مصر، اخوان المسلمون کی 22 خواتین گرفتار، مرسی کی پیشی پر مظاہروں کا اعلان

اے ایف پی / رائٹرز / آن لائن  ہفتہ 2 نومبر 2013
کالعدم گروپوں کا رکن ہونے اور مظاہروں کے دوران ٹریفک میں خلل ڈالنے کے الزامات میں حراست میں لیا گیا ہے۔ فوٹو: رائٹرز/فائل

کالعدم گروپوں کا رکن ہونے اور مظاہروں کے دوران ٹریفک میں خلل ڈالنے کے الزامات میں حراست میں لیا گیا ہے۔ فوٹو: رائٹرز/فائل

قاہرہ: مصر میں حکومت اور سابق صدر کے حامیوں میں کشیدگی جاری ہے، اخوان المسلمون کی 22 خواتین کو گرفتار کرلیا گیا۔

حکام کے مطابق ان خواتین کو غیر قانونی پمفلٹ تقسیم کرنے، کالعدم گروپوں کا رکن ہونے اور مظاہروں کے دوران ٹریفک میں خلل ڈالنے کے الزامات میں حراست میں لیا گیا ہے۔ ان خواتین کی عمریں 15سے 25 سال کے درمیان بتائی گئی ہیں۔ قبل ازیں اخوان کے صرف مرد کارکنوں ہی کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں اور شاذ و نادر ہی خواتین کو گرفتار کیا گیا‘ اب اتنی بڑی تعداد میں عورتوں کی گرفتاری کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ ادھر 4 نومبر کو سابق معزول صدر محمد مرسی کو عدالت کے رو برو پیش کیا جائیگا اوراسی روز اخوان المسلمون نے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کی کال دیدی ہے ۔ادھر امریکی وزیر خارجہ  جان کیری ایسے حالات میں کل اتوار3 نومبر کو مصر کے دورے پر قاہرہ پہنچ رہے ہیں ۔  نماز جمعہ کے بعد کئی شہروں میں مرسی کی حمایت میں مظاہرے بھی کیے گئے جن میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی۔

اسکندریہ میں مظاہرے کے دوران مقامی لوگ بھی گھروں سے نکل آئے اور احتجاج کرنے والے اخوان المسلمون کے کارکنوں سے جھگڑ پڑے جس کے نتیجے میں 7 افراد زخمی ہوگئے۔ قاہرہ کے ضلع جسر السویز میں مرسی کے حامی اور مخالفین لڑ پڑے جس دوران فورسز نے اخوان کے 13 کارکنوں کو گرفتار کرلیا۔  دوسری طرف پرسوں پیر کے روز 4 نومبر کو سابق معزول صدر محمد مرسی کو عدالت کے روبرو پیش کیا جا رہا ہے۔ قاہرہ سے موصولہ رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے جرمن خبر رساں ایجنسی نے بتایا ہے کہ 3 جولائی کے بعد پہلی مرتبہ محمد مرسی پیر کو اس وقت عوامی منظرنامے پر دیکھے جا سکیں گے جب انہیں عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ اسلام پسند محمد مرسی اور ان کی حامی اخوان المسلمون کے 14 ارکان پر الزام عائد ہے کہ انھوں نے لوگوں کو تشدد پر اکسایا تھا جس کے نتیجے میں 2012ء  میں اپوزیشن کے10حامی مارے گئے تھے۔ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ مرسی کیخلاف مقدمہ کس مقام پر چلایا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔