16دسمبرکا پیغام

جمیل مرغز  اتوار 15 دسمبر 2019

آرمی پبلک اسکول پشاور(APS) کے سانحے کو پانچ سال ہوچکے ہیں۔ اس سانحے کا ذکر بہت دردناک ہے ‘اس کی تفصیل صرف ان بچوں کے والدین کے غم میں اضافہ کرنا ہے‘ اس لیے تفصیل میں جائے بغیر اس حادثے کے دیگر پہلوؤں کا جائزہ لیں گے۔

ہماری غلط پالیسیاںاورکارکردگی16دسمبر 1971 کے سانحے کے بعد بدل جا نی چاہیے تھیں لیکن کچھ بھی نہ بدلا ہم اسی طرح پرانی غلط ڈگر پر چلتے رہے ‘قدرت نے ہمیں کافی مواقعے دیے لیکن ہم نہ سدھرے تو ہمیں ایک اور وارننگ دینے کے لیے پھر 16دسمبر کا انتخاب کیا گیا‘ 16دسمبر 2014کے دن کوقدرت کی طرف سے ایک اور وارننگ سمجھنا چاہیے ‘خدا کرے اب بھی ہم سمجھ جائیں اور اگر پہلا نہیں تو دوسرا 16دسمبر ہماری زندگی بدل دے ‘شاید یہ احساس ہوجائے کہ 16دسمبر کو APSکے بچوں کے قتل عام کا واقعہ اچانک نہیں ہوا بلکہ بقول قابل اجمیری ۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

امریکی مصنف اور سابقہ صدر کے ایڈوائزر بروس ریڈل نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک دن  ضیاء الحق نے کہا کہ ’’یہ ہمارا حق ہے کہ افغانستان میں ہماری مرضی کی حکومت ہو‘ہم نے فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر خطرات مول لیے تھے اور ہم یہ اجازت کبھی نہیں دیں گے کہ افغانستان پہلے کی طرح ہوجائے اور وہاں پر بھارتی یا روسی اثر و رسوخ ہو اور وہ ہمارے علاقوں پر دعوے کریں‘افغانستان ایک مکمل اسلامی ریاست ہوگی ‘جو اسلامی نشاۃ ثانیہ کو دوبارہ اجاگر کرے گی اور ایک دن ہم روس کی اسلامی ریاستوں کو بھی فتح کریں گے‘‘۔ کشمیر فتح کرتے کرتے ہم آدھا ملک گنوا بیٹھے اور پھر افغانستان فتح کرتے کرتے فاٹا بھی ہاتھ سے جاتا رہا اور پورا ملک خون میں نہا رہا تھا‘ پوری دنیا کو مسلمان بنانے اور افغانستان اور روس کو فتح کرنے کا نتیجہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔

9/11کے حادثے کے بعد امریکا بدل گیا‘ امریکا نے پرانے قوانین کو چھوڑ کر نئے قوانین بنائے‘ قومی سلامتی کو سب امور پر ترجیح دی ‘وہاں پر ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی (Department of Home Land Security)اور نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سینیٹر(National Counter Terrorism Centre) بنا اور پورے امریکا کی سیکیورٹی ان کے حوالے کر دی گئی ‘ہوم لینڈ سیکیورٹی کو بہت زیادہ اختیارات دیے گئے ‘پورے امریکا کا ڈیٹا ایک جگہ جمع ہوا‘اطلاعات اور خفیہ اطلاعات کو کمپیوٹرائز کیا گیا ‘ویزوں کے لیے معیار بنایا گیا ‘ملک کے اندر اور بیرون ملک پروازوں کے اعداد و شمار کے سینٹر بنے ‘تیزی سے حرکت میں آنے والی (Quick Response Force) بنائی گئی’پولیس‘فوج اور عدلیہ تینوں کو ہوم لینڈ سیکیورٹی کا حصہ بنایا گیا ‘عوام کو یہ یقین دلایا گیا یہ ادارہ آپ کی حفاظت کے لیے بنایا گیا ہے۔

آج اس سانحے کو18سال ہو گئے ہیں‘ 9/11/2001کے بعد امریکا میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا ‘اسی طرح برطانیہ سمیت دوسرے یورپی ممالک نے بھی ادارے بنائے ‘لندن میں 9/11کے بعد دہشت گردی کا صرف ایک قابل ذکر واقع ہوا ‘یہ 7جولائی 2005کو لندن میں پیش آیا اس لیے اس کو 7/7 بھی کہتے ہیں‘ امریکا اور دوسرے یورپی ممالک کو تو صرف القاعدہ سے خطرہ تھا لیکن پاکستان تو خطرات کا کوہ قاف بن چکا ہے ‘یہاں القاعدہ اور نہ جانے کتنی عفریتیں پل رہی تھیں۔ پاکستان میں تو شاید حکومت NAPکو بھول گئی ہے‘ NACTAکے ادارے کو بھی فعال نہیں کیا جا سکا‘ اب بھی دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار حساس اداروں کے دفاتر، آرڈیننس فیکٹری ‘پولیس اور ایف سی کے ٹریننگ سینٹروں‘بڈھ بیر بیس اور نیوی کے میزائل بردار جہاز پر حملے ہوئے‘ ان حملوں میں کروڑوں روپے کا سامان اور ہزاروںجوان شہید ہوگئے ‘اس کے علاوہ اسکولوں‘  مارکیٹوں ‘اسپتالوں ‘زیارتوں اور عوامی مقامات پر لاتعداد حملے ہوئے اور تقریباً 55ہزار شہری ان حملوں میں شہید ہوئے‘آرمی پبلک اسکول کے واقعے کا تو ذکر ہی دل دہلا دیتا ہے ‘ہماری معیشت تباہ ہوگئی اور عوام ذہنی مریض بن گئے۔ یہ مصیبت ہم نے خود مول لی تھی‘ کسی نے ہمارے گلے میں زبردستی نہیں ڈالی جیسا کہ بعض سیاسی رہنماء دعوے کرتے ہیں کہ یہ پرائی جنگ ہے‘ جس میں ہم نے خود کو پھنسالیا‘ نہیں جناب یہ ہماری اپنی جنگ ہے اور ہم نے ڈالر اور ریال لے کر اس بلا کو اپنے گھر میں جگہ دی ہے۔بہت سے واقعات دہشت گردی کے خلاف ہماری بے عملی کو ظاہر کرتے ہیں۔

میں سوچ رہا ہوں کہ آج جب پورا پاکستان اس بات پر متفق ہے کہ ملک کو انتہا پسندی اور پراکسی وار کی غلط پالیسیوں سے باہر لانا ضروری ہے ‘وزیر اعظم بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ ہم کسی کے خلاف بھی پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے تو یہ جہاد کی باتیں کیوں ہو رہی ہیں؟ کیا ان باتوں کی NAPمیں اجازت ہے؟ نہیں جناب! مسئلے کو بنیاد سے ختم کرنا ہوگا ورنہ کچھ بھی نہیں ہوگا‘محض لیپا پوتی سے کام نہیں چلے گا‘ FATFکی وارننگ کی وجہ سے جہادی تنظیموں کی کارروائیاں زیر زمین چلی گئی ہیں ۔ آج پاکستان جن مسائل اور بحرانوں سے دو چار ہے وہ کشمیر اورافغانستان میں ’’ تزویراتی گہرائی‘‘ کے حصول اور اپنے ہمسایوں سے حساب برابر کرنے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے جہادی کلچر اور ’’پراکسی  جنگ‘‘ کی حکمت عملی کو بطور ریاستی پالیسی اپنانے کا نتیجہ ہے جو اب ہمارے گلے پڑ گئی ہیں۔

کیا ہمیں یاد نہیں کہ جب1981میں مصری صدر انور سادات کے قتل کے بعد ہزاروں شہریوں کو حراست میں لیا گیا ‘ان میں نوجوانوں کی بڑی تعداد کو افغانستان جہاد کے لیے بھیجا گیا بلکہ سزائے موت کے قیدی ایمن الظواہری اور بہت سے ملزموں کو افغان جہاد میں حصہ لینے کے لیے جیلوں سے رہا کیا گیا‘ بن لادن خاندان کے نوجوان چشم و چراغ بے پناہ خاندانی مالی وسائل اور شخصی وجاہت کے ساتھ ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ‘اسامہ بن لادن نے مکتبہ الخدمت کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جو عرب مجاہدین کے ویزے ‘ٹکٹ اور رہائش کا بندوبست کرتا، انھیں افغانستان کے اندر قائم کیمپوں میں پہنچا دیا جاتا جہاں انھیں گوریلا جنگ کے ماہرین حربی تربیت دیتے اس طرح یہ عالمی جہاد بن گیا ۔

امریکیوں نے بھی عالمی جہادی نیٹ ورک قائم کرانے میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیا ‘سی آئی اے کے مالی تعاون سے دنیا کے بڑے بڑے اخبارات میں مجاہدین کی بھرتی اور ان کی مالی مدد کے لیے اشتہارات چھپوائے گئے ‘امریکی یونیورسٹیوں نے ایسی کتابیں شایع کیں جن میں بچوں کو جہادی تعلیم اور کمیونسٹوں کو قتل کرنے کی ترغیب دی جاتی۔US AIDنے یونیورسٹی آف نبراسکا کو اس کام کے لیے 50ملین ڈالر کی خطیر رقم فراہم کی ‘اسی یونیورسٹی کی شایع شدہ ایک کتاب میں ایک افغان بچہ ایک روسی فوجی کی آنکھیں نکالتے ہوئے اور ٹانگیں کاٹتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

طالبان کے دور میں بھی اسکولوں اور مدارس میں سی آئی اے کی چھپی ہوئی کتابیں پڑھائی جاتی رہی ہیں‘ آج بھی ایسی کتابیں مل جاتی ہیں‘جدہ میں امریکی ویزہ کونسلر کی خدمات سرانجام دینے والے مائیکل اسپرنگ مین نے ایک امریکی اخبار کو بتایا کہ سی آئی اے کی ہدایت پر افغان باشندوں کو بلا روک ٹوک ویزے جاری کیے جاتے تھے ‘امریکا میں گوریلا جنگ کی تربیت دے کر انھیں واپس افغانستان روانہ کردیا جاتا ۔

کہا جاتا ہے کہ ملک میں اسکولوں سے زیادہ مدارس بنے ‘ملک بھر میں پھیلے مدارس زیادہ تر دینی تعلیم دے رہے ہیں‘تاہم اب اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے کیونکہ یہاں جدید دور کے لحاظ سے طلباء کی تربیت نہیں ہو پا رہی۔ کہا جاتا ہے کہ اتنی مساجد نہیں جتنے مدارس ہیں اور یہ بھی ممکن نہیں کہ اتنی بڑی مدارس کے طلباء کی تعداد کو روزگار کی فراہمی کے لیے مساجد تعمیر کی جائیں‘ ہمیں ان طلباء کو جدید تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔

مجھے ماں اس سے بدلہ لینے جانا ہے

مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔