وکیل اور وکلاء گردی

جاوید قاضی  بدھ 18 دسمبر 2019
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

پی آئی سی کے واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن یہ واقعہ پیش ہی کیوں آیا اورکیسے ؟ یہ جاننا بھی ضروری ہے ورنہ ہم اس حقیقت تک نہیں پہنچ پائیں گے جس کا جاننا ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ ’’کچھ تم نے بد نام کیا، کچھ آگ لگائی لوگوں نے‘‘ کہیں ایسا تو نہیں اس آدھی حقیقت اور آدھا فسانے کے پیچھے کہیں کوئی اور اپنا کوئی کام نہ کر رہا ہو۔

میرا دل نہیں مانتا کہ یہ کام کالے کوٹ پہننے والے کرسکتے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ کام کالے کوٹ  پہننے والوں نے ہی کیا ہے، تمام میڈیا فوٹیجز خود اپنا بیاں ہیں۔ یہ بھی صحیح کہ ان کو اکسایا گیا ، ڈاکٹرز صاحبان کا رویہ غلط تھا جب صلح ہوگئی تھی دو چار معززین بیچ میں بیٹھے بھی تھے تو پھر یہ معاملہ دوبارہ کیوں؟ اور اگرہوا بھی تو یہ کون سا طریقہ تھا ، حد سے گذر جانے کا اور ایسا کالا ٹیکہ کالے کوٹ پر لگانے کا کہ آج ہم سب کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔

بہت سے شعبوں کی طرح وکلاء و بار بھی ایک شعبہ ہے ، ان سے ہم بھی وابستہ ہیں ہم میں سے کچھ لوگ یہ شعبہ بحیثیت پروفیشن چنتے ہیں، جس طرح کوئی ڈاکٹر ، انجینئراستاد یا فوج کو ایک پیشے کی صورت میں لیتا ہے۔ جہاں ہرچیزکا معیارگرا ہے، وہاں وکلاء کے پیشے بھی بہت مضر اثرات ثابت ہوئے ہیں۔

مجموعی طور پر یہ عکس تھا، ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے تشدد violence  کا۔ اور یہ تب ہوتا ہے جب سماج میں بے راہروی پائی جاتی ہو، معیشت میں مندی ہو، سیاست میں انتہا پرست رویے ہوں ، ابلاغ عام پر ایسے بیانات لیڈروں کی طرف سے آرہے ہوں جن کو کسی بھی طرح مہذب معاشرے کا عکاس نہیں سمجھا جاسکتا۔ جب ہر طرف ٹکراؤ وہیجان کی کیفیت ہو۔ شہری کو اٹھا لیا جائے اور اس کو عدالت میں پیش کیا نہ جائے۔

اقلیتوں کے ساتھ ظلم برپا ہو، خواتین کے حقوق کی پامالی ہو۔ عام آدمی کے لیے نہ اسپتال ہو نہ پینے کا صاف پانی ہونہ سیوریج سسٹم ہو اور نہ اسپتالیں۔ تو پھر violence  اور  Intolerance  بڑھ جاتی ہے، مگر پی آئی سی کا واقعہ ان تمام واقعات کو پیچھے چھوڑگیا جو روزانہ ہماری نظروں سے گذرتے ہیں، جس طرح اسلام آباد میں دو طلباء گروپوں میں تصادم ہوا اور ایک طالب علم جاں بحق ہوا۔

اس میں ریاستی بیانیہ بھی اپنا کام کرتا ہے جو ہماری شرفاء نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بنایا ہوا ہے۔ آج کل غیر اعلانیہ سنسر شپ بھی ہے۔ ہماری تاریخ جو ریاستی سطح پر بچوں کو اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے یا وہ سبق پڑھتے ہیں خود اس میں بھی غلط بیانی violence ہی سکھایا اور پڑھایا جاتا ہے۔

میں نے دیکھا کہ کالے کوٹوں میں جو وکلاء حضرات پی آئی سی پر حملہ آور تھے کم عمر اور نوجوان تھے، بہت سوں کے محبوب لیڈر خود ہمارے وزیر اعظم ہی تھے اور بہت سے کسی اور جما عت سے بھی وابستہ ہوں مگر مجموعی حوالے سے یہ سب بحیثیت وکیل تمام سیاسی اختلافات سے بالائے طاق تھے۔

جو اہم چیز دیکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم ،  معاشرہ ، ریاست اور سیاست کس جانب بڑھ رہے ہیں اور اگر یہ معاملات اسی طرح سے چلانے ہیں، عوامی رائے کا احترام نہیں کرنا اور جو لیڈر صاحبان یا شرفاء ہیں وہ صف بندی میں ، جمہوری قوت کہلاتی ہو یا غیر جمہوری قوت سب مل کر خزانے کو ہی بے راہ روی کے ساتھ کھاتے رہے ہیں۔

ہر ایک کو درباریوں کا ٹولا چاہیے جو جی حضوری کرتا رہے اور اپنا حصہ لیتا رہے اور سب کے سب شرفاء حضرات کا لینڈ مافیا کے ساتھ تعلق ہو۔کوئی یہاں شوگر مافیا ہے جوگنے کی قیمت دبائے بیٹھی ہے اورکوئی ڈرگ مافیا ہے جب دواؤں کی قیمت شوٹ کر جاتی ہیں ، تو لوگ جو ڈاکٹر ہیں ان کو بھی کمیشن دیتے ہیں کہ وہ ان کی دوائیاں بیچیں ، یہاں کنزیومرکا کوئی پرسان حال نہیں۔ یہی کمپنیاں جو یہاں گاڑیاں بناتی ہیں وہ ہندوستان میں قدرے سستی بیچتی ہیں اور یہاں اس قدر مہنگی کیوں؟

جتنی غیر معیاری چیزیں ہم پاکستانی استعمال کرتے ہیں شاید دنیا میں کوئی کرتا ہوگا او پھر سونے پرسہاگا ہے وہ قانون سازی کا عمل ہے وہ کون کرتا ہے یہی شرفاء ہیں اول تو پارلیمان میں لوگ عوام کے حقیقی نمایندے نہیں ہوتے یا جنھوں نے حکومت بنائی ہوئی ہوتی ہے ، وہ شفاف انتخابات کے ذریعے جیت کر نہیں آتے اور جو آتے بھی ہیں وہ کروڑوں روپے الیکشن پر خرچ کرکے اسمبلی تک پہنچتے ہیں۔

ستر سال کی تاریخ میں مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو یہی چند مخصوص خاندان ہی آتے ہیں جو پارٹی اقتدار میں آتی ہے، یہ اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ آمریت ہو یا جمہوریت دونوں ادوار میں اپنے کام نکال جاتے ہیں، جو قانون سازیConsumer  کو تحفظ اور عوام کے فلاح کے لیے ہو وہ یہ نہیں کر پاتے۔

تو پھر قبیلے، پنچایت ، جرگے کیوں نہ بنیں جب ریاست تحفظ نہ دے سکتی ہو تو بھی سب سردارکی طرف لوٹتے ہیں۔ تو پھر اس صورت حال میں بار اور وکلاء بھی اپنا لوہا منوانے کے لیے اسی کلچر کا شکار ہوجاتے ہیں ، چونکہ وہ آسمانی مخلوق تو ہوتے نہیں ہم میں سے ہوتے ہیں۔

لیکن یہ زیادتی ہوگی اگر ان چند بار وکلا کی خاطر سارے شعبے کو ہی برا بھلا کہیں کچھ ڈاکٹر صاحبان کی وجہ سے سب ڈاکٹروں کو برا کہیں اور اگر آپ دیکھیں ان تمام شعبوں میں اگر آمریت کے خلاف کوئی ہر اول دستہ بن کے کھڑا ہوا تو یہی وکلاء تھے۔ ان میں آپس میں کتنی بھی مختلف سیاسی سوچ ہو، لیکن یہ سب آئین کی پاسداری پر اس کی بالا دستی پر بھرپور یقین بھی رکھتے ہیں ، ان تحریکوں میں جمہوریت پرست قوتوں کے ساتھ شانہ بشانہ چلی بھی ہیں۔

یہ کون تھے جنھوں نے جنرل مشرف کو اقتدار چھوڑنے پر مجبورکیا۔ اس میں تو بار اور بینچ ایک ساتھ کھڑے ہوگئے۔ ہمارے جج صاحبان کوگھروں میں  محصورکر دیا گیا۔ یقینا ہر شعور رکھتا شہری چاہے گا کہ وہ جمہوریت پر لگے ہوئے اس ڈاکہ زنی میں اپنا کردار ادا کرے ۔ وہ چاہے انجینئرہوں یا ڈاکٹرز ہوں مگر وکلاء سب سے آگے آتے ہیں۔ وکلا کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں طلبہ ، شاعر، ادیب، کالم نگار جس طرح ایوب کی آمریت خلاف فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے ہوگئے تھے۔

یہ جو انگریز سامراج کے خلاف تحریک تھی متحدہ ہندوستان میں اس کی قیادت کس نے کی تھی ؟ کون تھے گاندھی ، نہرو وجناح ، لیاقت علی خان، پٹیل۔ اور دنیا کہتی ہے کہ سب سے شاہکار آئین اگرکسی ملک نے دیا تو وہ ہندوستان تھا اوراس کی وجہ یہ تھی کہ پارلیمان کے اندر اکثریت وکیلوں کی تھی۔ ڈاکٹر بی آر امبیدکرکون تھے جنھوں نے ہندوستان کے آئین بنانے کے عمل کو سپر وائزکیا۔ یہ جو ہمیں جس شخص نے پاکستان دیا وہ کون تھا یا یہ جو جس نے  1973 میں ہمیں آئین دیا وہ کون تھا۔

یہ جوکوئٹہ میں تین سال قبل ایک سو وکیل ایک ہی خودکش حملے میں اڑا دیے گئے،کیوں پورے کوئٹہ کے اندر جرات رکھنے والے وکیلوں کو ختم کر دیا گیا کہ جس کا خلاء دہائیوں تک بھرنا آسان نہ ہو اور پھر جو عدالتوں کے نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے ہیں وہ بھی کہیں نہیں جاتے اور وہ جو سوموٹو کے سائے تلے خود انصاف کی دھجیاں اڑا دی گئیں یہ کہیں نہیں جاتی کیونکہ یہ آئین ہے عدالت ، وہ سارے باب ایک دن کھلیں گے، یہیں عدالتیں کھولیں گی، یہی عدالتیں اعتراف کریں گی کہ ان کے اندر خود تنقیدی طریقہ کار موجود ہے۔

یہ عدالتیں ہیں، یہ  وکلاء ہیں جو روک کے بیٹھے ہیں کسی آمرکو آنے سے یا کسی سول حکمران کو آئین کے حدود تجاوزکرنے سے۔ ہوسکتا ہے سانحہ پی آئی سی خود ایک سازش ہو ، اس کو بہانہ بنا کے پھر نہ کوئی سسٹم کو ہی نہ لپیٹ دے۔ اس لیے ہمیں وکیل اور وکلا گردی میں فرق محسوس کرنا پڑے گا۔

چند بڑے ڈاکٹروں کی وجہ سے اس انسانوں کی جان بچانے والے شعبے میں تمام افراد کو برا نہیں کہنا پڑے گا۔ پارلیمان آتے کچھ ممبران کی وجہ سے پارلیمانی نظام ہو یا ہمارا آئین ، یہ سب ادارے یہ سب مذاہب کے لوگ ، مختلف زبانیں رکھنے والے شہری ہم سب اس آئین میں آتے ہیں، ہمارے حقوق اور ہماری ذمے داریاں سب آئین میں وضع کی ہوئی ہیں۔ یہ موڑ ہمارے لیے لمحہ فکریہ کے برابر ہے اس سے پہلے کہ یہ آگ کسی قابو میں نہ رہے، آئیے ہم اس کے اسباب ڈھونڈیں اور ان کا حل نکالیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔