غیر معمولی عدالتی فیصلے

ایڈیٹوریل  بدھ 18 دسمبر 2019
زمینی حقائق اورآئینی حساسیت سے متعلق مسائل اور ایشوز سے لاعلمی اور بے خبری کا برفانی تودہ جسد سیاست پراچانک گرپڑا ہے۔ فوٹو:فائل

زمینی حقائق اورآئینی حساسیت سے متعلق مسائل اور ایشوز سے لاعلمی اور بے خبری کا برفانی تودہ جسد سیاست پراچانک گرپڑا ہے۔ فوٹو:فائل

پاکستان اپنی آئینی اور سیاسی تاریخ کے اہم دوراہے پر آیا ہے، ملکی حالات نے زبردست کروٹ بدلی ہے، دو دن میں دو اہم اور غیر معمولی عدالتی فیصلوں نے قوم کے اعصاب جھنجوڑکر رکھ دیے ہیں، ملک کے فہمیدہ حلقے  حالات کی تپش کو شدت سے محسوس کر رہے ہیں اور انتہائی پریشان ہیں۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاست ، پارلیمان ، قومی سلامتی کے امور، سماجی رویوں اور طرز حکمرانی نے ایک جھرجھری سی لی ہے، سب ایک خواب سے بیدار ہوئے ہیں،ایسا لگتا ہے کچھ انہونی ہوگئی ہے، انتہائی حساس معاملات پر نئے سرے سے بحث و مباحثے کا سلسلہ شروع ہورہا ہے۔

زمینی حقائق اورآئینی حساسیت سے متعلق مسائل اور ایشوز سے لاعلمی اور بے خبری کا برفانی تودہ جسد سیاست پر اچانک گر پڑا ہے،  جب کہ عدالتی فیصلوں اور اس پرپاک فوج کے ردعمل نے حالات کی سنگینی کا اشارہ دیا ہے ، اُدھر بے سمت سیاست دانوں کو ایک بھونچال اور چنگھاڑ نے ششدرکر دیا ہے، میڈیا میں یہ انتہائی حساس موضوعات پر بحث ہونے لگی ہے۔

عدلیہ نے بلاشبہ اہم فیصلے دیے ہیں ،لیکن ملکی حالات اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا بھی فاضل جج صاحبان کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ پاک فوج کے سابق سپہ سالار کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیکر سزائے موت سنانا، کوئی معمولی بات نہیں ہے، اس پر پاک فوج کا ردعمل فطری ہے، اب ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے دو ادارے آمنے سامنے آ گئے ہیں جو کسی صورت میں ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ اگر دیکھا جائے تو قومی زندگی میں ان دو عدالتی فیصلوںکے اثرات ومضمرات انتہائی دور رس بلکہ خطرناک نوعیت کے ہو سکتے ہیں۔ وطن عزیز جس قسم کے خطرات اور چیلنجز سے دوچار ہے۔

ان سے پاک فوج اور عزت مآب جج صاحبان یقینی طور پر پوری طرح آگاہ ہیں، دشمن طاقتیں پاکستان کی وحدت کے درپے ہیں اور ان کی یہ کوشش ہے کہ کسی طرح پاکستان کے معتبر اور قابل عزت اداروں کو باہم دست و گریبان کر کے، ان کی بے توقیری کی جائے۔پاکستان کے خلاف دشمن کی سازشوں کو ہی ففتھ جنریشن وار کہا جاتا ہے۔کسی بھی ریاست کو متحد رکھنے کی ذمے دار اس کی فوج ہوتی ہے، فوج ہے تو ریاست قائم ہے، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں القاعدہ اور طالبان کا کتنا بڑا خطرہ درپیش تھا، اس خطرے کو پاک فوج کے سوا کوئی شکست نہیں دے سکتا تھا بلکہ دیکھا جائے تو بعض جج صاحبان بھی دہشت گردوں کا کیس سننے سے انکاری تھے۔

ایسے حالات میں اگر عدلیہ کو پاک فوج کی سپورٹ نہ ہوتی تو وہ کبھی جرأت مندانہ فیصلے نہ دے سکتی، اس لیے قومیں اپنی افواج کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتی ہیں، بہرحال جس طرح فوج ریاست کو اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے بچانے کا فریضہ ادا کرتی ہے، اسی طرح عدلیہ بھی کسی ریاست کا ایسا ستون ہے کہ اگر یہ ستون گر جائے تو ریاست میں بے انصافی کا دور دورہ ہو جائے اور معاشرہ طاقتوروں اور جرائم پیشہ گروہوں کے زیرنگیں ہو جائے، اس لیے عدلیہ کو آزاد رکھنے کا عہد بھی ریاست ہی کرتی ہے۔

ہمیں ملک اور خطے کودرپیش خطرات وہولناک حقائق کی روشنی میں سیاسی بحرانوں ، ملکی معیشت کی دگرگوں صورتحال ،آئینی معاملات ، سیاسی تناؤ ، سیکیورٹی کے چیلنجز ، جمہوریت کے سفرکو درپیش مشکلات کا ادراک کرنا چاہیے، ملک ایک غیر معمولی تبدیلی اور اس کے سنگین اثرات  سے دوچار ہے، صورتحال چشم کشا ہے۔ خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کو سزائے موت کو حکم سنا دیا ہے۔ خصوصی عدالت کے 3رکنی بنچ نے دو ایک کی اکثریت سے یہ فیصلہ دیا  جب کہ ایک جج نے اس پر اختلاف کیا، یاد رہے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس نومبر 2013 میں سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن نے درج کرایا تھا۔

اس فیصلے پر سابق صدر کے وکلاء حضرات مطمئن نہیں ہیں، ان کا موقف ہے کہ پرویز مشرف کو سنا ہی نہیں گیا تو ان کے خلاف فیصلہ نہیں دیا جا سکتا، اسی دوران پاک فوج نے اس فیصلے کے حوالے سے اپنا شدید ردعمل ظاہر کیا ہے، قبل ازیں سپریم کورٹ نے پیرکو آرمی چیف توسیع کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی کہ پارلیمنٹ میں سادہ قانون سازی (ایکٹ آف پارلیمنٹ) کے ذریعے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی مدت کا تعین کرے۔

اس فیصلے پر بھی فہمیدہ حلقے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ ایک روایت کو قانون کا درجہ دیا جانا چاہیے، حقیقت یہ ہے کہ ملکی سیاست اور ادارہ جاتی اختیارات  شتر بے مہار ہو رہے ہیں، بے سمتی اور محاذ آرائی کی کوئی حد ہی نہیں رہی، عدالتی فیصلوں سے سب کو اندازہ ہوا ہے کہ آئین میں ابہام وسقوم کی نشاندہی ہوئی، ماضی میں اعلیٰ عدلیہ نے آمریت کے حق میں فیصلے بھی دیے ہیں ،اس جانب بھی نظر ڈالی جانی چاہیے۔

ملک آج جس حالت کو پہنچا، اس میں کسی ایک ادارے کو کلی طور پر ذمے دار قرار نہیں دیا جا سکتا، ویسے بھی یہ نقطہ بھی قابل غور ہونا چاہیے کہ کیا منقسم فیصلے میں کسی مجرم کو کیپٹل پنشمنٹ دینا انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ عدالتی فیصلوں پر ہم کچھ نہیں کہیں گے، البتہ یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ اس وقت عدلیہ اور فوج آمنے سامنے آ گئے ہیں اور یہ صورتحال ملک و قوم کے لیے کسی طرح بھی درست نہیں ہے، ہمارے پارلیمنٹیرینز نے حالیہ بحران کے قابل قبول حل تک پہنچنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ حکومتی قانونی ٹیم اور پارلیمنٹیرینز حالات کو مثبت سمت میں لے جانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

اگر ہمارے پارلیمنٹیرینز تدبر، زیرکی اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتے تو شاید آج حالات مختلف ہوتے اور ملک کے دو ریاستی ستون آمنے سامنے نہ آتے۔ بہرحال ہم سب کے لیے ملک کی سلامتی عزیز ہونی چاہیے، شخصیات آتی جاتی رہتی ہیں  جب کہ ادارے قائم رہتے ہیں، خاکم بدہن اگر اداروں میں چپقلش اور تصادم شروع ہو جائے تو ریاست کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے اور پاکستان کا دشمن یہی چاہتا ہے، لہٰذا وقت کا تقاضا اور ضرورت یہ ہے کہ دشمن کے عزائم کو شکست دی جائے، ہوش مندی اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا جائے،  پاکستان کے خلاف دشمن ففتھ جنریشن وار لڑ رہا ہے، طاقتور اداروں کو دشمن کی چالوں کو سمجھنا چاہیے۔

یہ حقیقت ہے کہ پاک فوج پاکستان کی بقا اور سلامتی کی ضمانت ہے، دشمن طاق لگائے بیٹھا ہے، اس کی کوشش ہے کہ پاک فوج کو نقصان پہنچایا جائے، اگرخدانخواستہ  پاک فوج کو نقصان پہنچا تو پھر اس ملک کا مستقبل کیا ہو گا،اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے، ہم سب کو حقائق کی دنیا میں رہنا چاہیے،  پاک فوج اور عدلیہ پاکستان کی عزت و شان ہیں، ان کے درمیان کسی قسم کی غلط فہمی یا محاذ آرائی اس ریاست کے مستقبل کو تاریک کر سکتی ہے، حالات کا تقاضا یہ ہے کہ انصاف کرتے ہوئے بھی ملک اور قوم کی بقا اور سلامتی کے سوال کو مدنظر رکھا جانا چاہیے، یہی وقت کا تقاضا اور شاید تاریخ کا سبق بھی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔