چئیرمین نیب گرفتاری کے اختیار کا بے دریغ استعمال نہیں کرسکتے، اسلام آباد ہائیکورٹ

ویب ڈیسک  منگل 17 دسمبر 2019
کسی شخص کو گرفتار کرنے کے لیے بہت مضبوط جواز ہونا ضروری ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ (فوٹو: فائل)

کسی شخص کو گرفتار کرنے کے لیے بہت مضبوط جواز ہونا ضروری ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ (فوٹو: فائل)

 اسلام آباد: ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ چئیرمین نیب گرفتاری کے اختیار کا بے دریغ استعمال نہیں کرسکتا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل خصوصی بنچ نے فریال تالپور کی ضمانت منظوری کا پانچ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

فیصلے کے مطابق نیب پراسیکیوٹر فریال تالپور کی گرفتاری کا جواز نہیں بتاسکے، تفتشیی افسر کے مطابق  ایف آئی آر کے مطابق زرداری گروپ کے تمام ڈائریکٹرز کو گرفتار نہیں کیا گیا، نیب بتا نہیں سکا کہ فریال تالپور کا کیس باقی ڈائریکٹرز سے مختلف کیسے ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ رپورٹ سے واضح ہوتا ہے یہ ایسا کیس نہیں تھا جس میں فریال تالپور کو نیب گرفتار کرتا، فریال تالپور کے کیس میں گرفتاری کی ایسی کوئی ٹھوس وجوہات نہ بتائی جا سکیں، تفتیشی افسر نہیں بتاسکے کہ گرفتاری کے لیے صرف فریال تالپور کا انتخاب کیوں کیا؟ زرداری گروپ کے ڈیکلئیرڈ اکاؤنٹس کو جعلی اکاؤنٹ نہیں کہا جا سکتا، جعلی اکاؤنٹ کے علاوہ بھی دیگر اکاؤنٹس سے کمپنی اکاؤنٹ میں ٹرانزیکشن ہوئیں، تفتشیی افسر جعلی اکاؤنٹ سے فریال تالپور کے مجرمانہ تعلق پر مطمئن نہیں کرسکے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے قرار دیا ہے کہ چئیرمین نیب گرفتاری کے اختیار کا بے دریغ استعمال نہیں کرسکتا، کسی شخص کو گرفتار کرنے کے لیے بہت مضبوط جواز ہونا ضروری ہے، وائٹ کالر کرائم میں تفتیش کا انحصار دستاویزی شواہد پر ہی ہوتا ہے، گرفتاری صرف اس وقت ہو سکتی ہے جب کسی کو بنیادی آئینی حقوق سے محروم کیے بغیر تفتیش آگے نہ بڑھ رہی ہو، جب تک کسی پر جرم ثابت نہ ہو اسے معصوم ہی سمجھا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔