ٹماٹر خریدنے نکلے تھے

نادر شاہ عادل  اتوار 15 دسمبر 2019

ہم کو تو انتظار ِ سحر بھی قبول ہے

لیکن شبِ فراق ترا کیا اصول ہے

جس دن قتیل شفائی کا یہ پرانا شعر پڑھا ، طبیعت نئی سیاسی اور میڈیائی حقیقتوں سے لخت لخت ہوگئی، سیاسی تبدیلیوں  کے نئے زخم ملے جو ہر ستم رسیدہ پاکستانی کو آئے دن ملتے ہیں، آپ کہیں گے یہ کون سی نئی بات ہے۔ چلیے چھوڑیئے لیکن ان صدموں کی لذت آشنائی بھی ایک دلنشین تجربہ ثابت ہوا ہے۔

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا۔ نت نئے سیاسی بیانیے آجکل یوں لگتا ہے منی بسوں اورکوچز میں بھر بھر کے آتے ہیں، دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برسنے لگتے ہیں، معصوم عوام ایک گہری نیند سے بیدار ہوئے ہیں ، جیسے ’’اصحاب کہف‘‘کے غار سے نکلے ہیں، ان کو بھی زمین سے جڑی معاشی حقیقت منہ چڑانے لگی ہے، مہنگائی کی صورتحال نے پورے ملک کوکامیڈی تھیٹر بنا دیا ہے۔ میں 17روپے والے ٹماٹر خریدنے نکلا تھا مجھے بھنڈی ، تورئی، دھنیا ، پودینہ ، پیاز ، آلو اور بینگن  نے طعنے دیے، بالک!

ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں

بقول شخصے پرانی سیاست گری خوار معلوم ہوئی ، نئے سیاسی شگوفے سننے کو ملتے ہیں ، محسوس ہونے لگا ہے بلکہ سچ پوچھیے تو نئی سیاسی تبدیلیوں پر پیار آنے لگا ہے۔2018  کے انتخابات کا منظر نامہ نئی امیدوں ، نئی توقعات اور نئی طرز حکمرانی کی نوید بن کر طلوع ہوا اور جمہوری سفر میں سال 2019 اختتام پذیر ہے۔

ابھی چار سال کا سفر باقی ہے، امید پر دنیا قائم ہے۔کوشش ہونی چاہیے کہ خواب جو قوم دیکھنا چاہتی ہے وہ شرمندہ تعبیر ہو، ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم ہو، جمہوریت کی روح سے ہمارا رشتہ برقرار رہے، لوگ ایک نظام اقدارکو ابھرتا دیکھیں، دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ پاکستان اس کے مسخ شدہ نقشہ کا اب بھی ایک خوبصورت رنگ ہے اور اس کی حکمرانی عوام کی تقدیر بدلنے سے عبارت ہے، اسے ہم اور آپ کلیشے نہ بنائیں ، یہ ایک حقیقت بن کر  سامنے آنی چاہیے ، قوم کو اندر سے محسوس ہوکہ کوئی تبدیلی  آنے والی ہے، جمہوریت کی شمع جلتی رہے تو پاکستان کے کروڑوں عوام کو ایک نہ ایک دن فلاحی ریاست کی منزل ضرور مل جائے گی۔

اس امید میں سات عشرے گزر گئے، سیاست دان اور ووٹر جنھیں عرف عام میں ہم عوام کہتے ہیں  ایک جمہوری فضا میں رہتے ہوئے بھی اس سے ترک تعلق کا ذہنی رویہ رکھتے ہیں،کبھی خود کو مورد الزام ٹھہراتے اورکبھی عوام کو جاہل ، بے شعور ، کورانہ تقلید اور جاگیردارانہ اور رجعت پسندانہ سوچ کی غلامی میں مست مئے پندارکا طعنہ ملتا ہے۔

تاریخ کی سفاکی دیکھیے کہ مملکت خدا داد کے کروڑوں شہری باصلاحیت ہیں، ملک میں بلند افلاک عمارتیں ، شاہراہیں، کاروباری مراکز میں رونقیں ہیں، کروڑوں اربوں کی کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں ہیں، جمہوری ادارے ہیں، الیکشنز ہوتے رہے ، وفاق اور صوبوں میں حکومتیں تشکیل پاتی رہیں ، جمہوری عمل بھی چلتا رہا ، آزاد عدلیہ ، بے باک میڈیا اور سوشل میڈیا کی رینج سے کوئی دور نہیں۔

تاہم ہر شخص نظری طور پر ’’کور موش‘‘ہے ، بند چوہیا کی طرح خلق خدا ادھر ادھرگھوم پھر رہی ہے، وزیراعظم کہتے ہیں گھبرانا نہیں ، ابھی دیرکیا ہے، ٹھہر جا کوئی ایڈمنڈ برک جنم لینے والا ہے، دبنگ مدبر ہوگا، اس کے طفیل پارلیمنٹ کی بالا دستی ہوگی،’’اکراس دی بورڈ‘‘ احتساب کا عمل سامنے آئے گا، دودھ اور شہد جیسا کیسا دیدہ زیب لذیز منظر ہوگا، ساری اپوزیشن مردود قرار پاکر جیل میں ہوگی، کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا، چئیرمین نیب نے نوید دی ہے کہ ہواؤں کا رخ بدلنے لگا ہے۔

اے ہوا میرے سنگ سنگ چل ، میرے دل میں مچی ہل چل

ہمارے دانا و بینا لوگ کہتے ہیں کہ قیام پاکستان سے اب تک قوم نے ایک طویل سفر طے کیا ہے، جمہوریت اور آمریت کے کھیل میں ہار جیت ہوتی رہی ہے، برطانوی راج سے ملے ہوئے سیاسی، سماجی اور انتظامی تجربوں اور روایات کا تسلسل دو چیزیں دے گیا ، ایک فکری غلامی ، دوم طبقاتی تعلیم۔ کچھ چیزیں اہل ہنر نے ماورائے ثقافتbeyond culture خود ہی پیدا کیں ، مثلاً بغیر محنت بے تحاشہ دولت، عبادت کا غرور، معصوم لاقانونیت ، غربت پر قائم اشرافیہ ، جمہوری لگڑ بگے اور بقول سائیں پیرشاہ مردان عرف پگارا زیدست ، زبردست ، بالادست،آخر میں تہی دست۔ ان لفظوں میں دریائے معانی کا طلسم تلاش کریں ۔ غور کریں، بنتی ٹوٹتی اسمبلیوں کی درد ناک تاریخ بھی کتابوں کے اوراق میں ملتی ہے، اہل صحافت کے پاس اس کی ایک مستحکم تاریخ اور دستاویزی ریکارڈ محفوظ ہے۔

ہمارے اہل قلم ملکی سیاست اور سماج کی دھڑکنوں کے ساتھ رہتے ہیں، اینکرز نے پرنٹ میڈیا کے سر پر اپنی خوبصورت ، گلرنگ،گلیمرائزڈ  بصری و سمعی دنیا بسائی ہے، پرنٹ میڈیا کے مستقبل کو ٹمٹماتی شمع سے تعبیرکرتے ہیں ۔ دوسری جانب ایک عام پاکستانی کی معمول کی زندگی چھوٹی اسکرین کے حصار میں ہے، اسی کشمکش میں ہے کہ بڑی اسکرین سے تعلق جوڑے لیکن بحران تہذیبی ، فکری اور نفسیاتی ہے، آدھے دھڑکا انسان اپنی داخلیت میں حسن عسکری ، سلیم احمد اور  اداکار طلعت حسین کا بھی مسئلہ تھا، اور عہد حاضر کے بیشمار دانشوروں کا بھی ہے۔

سیاست اور ادب یا زندگی اور حقیقت کے مابین جو قربتوں میں دوری کا رونا دھونا ہے وہ وسعت اللہ خان کے چلبلے کالموں سے رسم عاشقی کا جواز لیتا ہے۔ اس لیے سیاست میں بونے اپنے قد سے بلند ہونے کی کوشش میں اوور ایکٹنگ کرتے اور قحط الرجال کا شور اٹھتا دیکھتے ہیں وہ شورکو سننے کے لیے اور بلندہونے کی کوشش ناتمام کو تبدیلی بھی کہتے ہیں۔سو وہ ان کو مبارک ہو۔ میرا المیہ یہ ہے کہ میں 50ء کی دہائی کی ’’کائی‘‘ ہوں ، چچا غالب نے ارشاد کیا تھا۔

سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی

بن گیا روئے آب  پرکائی

اس کائی نے سیاسی زندگی میں بھونچال پیدا کیا، نیا پولیٹیکل سیٹ اپ پٹے ہوئے فرسودہ چہروں کی قلعی گری سے عوام پر مسلط ہے، نظریاتی جدوجہد اپنا سازوسنگیت پیچھے چھوڑ چکی، اب حقیقت اور افسانے کا فرق معلوم کرنے کی ضرورت نہیں، دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ ہمارا سیاسی افسانہ کتنا ’’حقیقت ماآب‘‘ ہے۔

اس نے کتنے افسانوی یو ٹرن لیے ہیں، اور بائیس کروڑ اہل وطن کو سچ کی چاندنی ملی ہے یا گھٹا ٹوپ بیانیہ؟ ایک تاثر یہ ہے کہ ڈھیر ساری ایسٹ انڈیا کمپنیاںہمارے اردگرد مورچے لگائے بیٹھی ہیں،جمہوریت بفضل تعالیٰ ٹھیک چل رہی ہے، دستار ’’شیخ‘‘ صاحب نے خوب سنبھالی ہے، لیکن مصیبت اس اجتماعی الجھن کی ہے جو قوم کو باورکراتی ہے کہ سب ٹھیک نہیں، آئین ،جمہوریت، کلچر، تہذیب، معاشرتی اقدار، اخلاقیات بحران سے دوچار ہیں، اور سماجی ومعاشی اہداف کی تکمیل کے لیے ابھی قوم کو چار سال انتظارکرنا ہوگا۔ یہ بیل اتنی جلدی اورآسانی سے منڈھے نہیں چڑھے گی۔

اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں۔ وزیراعظم کی توقعات بے حساب اور ان کے خواب جوان ہیں، وہ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں، سیاست کے جتنے راستے ماضی میں اوپن تھے اور ان پر پی پی اور ن لیگ کی حکومتیں تین تین بار اقتدار میں آچکی ہیں اب ان راستوں پر گلوٹین ڈالی جاچکیں، میڈیا کے گرد بھی باڑ لگانے کی مسخریاں ہیں، اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کا منظر بھی رنگ بازی سے مرصع ہے، سیاسی موسم گرم ہے، پالیٹکس آف مائنس ، عدم اعتماد اور نئے سال کے ابتدائی دورانیے میں الیکشن کی افواہوں کی لہریں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں، راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔

عمران کی عمرانیات سے واقفیت ایک مشکل مرحلہ ہے، اپوزیشن کے دانا کہتے ہیں کہ جب تک ہماری لائن اور لینتھ درست نہیں ہوگی اور ہم ریورس سوئنگ اور مرلی دھرن والا ’’دوسرا ‘‘ پچ کو دیکھتے ہوئے نہیںآزمائیں گے،کپتان عمران کی ٹیم کو پویلین بھیجنا مشکل ہے۔ لیکن بات وہی ہے کہ سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی، پاکستان کی سیاست ، محبوب کے مزاج اور کراچی کے کچرے پر کچھ رائے قائم کرنا  ننگی تاروں کو ہاتھ لگانا ہے، سو رہیے دور دور۔ پھونک پھونک کر قدم رکھنے کا وقت ہے۔ 71سال سراب ، صحرا گردی ، جواں مرگی اور ’’وہ صبح کبھی تو آئیگی‘‘ گنگنانے میں گزرگئی۔

غریب سرپرکالی ہانڈی لیے پھرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔