جنت میں ملنے کا انتظار نہیں کرسکتی

راضیہ سید  پير 16 دسمبر 2019
سانحہ اے پی ایس کو پانچ سال بیت گئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سانحہ اے پی ایس کو پانچ سال بیت گئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’ میرے پیارے بچے! اس خط کو لکھنے کا مقصد صرف یہی بتانا نہیں کہ تم مجھے کتنے عزیز ہو، بلکہ اس بات سے بھی آگاہ کرنا ہے کہ تم میرے دل میں بستے ہو۔ تمہاری یادیں میرے وجود کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ تمہاری خوشبو مجھے اپنے اردگرد محسوس ہوتی ہے۔

میرے معصوم فرشتے! اگرچہ تم ابھی بہت چھوٹے ہو کہ ایک ماں کا دکھ درد محسوس کرسکو، لیکن مجھے یہ یقین ہے کہ تم جنت سے میرے ان بہتے ہوئے آنسوؤں کو دیکھ رہے ہوگے۔ تم میرے اشکوں کو روکنا چاہتے ہوگے۔ لیکن اللہ کی یہی مرضی ہے کہ تم ہم تک آ نہیں سکتے۔

دسمبر کا مہینہ جیسے ہی شروع ہوتا ہے تو میرا دل گھبرانے لگتا ہے، جیسے میں ایک بے چین پرندے کی طرح قفس میں ہوں۔ اسی ماہ تو میں نے تمھیں کھو دیا تھا۔ اب تو تمہاری معصومیت، تمہاری ہنسی سب ہی ہم سے روٹھ گئی ہے۔

تم تو بہت کمسن تھے۔ ہمارے خاندان کا ایک اثاثہ، ہماری زندگیوں میں ایک روشن چراغ اور خاص طور پر میرا، یعنی اپنی ماں کی روح کا قرار تھے۔ میں نے تمھیں اس لیے تو اتنی منتوں مرادوں سے نہیں پالا تھا کہ تمہاری لاش وصول کروں، تمہارا خون آلودہ یونیفارم اور کتابیں دیکھوں۔

16 دسمبر کو میں نے تمہارے لیے ناشتہ بنایا اور تم خوش خوش اسکول بھی گئے۔ لیکن یہ کون جانتا تھا کہ یہ تمہاری زندگی کا آخری ناشتہ ہوگا؟ 16 دسمبر تو ایک معمول کا دن تھا، لیکن ہمارے لیے تو وہ یوم سیاہ ثابت ہوا کہ تم ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ کبھی جو میں سوچتی ہوں تو میرا رواں رواں کانپ اٹھتا ہے کہ تم نے کس طرح ان سفاک انسانوں کی گولیوں کا سامنا کیا ہوگا، جنہوں نے تمہارے ہم جماعتوں، اساتذہ کو اور تمہیں شہید کردیا۔ ہم نے تو بہت سوچ بچار کے بعد نہایت محفوظ علاقے میں واقع اسکول میں تمہارا داخلہ کروایا تھا، لیکن وہاں بھی دہشتگرد آگئے۔ کیا ان دہشتگردوں کے اپنے بچے نہ تھے یا وہ ہماری زندگیوں میں تمہاری قدروقیمت سے آگاہ نہ تھے؟

میں تو اپنے ملک کے تحفظ فراہم کرنے والے اداروں سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ ملک میں امن و امان کے قیام کے اتنے دعوے کیے جاتے ہیں اور اگر ملک محفوظ ہے تو تمہارے اسکول کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟

پھر پتہ چلا کہ سپریم کورٹ نے تمہاری شہادت کی تحقیقات کےلیے ایک آزادانہ کیمشن بھی بنایا۔ حکومت نے نیشنل پلان آف ایکشن بھی ترتیب دیا۔ اس سانحے کے بعد ’’آپریشن ضرب عضب‘‘ بھی شروع ہوا۔ فوجی عدالتیں بنا کر کئی مجرموں کو پھانسی بھی دی گئی۔ لیکن کمیشن کی رپورٹ کےلیے تو میں اور تمہارے دوستوں کے ماں باپ اب تک منتظر ہیں۔ ہمیں تسلیاں نہیں چاہئیں، ہمیں تو عملی اقدامات چاہئیں۔

میرے ننھے شہزادے! میں تو تمھیں بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں کہ میرا سب پیار، میرے الفاظ، میرا وجود اور میری محبت صرف اپنے اس بچے کےلیے ہے جسے کوئی ڈانٹ دیتا تھا یا گھر میں بہن بھائیوں سے لڑائی ہوجاتی تھی تو میری گود میں چھپ جاتا تھا۔ لیکن کیا کروں ایک بے بس ماں اب تمہارے بن کیا کرسکتی ہے سوائے رونے کے، آنسو بہانے کے، تمہاری یادوں کو محسوس کرنے کے، کھانے کی ٹیبل پر تمہارے پسند کے کھانے بناکر انتظار کرنے کے۔

میرے بچے میں تو بہت سی باتیں لکھنا چاہتی ہوں۔ اپنا سب درد ان کاغذوں پر منتقل کرنا چاہتی ہوں۔ لیکن کیا تم نے دیکھا نہیں کہ میرے اشکوں سے میرا رائٹنگ پیڈ تر ہوکر الفاظ دھندلا رہے ہیں۔ بس تم جلدی آجاؤ میرے بچے! میں تم سے جنت میں ملنے کےلیے موت تک انتظار نہیں کرسکتی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔