وزیروں کی تذکیر وتانیث کا مسئلہ

سعد اللہ جان برق  منگل 17 دسمبر 2019
barq@email.com

[email protected]

آپ کو تو پتہ ہے کہ ہماری مادری وپدری زبان پشتو ہے اور اردو لکھنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے خاص طور پر تذکیر وتانیث کے معاملے میں تو اردو زبان کا نظام ہمارے بالکل الٹ ہے چنانچہ اکثر ہم اس شش وپنج میں رہتے ہیں کہ کس لفظ کو کیا باندھیں۔ اب یہ جو جدید دور میں وزیر مشیر معاون اور منتخب نمایندوں کا مسئلہ ہے جس میں آدھے مذکرات ہیں اور آدھی مونثات ہیں۔

مجبوری یہ ہے کہ کالم نگاری کے لیے ان کا ذکر اذکار بھی ناگزیر ہے ’’وزیر‘‘کو تو ہم وزیر لکھ دیتے ہیں لیکن جب وزیراؤں کا ذکر آتاہے تو حیص بیص میں پڑجاتے ہیں کہ وزیری لکھیں وزیرن لکھیں یا وزیرہ لکھیں۔ہم اہل زبان تو ہیں نہیں کہ جو کچھ بھی لکھیں، مقبول ہوگا۔ آوٹ سائیڈر ہیں اور آوٹ سائیڈر اتھارٹی توہوتے نہیں۔ اسی طرح مشیروں اور مشیراؤں یا معاونوں اور معاوناوں بلکہ منتخب نمایندوں اور نماینداوں کے سلسلے میں پرابلم پیدا ہوتی رہتی ہے۔ ان میں چلیے ہم محترمہ زرتاج گل کو ’’وزیرہ‘‘ اس لیے لکھ سکتے ہیں کہ وہ پہلے ہی سے وزیرستان کی وزیرہ ہیں۔

’’وزیرستان‘‘ہمارا مطلب اصل وزیرستان ہے، یہ وزیرستان نہیں جو عارضی وزیروں کی وجہ سے ’’وزیرستان‘‘ کے نام سے مشہور ہے لیکن باقی کی وزیراؤں مشیراوں اور معاوناوں کو کیا لکھیں گے؟یہی ہمارا اصل مسئلہ ہے۔ اصولی طور پر تذکیر وتانیث کا سلسلہ یہ ہے کہ ’’مذکر‘‘  کے ساتھ(م)یا (ن) یا(ہ) لگاکر مونث بنائی جاتی ہے جیسے بیگ سے بیگم، خان سے خانم۔دھوبی سے دھوبن، درزی سے درزن، مالک سے مالکن،ٹھاکر سے ٹھکرائن،چوہدری سے چوہدرائین یا چوہدرانی،  حاجی،حاجن،نمازی سے نمازن روزہ دار سے روزہ دارن،علامہ سے علامن۔ یا وزیر سے وزیرا، مشیر سے مشیرا، افسر سے افسرا،صاحب سے صاحبہ، وغیرہ۔لیکن ڈرتے بھی ہیں کہ اگر زرتاج کو وزیرا لکھ دیاتو ٹھیک ہے، ورنہ وزیرن توہے ہی، برا نہیں مانے گی۔

لیکن اگرشیرین مزاری کو وزیرن یا وزیرہ اور فردوس عاشق اعوان کو مشیرہ یا مشیرن لکھا تو۔کہیں برا نہ مان جائیں۔اس سلسلے میں علماء نے مونث ومذکر کی پہچان کے لیے ایک کلیہ بنایاہے لیکن وہ صرف حیوانات پرمنطبق ہوتاہے مثلاً کسی پرندے میں مذکر مونث معلوم کرنا ہو تو اس کے آگے دانہ ڈال دو۔ اگر وہ چگنے ’’لگی‘‘تو مونث اور اگرچگنے’’ لگا‘‘تو مذکر۔اسی طرح جانور کو گھاس میں چرنے چھوڑدیں۔اگرچرنے ’’لگا‘‘  تومذکر۔  چرنے لگی تو مونث۔ یہاں تک کہ بلی کے آگے گوشت یا دودھ رکھنے سے بھی اس کی جنس معلوم ہوسکتی ہے۔

گوشت کھانے لگی تو مونث اور کھانے لگا تو مذکر یعنی پینے ’’ لگا،لگی‘‘بھی ایک طریقہ ہے مذکر مونث معلوم کرنے کا۔عام انسانوں میں بھی ہم یہ طریقہ شناخت استعمال کرسکتے ہیں لیکن یہاں وزیر مشیروں معاونوں وغیرہ کے توہم قریب بھی نہیں جاسکتے تو ان کے چرنے، چگنے اور کھانے پینے سے ’’لگالگی‘‘کا فرق کیسے معلوم کرسکتے ہیں۔ اگر معلوم بھی ہو کہ وزیر مذکر ہے یا مونث ہے لیکن دونوں الفاظ کو مذکر مونث کیسے بنائیں گے اور اگر بنائیں بھی تو کیا ہمارے بنائے ہوئے الفاظ مانے جائیں گے یا نہیں کیونکہ ہم اہل زبان نہیں آوٹ سائیڈر ہیں اور ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اردو کی تعمیر میں ان ہی آوٹ سائیڈروں کا کردار سب سے اہم ہے۔ جوش ملیح آبادی جو اردو کی ڈکشنری تھے آفریدی تھے۔

علی برادران یوسف زئی تھے۔ تاجور نجیب آبادی شیرانی باپ بیٹا نیازفتح پوری بھی آوٹ سائیڈر تھے۔لیکن اگریہ کہا تو اہل زبان فوراً برا مان کرکہیں گے کہ اتنے سے ہوکر بزرگوں سے زبان لڑاتے ہو حالانکہ یہ بات ہی زبان لڑانے کی ہے۔ ہمارے ساتھ بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دو ایسی کشتیوں کے سوار ہیں جو مخالف سمت جار رہی ہیں۔

پشتو نہایت ہی ’’مذکرپسند ‘‘زبان ہے۔ اس میں بعض اوقات لڑکی، عورت اور نانی دادی کو بھی مذکر کردیا جاتاہے خاص طور پر جنوب یعنی کوہاٹ اور اس سے آگے تو اچھی خاصی مونث کو بھی پگڑی پہناکر’’دہ‘‘کے بجائے ’’دے‘‘ کردیا جاتاہے،ہوتا ہوتی کا قصہ تو الگ ہے، مطلب یہ کہ مذکرپسندی کا رجحان پشتو میں بہت زیادہ بلکہ زیادہ ترین ہے۔ادھر اردو ہے جس میں اور تو اور ’’تذکیر‘‘ کوبھی مونث باندھا جاتاہے۔ ’’مردانگی‘‘ تک مونث ہے۔ اولاد اورآدمیت انسانیت، ہمت، جنگ، لڑائی یہاں تک کہ ’’موت‘‘کوبھی دوپٹہ پہنا دیاجاتاہے، یہ کہہ کر

موت بھی اس لیے گوارا ہے

موت آتا نہیں ہے آتی ہے

ٹھیک ہے، عورتوں کی موت اگر مونث ہو توکوئی بات نہیں لیکن بڑے بڑے جغادری بھی موت کو آتا ہوا نہیں بلکہ ’’آتی‘‘ہوئی پسند کرتے ہیں۔ اگر موت مذکر ہوتا تو شاید یہ لوگ مرنے ہی سے انکار کردیتے۔اس اونیچ نیچ پر ایک تاریخی مکالمہ بھی ہے۔ باچاخان جب ہند کے کسی مقام پرتقریرکررہے تھے تو اردو ہی میں ’’قوم‘‘کو مذکر بولتے تھے۔

میرا قوم،آپ کا قوم۔اس پر وہاں کے زبان دانوں نے سمجھایا کہ قوم اردو میں مونث ہوتی ہے۔ باچاخان نے کہا، آپ کی قوم مونث ہوگی، میرا قوم مذکر ہوتاہے۔بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی، مسئلہ صرف ہمارا اپنے کالموں کاہے کہ ہم وزیروں کی مونث کو کیا لکھیں کہ آپشن بھی تین ہیں۔ بیگ، بیگم ،خان خانم کی طرح ’’وزیرم‘‘ لکھیں۔ مالک مالکن دھوبی دھوبن کی طرح وزیرن مشیرن معاونن۔یا ٹھاکر ٹھکرائن حاجن حجائن کی طرح وزیرائن مشیرائن لکھیں یا امیر امیرہ کی طرح وزیر وزیرہ مشیر مشیرہ۔سفیر سفیرہ لکھیں گے۔آوٹ سائیڈجو ہیں خاص طور پر خان کی خانم سے تو ہمارا بہت زیادہ واسطہ رہتاہے، خانوں کے زیرسایہ جو رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔