10 سال بعد ٹیسٹ کرکٹ بحال مگر…

عباس رضا  اتوار 15 دسمبر 2019
بارش نے شائقین کی امیدوں پر پانی پھیر دیا (فوٹو: فائل)

بارش نے شائقین کی امیدوں پر پانی پھیر دیا (فوٹو: فائل)

انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے سفر میں پاکستان طویل اور صبر آزما مراحل سے گزر رہا ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی ایک امن پسند اور کھیلوں خاص طور پر کرکٹ سے بے پناہ محبت کرنے والی قوم ہیں لیکن دنیا کو یقین دلانے کے لیے فوج، رینجرز، پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں، تاجروں اور عوام کو اپنے قیمتی وقت اور سرمائے کی قربانی دینا پڑ رہی ہے۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ سب خندہ پیشانی سے مشکلات برداشت کر رہے ہیں، اعتماد کی بحالی کا یہ سفر آہستہ ضرور مگر مسلسل جاری ہے، مارچ 2009 میں ٹیسٹ میچ کے دوران قذافی سٹیڈیم کی جانب گامزن سری لنکن ٹیم کی بس پر حملہ پاکستانی قوم کیساتھ اسپورٹس کے لئے بھی ایک ایسا صدمہ تھا جس سے سنبھلنے میں کئی سال لگ گئے، طویل تعطل کے بعد بالآخر مئی 2015 میں زمبابوے کی ٹیم کا دورہ  بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا، لاہور میں محدود اوورز کی کرکٹ کے میچز کے دوران سیکورٹی اداروں نے فول پروف انتظامات سے ثابت کیا کہ پاکستان اپنی غلطی سے سبق سیکھ چکا اور مستقبل میں بھی انٹرنیشنل میچز کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔

سب سے اہم بات یہ تھی کہ ایک بڑی ٹیم نہ ہونے کے باوجود شائقین نے مہمان زمبابوین کرکٹرز پر بھی محبت کے پھول نچھاور کیے، تاجروں نے خندہ پیشانی سے کاروباری نقصان برداشت کیے، عام شہریوں نے بھی سکیورٹی انتظامات کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات کے باوجود گلے شکوے کرنے کی بجائے بانہیں پھیلا کر انٹرنیشنل کرکٹ کا استقبال کیا، زمبابوے کے خلاف سیریز سری لنکن ٹیم پر حملہ کے 6 سال بعد ممکن ہوئی۔

ملک میں ٹیسٹ کرکٹ کی بحالی کا سنگ میل عبور کرنے میں مزید 4 سال لگ گئے، اس دوران پی ایس ایل میچز اور ورلڈ الیون کے ساتھ سیریز جیسے کئی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے گئے، سری لنکا کی واحد ٹی ٹوئنٹی میچ میں میزبانی لاہور میں کرتے ہوئے ایک اور در کھولا گیا، ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے کراچی میں 3 ٹی ٹوئنٹی میچ کھیل کر سکیورٹی خدشات کو زائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا، آئی لینڈرز کو اکتوبر میں ٹیسٹ سیریز کے لیے آنا تھا لیکن بعدازاں محدود اوورز کی کرکٹ کے میچز پہلے کھیلنے کا فیصلہ ہوا، کراچی میں ون ڈے اور لاہور میں ٹی ٹوئنٹی مقابلوں کے بعد سری لنکن ٹیم وطن واپس گئی تو کچھ اس طرح کی اطلاعات بھی سامنے آنے لگیں کہ شاید دسمبر میں ٹیسٹ سیریز ممکن نہ ہو۔

بہرحال سری لنکا نے ایک بارپھر دوستی کا حق ادا کیا اور اپنی ٹیم بھجوانے کا فیصلہ کیا،ملک میں 10 سال بعد ٹیسٹ کرکٹ بحال ہونے پر شائقین میں خوشی کی ایک لہر موجود تھی، اس تاریخی موقع کی رپورٹنگ کے لئے راقم الحروف نے لاہور سے پنڈی تک کا سفر کرنے کا فیصلہ کیا، میچ سے ایک روز قبل راولپنڈی اسٹیڈیم کا رخ کیا تو لاہور اور کراچی میں قبل ازیں ہونے والے میچز سے بھی زیادہ سخت سکیورٹی انتظامات نظر آئے، ٹیموں کی آمد ورفت کے لئے متعین کئے گئے روٹس کو کلیئر رکھنے کے لیے اطراف سے آنے والی تمام سڑکوں کو بند کر دیا گیا تھا، اسٹیڈیم کی طرف آنے والے ہر شائق کو کم ازکم 4 مقامات پر جامہ تلاشی کرانے کے ساتھ واک تھرو گیٹ سے گزرنا پڑا۔

اگر کسی کے پاس بیگ موجود تھا تو اس کو کھول کر دیکھا گیا، لیپ ٹاپ اور بند موبائلوں کو آن کرکے تسلی کی گئی کہ ان میں کوئی دھماکہ خیز ڈیوائسز نہیں رکھی گئی، میڈیا سینٹر میں آنے والے ہر صحافی کا بیگ اور کیمرہ بھی سکین کیا گیا، راولپنڈی سٹیڈیم کا نئے میڈیا باکس میں گنجائش زیادہ اور آرام دے نشستیں موجود تھیں، عام طور پر ٹیسٹ میچز میں شائقین کی زیادہ تعداد نہیں آتی لیکن 15000 کی گنجائش رکھنے والا راولپنڈی اسٹیڈیم70 فیصد بھرگیا،نوجوانوں کی بڑی تعداد جڑواں شہر اسلام آباد کے علاوہ دور دراز کے علاقوں سے بھی آئی تھی، پشاور، سوات، دیر سے آنے والے کئی شائق زندگی میں پہلی بار اسٹار کرکٹرز کو اپنی آنکھوں کے سامنے ایکشن میں دیکھنے کے لیے آئے تھے۔

راقم الحروف سے گفتگو کرتے ہوئے ایک نوجوان جواد خان نے کہا کہ انٹرنیشنل کرکٹ کی میزبانی پر پاکستان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا دوسرے ملکوں کا ہے، پی ایس ایل میچز، سری لنکا، ویسٹ انڈیز کے ساتھ چیز کے کامیاب انعقاد کے بعد اب انگلینڈ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسی ٹیموں کو بھی پاکستان کھیلنے پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

ایک اور نوجوان نفیس احمد نے کہا کہ میچ دیکھنے کے لیے سوات سے گزشتہ رات ہی راولپنڈی پہنچ گیا تھا، زندگی میں پہلی بار انٹرنیشنل کرکٹرز کو اپنی آنکھوں کے سامنے کھیلتا دیکھنے کا موقع ملنے پر بہت خوش ہوں، راقم الحروف کی چند سکیورٹی اہلکاروں سے بھی بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ کئی روز سے اسٹیڈیم اور اطراف کی نگرانی کر رہے ہیں، پہلے روز ڈیوٹی مزید سخت ہوگئی لیکن ہر اہلکار اپنی جگہ پر مستعد اور قومی جذبے کے ساتھ کام کر رہا ہے، میچ کے پہلے سیشن میں سری لنکا کی کوئی وکٹ نہیں گری، اس کے باوجود شائقین پرجوش اور مہمان اوپنرز کو بھی اچھے اسٹروکس پر داد دیتے ہوئے نظر آئے۔

وقفہ کے بعد پاکستانی بولرز حاوی ہو گئے تو میدان میں شور بڑھ گیا، موسم کی خرابی کے باوجود شائقین کا جوش ٹھنڈا نہیں پڑا، پورے دن میں 68.1 اوورز کا کھیل ممکن ہونے کے باوجود اسٹیڈیم اور راولپنڈی شہر میں ایک خوشی کی لہر تھی، خاص طور پر طالب علموں کا موضوعِ بحث ہی میچ اور ٹیموں کی کارکردگی تھی،اگلے روز ہی شائقین کی امیدوں پر پانی پھرنے لگا جب بارش کی وجہ سے موسم خراب ہونے پر پورے دن میں 18.2 اوورز کا کھیل ہوسکا، میچ کے تیسرے روز صورتحال مزید خراب ہوئی اور صرف 5.2 اوورز ہی دیکھنے کو ملے، رات سے لے کر صبح تک ہونے والی بارش کے باعث چوتھے روز ایک گیند بھی نہ پھینکی جا سکی، ان دنوں میں میدان کا رخ کرنے والے شائقین اور لاکھوں ٹی وی ناظرین نے کوورز ہٹائے جانے اور امپائرز کی جانب سے بار بار معائنہ کے مناظر ہی دیکھے۔

اسٹیڈیم میں سٹینڈز پر چھت نہ ہونے کی وجہ سے جب بھی بارش ہوئی شائقین کو موسم کی سختی سے بچاؤ کے لئے کوئی پناہ گاہ نہ ملی،وہی وینیو جہاں پہلے روز ایک میلے کا سماں تھا، وہاں شام تک اکا دکا تماشائی نظر آنے لگے، ہزاروں سکیورٹی اہلکار ڈیوٹی پر موجود، اسٹیڈیم کے اطراف میں مارکیٹیں اور ٹریفک بند رکھنے کے باوجود ملک میں ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی کو یاد گار نہیں بنایا جا سکا، بہترین انتظامات اور بھاری اخراجات کے باوجود کھیل نہ ہونے کے معاملے میں کسی طور بھی پی سی بی کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا، آج کے جدید دور میں موسم کے بارے میں پیشگوئی کئی ماہ پہلے ہی ممکن ہوتی ہے، ایک عام شخص بھی اپنا موبائل کھول کر بارش کے امکانات سے آگاہی حاصل کر سکتا ہے، پی سی بی حکام میں سے کسی نے اتنا تردد کرنا ضروری نہیں سمجھا۔

راولپنڈی اسٹیڈیم کے کمنٹری باکس کے باہر راقم الحروف سے گفتگو کرتے ہوئے سابق ٹیسٹ کرکٹر رمیز راجہ نے کہا کہ ملک میں 10 سال بعد ہونے والے ٹیسٹ میچ کو کسی ایسے وینیو پر شیڈول کیا جانا چاہیے تھا جہاں 5 روز تک کھیل ممکن ہوتا،کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملتا، شائقین بیٹ اور بال کی جنگ کا لطف اٹھاتے، میچ کا نتیجہ نہ بھی نکلتا کم از کم ایکشن تو نظر آتا، اسی طرح دیگر کی سابق ٹیسٹ کرکٹرز اور مبصرین بھی تاریخی ٹیسٹ میچ کو راولپنڈی میں شیڈول کیے جانے پر مایوسی کا اظہار کرتے رہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان دنوں کراچی کا موسم کرکٹ کے لیے سازگار ہے اگر سیریز کا پہلا میچ وہاں رکھ دیا جاتا تو شائقین یادگار لمحات کا بھرپور لطف اٹھاتے۔یاد رہے کہ پاکستان آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ میں ابھی تک ایک پوائنٹ بھی حاصل نہیں کرپایا، آسٹریلیا کے ہاتھوں شکستوں کے بعد سری لنکا کو زیر کر کے 60 پوائنٹس حاصل کرنے کا موقع تھا مگر اب دونوں ٹیموں کے ہاتھ 20، 20 ہی آئیں گے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔