت کو مضبوط کریں بلا تفریق، پولیس ڈپارٹمنٹ کی ازسر نو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ٹریننگ کو انسانیت کی بقا کے لیے لازم و ملزوم کیا جانا وقت کی اہم ترین ضرورتوں میں سے ایک ہے۔

کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جو حکومتی کارکردگی سے لاعلم ہیں، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ مہنگائی کے عفریت کا شکار ہیں لیکن بے شمار اس حقیقت سے واقف ہیں کہ گزشتہ برس میں وزیر اعظم کی کوششوں اور نیک نیتی کی بدولت بہت سی کامیابیاں حاصل ہوئیں جن میں چند یہ ہیں۔ قطر میں ویزے کی پابندی ختم، روس نے 21 سال بعد تجارت شروع کردی، کویت ایئر لائن کراچی کے لیے ہفتے میں دو بار چلا دی گئی، اقوام متحدہ نے پاکستان کو 10 ملکوں کا صدر بنا دیا جو دنیا بھر میں درخت لگانے کا کام اور اپنی مرضی سے فنڈ بھی جاری کریں گے۔ سعودی عرب اور ملائیشیا سے قیدیوں کی رہائی، FATF سے پاکستان کو ترکی، ملائیشیا اور چائنا کی مدد سے بچا لیا گیا، تھر میں شیلٹر ہاؤس اور لنگر خانوں کا انتظام، برٹش ایئر لائن کی پروازیں پاکستان کے لیے چلا دی گئیں۔ اسٹیل مل کو دوبارہ چلانے کے لیے بھی بات ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم کا عوام کے لیے سستا انصاف، سستا راشن اور زیادہ تنخواہوں کے لیے کام کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔