16دسمبرکا سانحہ: ہمارے دانشور کیا کہتے ہیں؟

تنویر قیصر شاہد  اتوار 15 دسمبر 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

’’مشرقی پاکستان سے جدائی کی یاد کو دل سے جدا کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہاں مجھے جو محبت، پیار اور احترام ملا، ناقابلِ فراموش ہے ۔ مَیں نے مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد تربیت سلہٹ (سابقہ مشرقی پاکستان ، آج بنگلہ دیش)سے حاصل کی تھی۔یہ 1968-69 کی بات ہے ۔

وہاں کی بیوروکریسی میں ہندوؤں نے جس طرح گہرا نفوذ حاصل کررکھا تھا، ہمیں اُسی وقت احساس ہونے لگا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے ۔ مشرقی پاکستان ہماری لیڈر شپ سے ناراض تھا، پاکستان سے ناراض نہیں تھا۔ سچی بات تو یہ بھی ہے کہ ہم نے بنگالیوں سے جو زیادتیاں کیں ، اِنہی کا ردِ عمل 16دسمبر1971ء کو بھیانک شکل میں سامنے آیا ۔

بنگلہ دیش بن گیا اور ہم اشک بہاتے رہ گئے ۔‘‘یہ الفاظ ممتاز دانشور جناب عبداللہ کے ہیں ۔ عبداللہ صاحب خیبر پختونخوا کے سابق چیف سیکریٹری ہیں۔ سولہ دسمبر وہ منحوس دن ہے جب انچاس سال قبل مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہو کر بنگلہ دیش بن گیا تھا۔ قائد اعظم ؒ کی عظیم محنتوں سے معرضِ عمل میں آنے والی دُنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت نصف رہ گئی تھی ۔

عبداللہ صاحب نے اس سانحہ پر گفتگو کرتے ہُوئے فرمایا:’’اس سانحہ کو تقریباً نصف صدی گزر گئی ہے لیکن ہم نے اب تک اپنی تقصیریں تسلیم نہیں کی ہیں ۔ جب تک یہ تقصیریں کھلے دل سے تسلیم نہیں کی جائیں گی، دل مَیلے رہیں گے ۔ تب تک بنگلہ دیشی مسلمان بھائی ہمارے قریب نہیں آئیں گے ۔

’’آپ نے مزید کہا: ’’ ہمیں بھارت کی ہمہ وقت پاکستان دشمنی پر بھی نگاہیں رکھنی ہیں اور بنگلہ دیشی عوام کے پاس براہِ راست محبت کا پیغام بھی لے کر جانا ہے ۔ کسی پارٹی کی طرف جھکے بغیر ۔ ہمیں یہ بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ سانحہ مشرقی پاکستان میں بھارت نے لعنتی کردار ادا کیا تھا ۔ اب ہمیں بنگلہ دیشی بھائیوں کو یہ باور کرانا ہے کہ بھارت آپ کے دکھوں کا مداوا نہیں ہے، اور یہ کہ پاکستان اگر آپ کی خوشیوں میں شریک نہیں ہے تو آپ کے دکھوں میں برابر کا شریک ضرور ہے ۔ یہ محنت مگر کون کرے گا؟‘‘۔

سولہ دسمبر آتا ہے تو پرانے زخموں سے خون رِسنے لگتا ہے ۔افسوس مگر یہ ہے کہ پاکستان توڑنے والے مجرموں میں سے کسی کو قومی سطح پر سزا دی جا سکی نہ کسی کا سخت احتساب کیا جا سکا۔اس سانحہ کے حوالے سے مشہور ماہرِ اقبالیات اور کئی کتابوں کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر صاحب سے میری بات چیت ہُوئی تو انھوں نے کہا:’’ہمیں فکرِ اقبال سے انحراف اور قائد اعظم کے بتائے گئے راستے سے بھٹکنے کی سزا یہ ملی کہ مشرقی پاکستان ، بنگلہ دیش بن گیا۔ سیاسی بات اگر کروں تو یہ کہوں گا کہ ہماری متکبر بیوروکریسی اور فرعون صفت فیوڈل ازم نے پاکستان کو دو لخت کیا ۔

ہم اپنے اصل نظریے سے ہٹ گئے اور نظریہ پاکستان پر کمپرومائز بھی کیا گیا۔نتیجہ پھر یہی نکلنا تھا جو پانچ عشرے قبل 16دسمبر کو نکلا۔ ‘‘ ڈاکٹر ایوب صابر مزید کہتے ہیں:’’ مشرقی پاکستان ہم سے اس لیے بھی علیحدہ ہو گیا کہ پاکستان کے خلاف بھارتی پروپیگنڈے کی لَے اور لہر بہت تیز اور طاقتور تھی۔

اسے کاؤنٹر کرنے کے لیے ہماری طرف سے کوئی قدم نہ اُٹھایا گیا۔ بھارت مگر اب بھی اس حرکت سے رُکا نہیں ہے۔ ہمارے ہر ادارے اور فرد کو چوکس رہ کر پاکستان دشمنی پر مبنی بھارتی منفی پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے جارحانہ طور پر تیار رہنا چاہیے۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ ، جلد یا بدیر، بنگلہ دیش پلٹ کر پاکستان کی طرف آئے گا ، بالکل اُسی طرح جس طرح علامہ اقبال ؒ نے برسوں قبل پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک دن ترکی لَوٹ کر اسلام کی طرف آئے گا۔ اقبال کی یہ پیشگوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہُوئی ہے ۔ ‘‘

یہ درست ہے کہ بھارتی وزیر اعظم، آنجہانی مسز اندرا گاندھی، کے دَور میں مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہو کر ’’بنگلہ دیش‘‘ بن گیا ۔ اندرا گاندھی پاکستان کو توڑنے کا فخریہ کریڈٹ بھی لیتی تھیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ آیا اندرا گاندھی اتنی ذہین اور اتنی عظیم حکمت کار (strategist)  تھیں کہ تنِ تنہا پاکستان کا مشرقی بازو کاٹ دیتیں ؟ پاکستان ٹوٹنے کے عوامل کا گہرا جائزہ لینے والے ماہرین اس کی نفی کرتے ہیں۔ سب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اندرا گاندھی متحدہ پاکستان توڑنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی تھیں اگر انھیں بیک وقت رُوس، امریکا اور اسرائیل کی خفیہ اعانتیں اور امداد حاصل نہ ہوتی ۔منفرد اسلوب کے حامل مصنف اورسابق سفیرِ پاکستان ، افراسیاب ہاشمی ، تو اس موضوع اور نظریے پر ایک ضخیم اور معرکہ خیز کتاب (1971: Facts and Fictions) لکھ چکے ہیں۔

پاکستان کیوں ٹوٹا؟اس موضوع پر پاکستانی دانشوروں، ریٹائرڈ جرنیلوں اور محققین نے اگرچہ زیادہ کتابیں لکھنے کے تکلّفات نہیں کیے ہیں لیکن اس موضوع پر لکھی افراسیاب صاحب کی تصنیف کے مطالعہ سے ہم پر صاف منکشف ہوتا ہے کہ بھارت ہمارے اندر نقب اور سیندھ لگا کر کیسے اپنے گھناؤنے اور مذموم مقاصد میںکامیاب ہُوا۔ اِسی موضوع پر جناب خرم جاہ مراد کی یادداشتوں اور آنکھوں دیکھے اشکبار احوال پر مشتمل تصنیف (’’لمحات‘‘) پڑھنے سے بھی عیاں ہوتا ہے کہ 16دسمبر 1971ء کو بھارت مشرقی پاکستان کوہم سے جدا کرنے میں کیوں کامیاب ہُوا ۔ جناب خرم جاہ مراد مشرقی پاکستان کے آخری ایام میں بدقسمت مشرقی پاکستان ہی میں مقیم تھے ۔ دین کی خدمت بھی کررہے تھے اور انجینئرنگ سے متعلقہ ایک اعلیٰ ملازمت پر بھی فائز تھے ۔

یہ تصنیفات ہمیں یہ درس بھی دیتی ہیں کہ متحدہ پاکستان توڑنے کے بعد بھی پاکستان کے خلاف بھارتی نفرت کی آگ سرد نہیں ہُوئی ہے ۔ وہ اب بھی پاکستان کے خلاف سازشیں کررہا ہے ۔ پانچ سال پہلے عین 16دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول(اے پی ایس) پر دہشت گردوں کا حملہ بھی ہمیں پاکستان کے خلاف بھارتی کارستانیوں کی یاددلاتا ہے کہ ’’اے پی ایس‘‘ پر وحشی حملہ آوروں کے ڈانڈے بھارت سے جاملے تھے۔ اس دہشت گردانہ حملے میں 134 معصوم بچے شہید اور114 زخمی ہُوئے تھے ۔

16دسمبر کی یاد میں یہی بات معروف دانشور ، مصنف اور مولف ، جناب سلیم منصور خالد، بھی کہتے ہیں کہ پاکستان توڑنے میں بنیادی کردار ادا کرنے کے بعد بھی بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ بند نہیں کی ہے ۔ سلیم منصور خالد صاحب مذکورہ بالا کتاب (لمحات) کے مرتب کنندہ بھی ہیں اور مشرقی پاکستان میں جارح بھارت اور بھارتی اعانت یافتہ ’’مکتی باہنی‘‘ کے خلاف اور متحدہ پاکستان کی بقا کی آخری جنگ لڑنے والی طلبا تنظیم ’’البدر‘ ‘ بارے لکھی جانے والی شاہکار کتاب کے مصنف بھی ہیں۔

راقم کے چند سوالات کے جواب دیتے ہُوئے اُن کا کہنا تھا:’’ مشرقی پاکستان کی جس قیادت( شیخ مجیب وغیرہ) نے پاکستان دو لخت کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ، وہ پہلے تو نہیں مانتے تھے کہ بھارت ہر سطح پر اُن کی مدد کررہاہے لیکن جب پاکستان ٹوٹ گیا تو یہی لوگ چھاتی پر ہاتھ مار کر کہنے لگے کہ ہاں، بھارت کی مددسے ہم نے بنگلہ دیش بنایا ہے۔

بھارت اب بھی پاکستان کے خلاف کئی محاذوں پر بروئے کار ہے۔ اُس کے شدید پاکستان مخالف پروپیگنڈے کے توڑ کے لیے ہمیں ہر محاذ پر جنگ کرنا ہوگی۔بنگلہ دیشی عوام تک پاکستان کا محبت بھرا پیغام فوری طور پر پہنچانے کی بھی ضرورت ہے اور ساتھ ہی اُن کے پاس پہنچ کر اُن کے سابقہ دکھوں کا مداوا کرنے کی سبیل بھی نکالنی چاہیے ۔‘‘ سلیم منصور خالد خبردار کرتے ہُوئے کہتے ہیں: ’’اگلے دو تین برسوں میںکئی عالمی قوتوں کی طرف سے پاکستان کے خلاف گھناؤنے پروپیگنڈے کا طوفان آنے والا ہے۔

اگلے سال شیخ مجیب الرحمن کی 100ویں سالگرہ بھی آ رہی ہے اور قیامِ بنگلہ دیش کی 50ویں سالگرہ بھی ۔ ان دونوں مواقعے پر بھارت اور بنگلہ دیش مل کر پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی یلغار کرنے والے ہیں۔ سانحہ 16دسمبر کا ایک پیغام یہ بھی ہے۔‘‘کیا ہمارے متعلقہ اداروں نے اس کے مقابلے کی مطلوبہ تیاری کررکھی ہے۔؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔