سانحہ 9/11 نے دنیا کا منظر نامہ بدل ڈالا

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  ہفتہ 21 دسمبر 2019
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو مالی اعتبار سے 500 ارب ڈالر کانقصان ہوا، پاک بھارت عسکری تصادم کی تاریخ

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو مالی اعتبار سے 500 ارب ڈالر کانقصان ہوا، پاک بھارت عسکری تصادم کی تاریخ

(قسط نمبر 13)

1991 میں خلیجی جنگ کے بعد عرب دنیا میں امریکی، اسرائیلی مخالفت میں بہت اضافہ ہو گیا تھا، اور دنیا کے مختلف ملکوں میں القاعدہ کی جانب سے 1991 سے 1998 تک نئے انداز کی کاروائیوں کی منصوبہ بندی کے بارے میں امریکی اطلاعات سامنے آرہی تھیں اس سلسلے میں دہشت گردی کی بڑی کاروائی 7 اگست 1998 کو کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں میں ہونے والے بم دھماکے تھے جن میں 12 امریکیوں سمیت 224 افراد جاں بحق اور 4000 کے قریب زخمی ہوئے تھے اور اس کے جواب میں امریکی صدر بل کلنٹن کے حکم پر Preemptive Strik یعنی حفظِ ماتقدم کے تحت 20 اگست1998 کو خرطوم سوڈان اور افغانستان پر سمندر سے امریکی نیوی نے کروز میزائلوں سے حملے کئے گئے۔

امریکہ کے سوڈان خرطوم میں قائم الشفا فارما سوٹیکل فیکٹری کے بارے میں یہ الزامات تھے کہ یہاں اسامہ بن لادن کے القاعدہ گروپ کے اراکین XV merve gas سے اعصاب شکن کیمیکل ہتھیار تیار کر رہے ہیں اس لیے اس فیکٹری پر حملہ کر کے اُسے تباہ کر دیا گیا، جبکہ افغانستان میں خوست کے مقام پر امریکہ کا دعویٰ تھا کہ یہاں اسامہ بن لادن کے القاعدہ گروپ کا ٹریننگ سنٹر ہے، اور اس لیے یہاں بحیرہ عرب کے قریب سمندر سے امریکی نیوی نے کروز میزائل فائر کئے تھے۔ امریکی نیوی نے اِن حملوں کا جنگی نام Operation Infinite Reach رکھا تھا۔

سوڈان میں امریکہ کے حملوں کے بعد اسامہ بن لادن افغانستان آگیا، جہاں اُس وقت افغانستان میں خانہ جنگی کے بعد 1996ء سے طالبان کی حکومت قائم ہو گئی تھی جس کو پاکستان اور سعودی عرب نے تسلیم بھی کیا ہوا تھا، اور شروع میں یہ بھی نظرآ رہا تھا کہ امریکہ بھی جلد طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لے گا، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ سعودی عرب ،متحدہ عرب امارت اور پاکستان امریکہ کے حلیف رہے ہیں اور ہمیشہ یہی ہوتا رہا ہے کہ عالمی نوعیت کے ایسے معاملات میں امریکہ کی مرضی کے بغیر یہ ممالک کوئی پالیسی نہیں اپناتے،لیکن 1999 ء تک امریکہ نے افغانستان میں طالبان حکومت کو نہ صرف تسلیم نہیں کیا بلکہ اس حکومت کی مخالفت میںسرگرم ہوگیا۔

وہاں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اگر چہ کارگل کی جنگ کے بعد بھارتی پو زیشن کچھ بہترہوئی تھی لیکن کشمیری مجاہد ین متحرک تھے کہ 24 دسمبر1999 کو حرکت المجاہد نامی تنظیم کے 5 ہائی جیکروں نے نیپال کے شہر کھٹمنڈو سے دہلی جانے والے انڈین ائر لائن فلائٹ 814 ائر بس A300 کو کھٹمنڈو اور دہلی کے درمیان اغوا کر لیا پھر اس جہاز کو امرتسر، لاہور اور دبئی لینڈنگ کرنے اور تیل بھرانے کے بعد آخر افغانستان کے شہر قندھار میں اتارا گیا اور بھارتی حکومت کے سامنے ہائی جیکروں نے بھارتی جیل میں قید مشتاق زرگر، احمد عمر سعید شیخ اور مولانا مسعود اظہر کی رہائی کے مطالبات رکھ دیئے اور 31 دسمبر 1999 تک صورتحال بہت ہی بحرانی رہی، اس دوران ایک مسا فر جان بحق اور 17 زخمی ہوئے اور پھر ہائی جیکروں کے مطالبات مان لیے گئے۔

یہاں13 اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف اقتدار میں آگئے تھے، اگر چہ مارشل نافذ نہیں کیا گیا تھا مگر وہ چیف ایگزیکٹو اور بعد میں صدر کے ساتھ ساتھ اقتدار سے مستعفٰی ہونے سے ایک سال قبل تک آرمی چیف بھی رہے،ان دنوں یہ واضح ہو گیا تھا کہ امریکہ پاکستان کے تعلقات جن میں شروع سے علاقے میں طاقت کے توازن کو امریکہ مدنظر رکھا کرتا تھا اب امریکہ کا جھکاؤ بھارت کی جانب تھا اور یہ سب امریکی صدر بل کلنٹن کے دور میں ہوا۔

اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اُس وقت دنیا میں سابق سوویت یونین اور امریکہ کے لحاظ سے دو طاقتی نظام ختم ہو گیا تھا جو دو مختلف اقتصادی نظریات پر قائم تھا اس لیے نئے تناظر میںاب ایک تو امریکہ کو کسی اشتراکی نظام سے خطرہ نہیں تھا تو دوسری جانب سرد جنگ کے اختتام پر دیوارِ برلن کے گرنے کے بعد دنیا میں واقعی امن قائم ہو جاتا،کشمیر اور فلسطین سمیت دنیا کے پرانے تنازعات اقوام متحدہ کی جانب سے ا نصاف کے مطابق حل کروا دئے جاتے تو پھر پوری دنیا ہی امریکہ کی طرح پُر امن اور محفوظ ہو جاتی اور دنیا بھر کی قوموں اور ملکوں کو عالمی سطح کے پُر امن اور انصاف پر مبنی فضا میں ترقی اور خوشحالی کے برابر مواقع ہوتے اور جہاں تک تعلق دنیا کے منظم معاشروں کا ہے تو دنیا میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے ملک چین کا منظم معاشرہ مذہبی لسانی، ثقافتی، تہذیبی، تمدنی اور اپنے مخصوص سیاسی نظام کی بنیاد پر صنعت و تجارت کی بنیاد پر سب سے زیادہ اور تیز رفتار ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

جب کہ اس کے مقابلے میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا ملک بھارت مذہبی، لسانی، تہذیبی، تمدنی ثقافتی گروہوں میں تقسیم ایک ایسا معاشرہ ہے جس کو سیکولر جمہوریت کی بنیاد پر پنڈت جواہر لال نہرو نے کسی حد تک منظم رکھا تھا، اب امریکہ اور یورپ اگر چین کو کسی لحاظ سے روکنے کی کوشش کریں تو اُن کے سامنے واحد راستہ یہی ہے کہ بھارت کو چین کے مد مقابل کھڑا کردیا جائے، پھر دوسرا، اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر دنیا میں امن قائم ہو جائے تو امریکہ کی وہ حیثیت جو پہلی جنگ عظیم سے قائم ہے جس کے سبب دنیا کے سرمایہ دار اور ذہین و فطین ماہرین سائنس دان سبھی امریکہ کا رخ کرتے ہیں وہ حیثیت ختم ہو جائے گی۔

تیسرا اہم نکتہ یہ ہے پہلے سابق سوویت یونین کے وجود کی وجہ سے دنیا کی35 فیصد آبادی اشتراکی نظام کے زیر اثر تھی اور اُسے زندگی کی بنیادی ضرورتیں مہیا تھیں اور اس کے بعد جو پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک تھے اُن کو امریکہ اور مغربی یورپ کے ترقی یا فتہ ممالک امداد اور گرانٹ اس لیے دیتے تھے کہ سرد جنگ کے دور میں اِن ملکوں میں بھوک و افلاس اس حد تک نہ بڑھ جائے کہ اشتراکیت کے لیے معاشرے میں راستہ بالکل ہموار ہو جائے۔

1980 کی دہائی ہی سے چین نے ایک جوڑا ایک بچہ کی پالیسی اپنا کر پیداوار اور آبادی کی بڑھوتی میں بہتر ین توازن قائم کر لیا جو آج بہت ہی مستحکم ہو چکا ہے اور یہاں رفتہ رفتہ کیمنو ازم کی جگہ سو شلزم آیا اور وہ بھی اب آہستہ آہستہ معیار زندگی کے لحاظ سے مغربی دنیا کی سطح پر آرہا ہے، جب کہ دوسری جانب امریکہ اور مغربی یورپ جہاں آزاد معیشت تھی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے عہد میں مکمل آزاد نہیں رہا، اب یہ نعرہ بھی ہے کہ امریکہ امریکیوں کے لیے اور ساتھ ہی سرمایہ دارانہ نظام کو یہ خوف بھی لاحق ہے کہ جس تیزی سے اور یک طاقتی عالمی طور پر آچکی ہے دنیا میں سرمایہ ایک مقام یا ایک جگہ ارتکازِ کی وجہ سے جمع ہو رہا ہے، یہ مسئلہ عنقریب دنیا میںکسی نئے اقتصادی مالیاتی نظام کا تقاضا کر ے گا۔

اگرچہ اہل مغرب سمیت ہمارے ماہرین معاشیات بھی اس سے انکار کریں گے مگر دنیا میں تقریبا ساڑھے چودہ سو سال سے ایک اسلامی اقتصادی نظام موجود ہے جو اگرچہ ابھی تک غیر فعال ہے مگر یہ وقت ہی ثابت کرے گا کہ وہ عالمی سطح پر ارتکازِ کو روک کر مالیا تی اور اقتصادی نظام کو توازن میں لا سکتا ہے یا نہیں ۔

بل کلنٹن کے آٹھ سالہ دورمیں جو تبدیلی سامنے آئی تھی اِ س کو اتفاق کہا جائے کہ اُن کے جانے کے سات مہینے بیس دن بعد 11 ستمبر2001 میں نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر، پینٹاگان اور واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کو مسا فر بردار طیاروں کو اغوا کر نے کے بعد خود کش حملہ آوروں نے نشانہ بنایا، کہا جاتا ہے کہ وائٹ ہاؤس کو نشانہ بنانے سے قبل ہی طیارے کو گرا دیا گیا، جب کہ دو طیاروں نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر ٹوئن ٹاور کو نشانہ بنایا اور اسی طرح ایک طیارے نے پینٹاگان کو نشانہ بنایا۔ 2996 افراد جان بحق اور 6000 ہزار سے زیادہ زخمی ہو ئے، یوں جس طرح یہ حملے ڈیزائن کئے گئے تھے اِس لحاظ سے ورلڈ ٹریڈ سنٹر امریکی اقتصادیات کی علامت ہے۔ پنٹا گان فوجی عسکری قوت کا مرکز ہے اور وائٹ ہاوس امریکی صدر کی سرکاری رہائش گاہ ہے۔

اگرچہ آج دہشت گردی کے اس حملے کو ہوئے پورے 18 سال گزر چکے ہیں اور اب اس پر بہت سے سوالات سامنے آچکے ہیں جن میں سے بہت سے سوالات کے جوابات امریکہ کے پاس نہیںہیں، باقی تمام سوالات اپنی جگہ صرف یہ سوال ہی بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا امریکہ کی سکیورٹی اتنی ہی کمزور ہے کہ دنیا میں ہائی جیک کا انتہا ئی خطرناک واقعہ یہاں پیش آیا کہ بیک وقت نہ صرف چار طیارے اغوا ہوئے بلکہ تین نے مکمل طور پر اپنے اہداف کو پورا کیا یعنی 75% کامیابی حاصل کی دنیا میں اگر چہ ہائی جیک کے واقعات ہوئے ہیں مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اکھٹے چار جہاز اغوا ہوئے ہوں اور وہ بھی بہت ہی بڑے پیمانے کی دہشت گردی کے لیے کامیابی سے استعمال بھی ہو گئے ہوں، یوں اگر امریکہ اس کا فوری اور بھرپو ر جواب نہ دیتا تو پھر اس کا وہ مقام جس کے بارے میں دنیا کے سرمایہ دار یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اور اُن کا سرمایہ اگر دنیا میں کہیں محفوظ ہے تو یہ امریکہ ہی ہے اور یہی خیال دنیا کے ذہین و فطین ماہرین اور سائنسدانوں کا ہے۔

اب امریکہ دنیا کے سامنے اس کا کیا جواب دیتا، یوں اس کے فوراً بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے افغانستان کی طالبان حکومت کو کہا کہ دہشت گردی کے یہ حملے القاعدہ کی جانب سے کئے گئے ہیں اس لیے فوری طور پر اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کر دیا جائے، اب اگرچہ یہ واقعہ دنیا کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا بہت ہی بڑا واقعہ تھا لیکن ایک جانب تو اسامہ بن لادن نے اس سانحہ سے انکار کیا، دوئم افغانستان کی حکومت نے یہ کہا کہ اگر اسامہ بن لادن واقعی اس واقعہ میں ملوث ہیں تو پھر اِن پر کھلی عدالت میں مقدمہ افغانستان میں چلایا جائے گا جو بالکل غیر جانبدارنہ ہو گا پھر کہا گیا کہ اگر امریکہ اس پر متفق نہیں تو کسی تیسر ے اور غیر جانبدار ملک میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے مگر امریکہ اس بات پر مصر تھا کہ اسامہ بن لادن کو فوراً امریکہ کے حوالے کیا جائے۔

ابھی یہ اندازہ کیا جا رہا تھا کہ شائد امریکہ کسی ایک بات پر راضی ہو جائے اور افغانستان پر حملہ نہ ہو مگر جو لوگ حالیہ تاریخ پر نظر رکھتے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ امریکہ پر کسی بھی انداز کے حملے کا جواب ہمیشہ کہیں زیادہ شدت سے آیا ہے اور ہمیشہ آئے گا، تا آنکہ مقابل امریکہ کے برابر کی قوت نہ بن جائے۔

دفاع یا سکیورٹی پر امریکہ کبھی بھی مفاہمت نہیں کر سکتا کیونکہ طاقت کو برقرار رکھنے کا ہمیشہ سے یہی اصول رہا ہے، بقول میکا ولی اور چانکیہ اگر یہ اصول نہیں اپنایا جاتا تو طاقت برقرار نہیں رہتی، جس طرح دوسری جنگِ عظیم میں پرل ہاربر پر جاپانی حملے نے دنیا کی نئی تشکیل کی اور تشکیل ہونے کی رفتار میں اہم کر دار ادا کیا تھا اُسی طرح نائن الیون کا واقعہ تھا، یہ واقعہ دنیا میں نئے ہزاریے کے پہلے سال کے نویں مہینے کی گیارہ تاریخ کو پیش آیا اگرچہ اس میں 2996 افراد جان بحق اور 6000 زخمی ہوئے تھے اور اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا تھا جو کسی ایک واقعہ کے لحاظ سے اتنا زیادہ نہیں تھا مگر یہ علامتی اعتبار سے کہیں زیادہ اہم تھا۔

دنیا کی حالیہ ایک سو سالہ تاریخ میں اب تک چار بڑی جنگیں ہوئیں ہیں جن میں جنگ عظیم اوّل اور جنگ عظیم دوئم میں عسکری انداز یا طریقہ کار ایک جیسا تھا وہی توپیں، ٹینک، طیارے، بحری جہاز اور بحری بیڑے ہاں البتہ دوسری جنگ عظیم کا اختتام دو ایٹم بموں جیسے تباہ کن ہتھیاروں کے استعمال پر ہوا،اس کے بعد ایک جانب امریکہ کے ساتھ نیٹو اتحادی اور دوسری جانب سابقہ سوویت یونین اور وارسا پیکٹ گروپ کے ساتھ اس کے اتحادی تھے، اور اس دوران دنیا میں اِن کے میدان جنگ یا محاذ پر ترقی  پذیر اور پسماندہ ممالک تھے۔

اس جنگ میں غیر اعلانیہ طور پر کچھ اصول وضوابط اور قوانین کا لحاظ کیا جاتا رہا یعنی جب اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں پانچ ملکوں میں سے چار کو ماضی قریب  کے نو آبادیاتی نظام کے اعتبار سے ویٹو پاور دیا گیا اور چین کی جگہ چین کی نمائندگی غیر جمہوری انداز میں تائیوان کو دی گئی اور پھر 1971 کے بعد چین کو حقیقی انداز میں تسلیم کرتے ہوئے ویٹو پاور دے گئی تو اگرچہ سوویت یونین اور چین اشتراکی نظریاتی ممالک تھے اور دنیا میں اشتراکی نظریات کے پھیلانے میں اہم کردار سوویت یونین ہی کا تھا تو دراصل یہ سرد جنگ خصوصاً کوریا اور ویتنام کے جنگوں کے بعد امریکہ اور سوویت یونین کے بلاکوں کے درمیان رہی اور چین کافی حد تک غیر جانبدار ہو گیا اور اسی دوران چین نے اپنے مسائل حل کرتے ہوئے نہایت تیزرفتاری سے ترقی کی۔ اس سرد جنگ میں اگرچہ افغانستان کی حیثیت برٹش انڈیا اور پہلے سلطنتِ زارِ روس اور پھر کیمونسٹ سوویت یونین کے درمیان حائلی ریاست یعنی بفر اسٹیٹ کی رہی اور بعد میں جب 1947 کو بھارت اور پاکستان جب آزاد ہو گئے تو بھی درپردہ افغانستان کی حیثیت حائلی ریاست ہی کی رہی۔

ہاں یہ ضرور تھا کہ برطانیہ نے اپنے دور حکومت میں دوسری اینگلو افغان جنگ 1878 کے بعد سے 1919ء تک افغانستان کو سالانہ سبسڈی دے کر دفاع اور خارجہ کے امور اپنے ہاتھ میں رکھے تھے اور اس دوران پہلے زار شاہی روس نے اور پھر اشتراکی سوویت یونین نے اس کو غیر اعلانیہ طور پر تسلیم کر رکھا تھا کہ پاکستان میں سے ملحقہ آبادیوں اور سرحد کے تناظر میںاس کے انتظامی امور میں بہت حد تک بر طانوی عمل دخل رہا ہے، بالکل اسی طرح جیسے 1839 کی پہلی اینگلو افغان جنگ کے بعد زار روس نے سنٹرل ایشیا کی ریاستوں اور افغانستان سے ملنے والی سرحدوں کے نزدیکی علا قوں میں اپنی عملداری قائم کی۔ 1919 میں جب افغانستان کے روشن خیال ترقی پسند بادشاہ غازی امان اللہ خان نے تیسری اینگلو افغان جنگ میں اپنی خارجہ اور دفاع کی پالیسی کو آزاد کر لیا تو فوری طور پر جنگ کے بعد برطانیہ نے یہ سب کچھ تسلیم کر لیا تھا مگر تھوڑے عرصے بعد ہی امان اللہ خان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا یوں تقریباً وہی سلسلہ جو امان اللہ سے پہلے تھا کچھ کمی بیشی کے ساتھ پہلے برطانوی تعلقات اور پھر بر طانوی امریکی تعلقات کے ساتھ بحال ہو گیا اور غیر اعلانیہ طور پر اقوام متحدہ کی تشکیل کے بعد بھی جاری رہا۔

اس کو قوت کی بنیاد پر 1979 میں افغانستان میں سابق سوویت یونین نے تبدیل کرنے کی کوشش اس لیے کی کہ اُس وقت ایران اور پاکستان میں حکومتی سطحوں پر مذہبی رجحانات کو اپنایا گیا تو سوویت یونین کو خوف محسوس ہوا کہ یہ سلسلہ افغانستان سے ہوتا ہوا سنٹرل ایشیا کی سوویت ریاستوں میں بھی آجائے گا جو سوویت یونین کی تباہی کا سبب ہو گا اور سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں اسی چنگاری کو شعلہ جوالا بنا کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پاکستان کے ذریعے استعمال کیا اور اس کے نتیجے میں نہ صرف افغانستان میں سوویت یونین کو شکست ہوئی بلکہ سوویت یونین ہی بکھر گئی۔

افغانستان کے اس جہاد میں افغانیوں کے شانہ بشانہ عرب مجاہدین کی بھی ایک بڑی تعدا د نے سوویت یونین کی فوج کے خلاف حصہ لیا جس میں تاریخی کردار کی حامل شخصیت اسامہ بن لادن کی تھی، وہ 1979 سے 1989 تک افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف مصروفِ جنگ رہے اور پھر واپس سعودی عرب چلے گئے۔ 1991-1992 میں خلیجی جنگ سے ایک نئی صورتحال پیدا ہوئی جس پر اُن کا خاص نظریہ اور موقف تھا اور وہ سوڈان چلے گئے جہاں پر امریکہ کی جانب سے جب سوڈان پر حملہ ہوا تو 1996 وہ افغانستان آگئے۔

اب جب افغانستان کی حکومت نے اسامہ بن لا دن کی حوالگی کے لیے دو تجاویز سامنے رکھیں تو امریکہ کی جانب سے یہ دونوں تجاویز رد کردی گئیں، دوسری جانب امریکہ جو سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد واحد سپر پاور ہونے کا اعلان کر چکا تھا اور دنیا کی تیز رفتار تشکیل ِنو کا تخلیق کار بھی تسلیم کیا رہا تھا اُس کے فیصلوں سے انحراف کرنا اُس وقت کسی ملک کے لیے ممکن نہیں تھا، اس لیے جب نائن الیون کے سانحے کے فوراً بعد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں یہ مسئلہ پیش ہوا تو اس پر فوری طور پر اور کہیں زیادہ شدت سے توجہ دی گئی پھر یہ بھی تھا کہ ٹریڈ سنٹر جہاں دہشت گردی کی اس کاروائی سے سب سے زیادہ جانی مالی نقصان ہوا تھا وہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی عمارت سے پیدل پندرہ منٹ کی دوری پر واقع ہے۔

اس لیے نفسیاتی طور پر بھی اقوام متحدہ کے لوگوں نے اس واقعہ کی شدت کو دیکھا اور محسوس کیا تھا۔ یوں جتنی تیز رفتاری سے نائن الیون کے دہشت گردی کے حملوں کے خلا ف اقوا م متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے کاروائی کی اس کی مثال اقوام متحدہ کی تاریخ میں نہیں ملتی، اُس وقت سکیورٹی کونسل کے مستقل پانچ اراکین، امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے علاوہ غیر مستقل ممبران میں بنگلہ دیش،کولمبیا،آئرلینڈ، جمیکا،مالی، موریطانیہ، ناروے، سنگا پور، تیونس اور یوکرائن شامل تھے۔

اس سکیورٹی کونسل نے واقعہ کے 17 دن بعد 28 ستمبر2001 کو قرار داد نمبر 1373 متفقہ طور پر صرف تین منٹ میں منظور کر لی، اس قرار داد میں اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کے بعض ایسے نکا ت جو اس قرارداد کی وجہ سے مجروح ہو سکتے تھے اِس حوالے سے ابہام کو بھی دور نہیں کیا گیا، اور اس سے قبل اگر ایسی کوئی قرار داد سکیو رٹی کونسل منظور کیا کرتی تھی تو ہوتا یہ تھا کہ بہت سے ممالک اُس کو قبول کرنے کے بعد اُس پر دستخط کر نے کے باوجود غفلت برتتے تھے لیکن اس قرارداد کا متن اور لہجہ ایسا تھا کہ اس پر پوری دنیا میں فوری طور پر اور مکمل انداز میں عملدرآمد کرنا ہر ملک کا فرض اولین قرار پایا اور یہی وجہ تھی کہ جب یہ قرارداد منظور ہوگئی تو جنرل پرویز مشرف کے پاس دوسرا کو ئی راستہ نہیں تھا کیو نکہ امریکہ نے بڑے درشت لہجے میں کہا تھا کہ پاکستا ن یہ بتائے کہ وہ امریکہ کے ساتھ ہے یا نہیں اور یوں اُس وقت سے یوٹرن کی اصطلاح سامنے آئی تھی اور اس پر اسی عجلت میں عملدرآمد ہوا جتنی عجلت اس سے متعلق قرارداد نمبر 1373 میں متفقہ طور پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں منظور کی گئی تھی۔

اُس وقت کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ انصاف سے متعلق یہ اصطلاحات خود اہل مغرب کی ہیں کہ ’’انصا ف میں جلدی یا عجلت انصاف کو دفن کر دینے کے مترادف ہے، اسی طرح انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے ‘‘ اور یہ تلخ حقیقت آج بھی دنیا کے سامنے ہے، اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر 1373 تین منٹ میں سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل اوردس غیرمستقل ممبران نے متفقہ طور پر منظور کر لی، اور خود اقوام متحدہ کی جانب سے واضح کردہ انسانی حقوق یہاں بری طرح پامال ہو ئے اور افغانستان میں بے گناہ افراد زیادہ تعداد میں جان بحق ہوئے جن میں بچے بوڑھے اور خواتین بھی شامل تھیں، قرارداد 1373 کی منظوری کے فوراً بعد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے انٹرنیشنل سکیورٹی فورس کی تشکیل کا اعلان کیا۔

دس دن بعد امریکہ نے اپنے روائتی اتحادی برطانیہ کے ساتھ مل کر 7 اکتوبر2001 کوOperation Enduring Freedom آپریشن انڈورنگ فریڈم شروع کیا۔دسمبر2001 میں حامد کرزئی سربراہ ِحکومت بنادیئے گئے۔ 2002 میں لوئی جرگہ ہوا، اگست 2003 سے نیٹو افواج بھی جنگ میں شامل ہوئیں اُس وقت کسی جانب سے بھی انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی موثر آواز نہیں اٹھی۔ 2003 میں اقوام متحد ہ ہی نے عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلا ف جنگ میں انسانی حقوق ، مہاجرین کے قوانین اور انسانیت کے قوانین کی خلاف ورزی کو روکنے کے لیے قرارداد 1456 منظور کی، پھر طالبان اور القاعدہ کی فنڈنگ کو روکنے کے لیے قرارداد نمبر1566 پاس ہوئی، یہ دور پاکستان کے استحکام کے لحاظ سے بہت ہی بحرانی تھا۔

اب افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کی معاونت اور امداد کر رہا تھا، یوں افغانستان میں جب بے تحاشہ بمباری کی گئی تو پھر ایک بار افغان مہاجرین لاکھوں کی تعداد میں پا کستان آگئے مگر اب کی بار اِن کے لیے بیرونی دنیا سے وہ مہربانیاں اور مراعات نہیں تھیں، اور ساتھ ہی عام افغانی کے لیے یہ بدلتی ہوئی صورتحال ناقا بلِ فہم اور ناقابلِ تسلیم تھی،کہاں چند برس پہلے یہی افغانی دنیا کی دوسری بڑی قوت کے خلاف جب لڑے رہے تھے توامریکہ، یورپ سمیت دنیا کے تمام ممالک اور اقوام اُن کے ساتھ تھے اور پا کستان فرنٹ لائن کے ملک کی حیثیت سے سب آگے تھا اور واقعی یہ بالکل الٹ ہوا یعنی پوری دنیا ہی کا یہ یوٹرن تھا۔

اس لیے افغانیوں کا غم وغصہ زیادہ تھا اور اس فضا میں پاکستان کو اس غم وغصے کا یوں سامنا کر نا پڑا کہ پاکستان اور افغانستان کی سر حد کے دونوں اطراف کے بہت سے علاقوں میں مذہبی، لسانی، ثقافتی، تہذیبی، تمدنی، نسلی اعتبار سے صدیوں کے تاریخی پس منظر کے ساتھ یکساں قومیں آباد ہیں اور باوجود سرحد کے اِن کے آپس میں رشتے ناطے ہوتے ہیں پھر افغانستان میں ساحل نہیں یوں قانونی اور غیرقانونی دونوں انداز کی تجارتی سرگرمیاں پاکستا ن ہی سے ہوتی ہیں، اس لیے جب افغانستان پر امریکہ اور نیٹو کی شدید کاروائیوں کو چار پا نچ برس کا عر صہ گزر گیا تو اِس کا ردعمل دہشت گردی کے واقعات کی صورت میں شہری آبادیوں بازاروں اور مارکیٹوں میں بم دھماکوں، مخالفین کے ٹھکانوں پر خود کش حملوں کی صورت میں روز بروز بڑھنے لگا۔

اس کی کی پیش بندی کے لیے غالباً فور سز کی جانب سے اُس وقت توجہ اِس لیے بھی نہیں دی گئی کہ جب سکیورٹی کونسل کی جانب سے قرار داد نمبر1373 منظور کر نے کے بعد جس شدت سے افغانستان میں کاروائی کی گئی تھی اور ساری دنیا امریکہ اور نیٹو کی پشت پر مکمل طور پر کھڑی تھی اُس سے پوری دنیا کو یہ اندازہ تھا کہ اب افغانستان میں عوامی سطح پر کہیں اسلحہ برداروں اور کہیں اسلحہ کو نہیں چھوڑا جائے گا اور تھوڑے عرصے میں افغانستان اسلحہ سے پاک ملک بن جائے گا، مگر افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی پوری طاقت کیسا تھ کاروائیوں کے باوجود صرف تین چار سال بعد یہ اندازہ ہوا کہ اب یہاں ایک نئی طرز کی جنگ شروع ہو گئی ہے جس کا رخ اب نیٹو اور امریکہ کے مفادات کے خلاف ہے ۔

اسی دور میں پاکستان کے ایٹمی پر وگرام کے بارے میں بھارت اور مغربی دنیا نے پروپیگنڈہ کیا اور یہاں تک کہ محسنِ پاکستان ڈاکٹر قدیر خان کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ اس کے بعد پاکستان کے بارے میں ایسے علاقائی نقشے عالمی سطح پر شائع ہوئے جن میں پا کستا ن موجود نہیں تھا اور ساتھ پروپیگنڈہ شروع ہوا کہ 2010 تک دنیا میں پاکستان کے نام کا کوئی ملک نقشے پر نہیں ہو گا، یوں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان1999 میں وہ ملک تھا جس نے اعلانیہ ایٹمی ملک بننے کے بعد کارگل پر قبضہ کر کے بھارت اور امریکہ دونوں کو پریشان کر دیا تھا۔

اس دور میں بھارت اور امریکہ کے تعلقات بہتر سے بہتر ہونے لگے اور پاکستان بہت ہی احتیاط سے اِن مسائل کا سامنا کر رہا تھا، پھر مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک بھی نہ صرف سیاسی بحران اور جنگوں کا شکار ہونے لگے بلکہ مالیاتی اعتبار سے بھی ان کے مسائل کی وجہ سے ہمارے اقتصادی معاملات بھی متاثر ہوئے، بیرون ملک پاکستانیوں کا نہ صرف دوسرے ملکوں میں جانا بند ہو گیا بلکہ لاکھوں پاکستانی جو تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں یا یورپ، امریکہ،کینیڈا اور دیگر مغربی ملکوں میں کام کر رہے تھے وہ بھی پاکستان پر دہشت گردی کے پروپیگنڈے کی وجہ سے گھبرائے اور بیرون ملک ایسے پاکستانی جو عارضی بنیادوں پر وہاں کے قانون کو صرفِ نظر کرتے ہوئے بیرون ملک کام کر رہے تھے نکالے گئے اور جو نہیں نکالے گئے اُن کی آمدنیوں میں خصوصاً عرب ملکوں میں کمی کردی گئی۔

مشرق وسطیٰ میں حالات کی وجہ سے پہلے پاکستانیوں کا بڑا انخلا کویت سے ہوا تھا، اس کے بعد عراق سے ہوا، 2003-04 کے بعد جب افغانستان میں امریکی اور نیٹو کاروائیوں کو تین چار سال ہو گئے تو یوں معلوم ہوا کہ اب افغانستان میں دہشت گردی کے خلا ف شروع کی گئی، عالمی جنگ، عالمی سطح کی پروکسی وار میں تبدیل ہو چکی ہے جس پر بظاہر دنیا کے بہت سے ممالک اقوام متحدہ کی سکیو رٹی کونسل کی قرارداد نمبر1373 کے تحت یکساں موقف رکھتے ہیں اور اُن قوانین کا احترام کرتے ہیں جو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے لیے اقوام متحدہ نے خصوصی طور پر واضح کئے ہیں، مگر یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہ صرف افغانستان میں قابو میں نہ آسکی بلکہ یہ جنگ بعد کے دنوں میں عراق، شام، لیبیا کو مکمل طور پر تباہ کرتے ہوئے تیونس، سوڈان،ایران، سعودی عرب، یمن تک کو متاثر کرنے لگی۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان جو بدقسمتی سے اقوام متحدہ کی 1982-83 کی قراردادوں کے سحر میں آکر اُس وقت جب افغانستان سوویت یونین جارحیت کا شکار تھا فرنٹ لائن کا ملک بن کر سوویت یونین کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو گیا تھا حالانکہ اُس وقت بھی اُس کی پشت پر بھارت متواتر وار کرتا رہا تھا اور یہاں تک کہ سیا چن کا علاقہ بھی ہمارے ہاتھ سے نکل گیا، پھر28 ستمبر2001 کی اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد 1373 کے بعد اب پاکستان کو نہ چاہتے ہوئے بھی افغانستان اور افغانیوں کے خلاف پوزیشن لینی پڑی اور یہ پوزیشن امریکہ اور نیٹو کے حق میں تھی اور یہ سابق سوویت یونین کے خلاف اور افغانستان کے حق میں اپنائی جانے والی پوزیشن کے بالکل برعکس پوزیشن تھی یعنی پورا یوٹرن تھا ، اس لیے پا کستا ن کو اس دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان برداشت کر نا پڑا، یہ نقصان کئی پہلوں سے ہوا ہے مثلاً مالی اعتبار سے دیکھیں تو پاکستان کو معاشی، اقتصادی ، مالیاتی طور پر کم از کم 500 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اُس نے امریکہ اور خصوصاً نیٹو ممالک کو سوویت یونین کے خلاف تیسری عالمی جنگ جو سرد جنگ کے نام سے 1990 تک جاری رہی، جیت کر دی مگر اس کے انعام کی بجائے پاکستان کو اس کی شدید سزا ملی، وہ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں مجاہدین کا محسن تھا اور سوویت یونین کے ٹوٹنے اور شکست کھانے کے چند سال بعد اُسے بالکل ہی متضاد کردارادا کرنا پڑا، یہ ایک ایسے سماج میں یک لخت ہوا تھا جس کا تاریخی پس منظر بھائی چارے ، اخوت کے حوالے سے صدیوں پرانا رہا ہے مگر اب روایت اور اقدار کو اقوام متحدہ کی قرارداد کے سامنے قربان کرنا پڑا، اگر چہ پاکستان اور افغانستان کی سماجی بنت سابق سوویت یونین کی فوجوں کے افغانستان میں آنے کے بعد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تھی مگر یہ امید تھی کہ سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد وہاں امریکہ و یورپ کی امداد سے تیز رفتار انداز سے تعمیر نو کا عمل شروع ہو گا جیسے دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ اور مارشل پلان کے تحت جاپان میں ہوا تھا اور پھر 35 لاکھ افغان مہاجرین جو سوویت یونین کی فوجی جارحیت کی وجہ سے پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے وہ واپس ہو جائیں گے تو چند سال بعد جسم کی جلد کے کسی زخم کی طرح یہ ادھڑی سماجی بنت بھی منہدم ہو جائے گی۔

البتہ اس کے داغ تاریخی واقعہ کی طرح رہ جائیں جو یہ یاد دلاتے رہیں گے کہ پاکستان نے سوویت یونین کی جارحیت کے خلاف فرنٹ لائن کے ملک کی حیثیت سے افغان بھائیوں کا بڑی جرات اور استقا مت سے ساتھ دیا تھا لیکن یہاں تو تازہ زخم پر ہی گہر ے گھاؤ لگائے گئے ہمارے جیسے ملکوں میں جہاں سرحدوں کی دونوں جانب سینکڑوں کلومیٹر تک ایک ہی ثقافت، تہذیب،تمدن مذہب، زبان اور قومیت کے حامل کروڑوں افراد آباد ہوتے ہیں اِن ترقی پذیر ملکوں میں ہمسایہ ملک ہونے کے باوجود حکومتوں کی بعض پالیسیاں عموماً متضاد ہوتی ہیں جو دونوں ہمسایہ ملکوں کی سرحدوں کے دونوں جانب رہنے والوں کے لیے عوامی سطح پر مشترکہ سماجی رشتوں کے لحاظ سے اکثر اوقات جذباتی طور پر خصوصاً دکھ درد اور سانحوں کے اعتبار سے ایک یا یکساں محسوس کی جاتی ہیں۔

یوں دہشت گردی کے خلاف جنگ عالمی سطح پر کہیں درست سمجھی گئی مگر یہ حقیقت ہے پاک افغان سرحدوں کے دونوںا طراف کے عوامی سطح کے دکھ درد مشترک تھے، مگر پاکستان اور افغانستان میں خصوصاً طالبان کے بعد قائم ہونے والی حکومتوں کی پالیسیاں کتنی ہی مجبوری کے تحت کیوں نہ اپنائی گئیں وہ مجو عی طور پر عوامی سطح پر پسند نہیںکی گئیں اور یہی وہ وجوہات تھیں، جن کی بنیاد پر ایک جانب امریکہ اور اُس کی اتحادی فوجوں کو نائن الیون کے برسوں گزر جانے کے بعد بھی کامیابی حاصل نہ ہو سکی تو دوسری طرف پا کستان کو کئی طرح کے اندرونی و بیرونی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، یہ ایسی فضا تھی کہ جس میں افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی کے خلا ف جنگ کے نام سے شروع ہونے والی جنگ اب ایک نئی طرز کی پروکسی وار یا جنگ کی شکل میں 2003 یا 2004 سے شروع ہو چکی ہے۔

یہ 1945 سے1990 تک عالمی سرد جنگ سے یوں مختلف ہے کہ اس میں جنگ کا بڑا حصہ شہروں میں لڑا جا رہا ہے جہاں تک تعلق امریکہ یا نیٹو افواج کا ہے تو وہ یا تو افغانستان عراق یا دوسرے ملکوں میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں یا پھر ساحلوں کے نزدیک سمندروں میں اپنے بحری بیڑوں، طیارہ بردار بحری جہاز وں یا میزائلوں سے اپنے اہداف کو نشانہ بناتے ہیں، جب کہ دہشت گردی سے متاثرہ ملکوں میں جو گروہ آپس میں بر سرِپیکار ہیں، اس پراکسی وار کا ایسا حصہ ہیں جو زیر زمین رہ کر دہشت گردی کی کاروائیوں میں مصرفِ عمل ہیں، پاکستان کو اس طرز کی جنگ کا سامنا تقریباً گذشتہ اٹھارہ برسوں سے سامنا ہے اور ساتھ ہی اُسے اپنے سے کم از کم چار گنا زیادہ قوت کے روایتی دشمن بھارت کا مقابلہ بھی کر نا پڑ رہا ہے اور ساتھ ہی اس دوران مشرق وسطیٰ میں اس پراکسی وار کی وجہ سے کئی مرتبہ ہمارے ہمسایہ ملک ایران نے بھی خارجہ پالیسی کے لحاظ سے پہلو یا زاویئے بدلے ہیں اور اس سے بھی پاکستان کو بعض مواقع پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اگر جنگوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستا ن کو آزادی کے فوراً بعد ہی سے ہمیشہ جنگ جیسے حالات کا سامنا رہا ہے، 1999 میں جب ایک سال قبل ہی پاکستان اور بھارت اعلانیہ ایٹمی قوت بن چکے تھے تو کارگل کی ایسی جنگ ہوئی جو لڑائی سے کچھ زیادہ اور مکمل جنگ سے قدرے کم تھی اور اس میں خصوصاً جب وزیر اعظم نواز شریف نے امریکہ کا دورہ کرکے 4 جولائی 1999کوامریکہ کے یوم آزادی پر طویل ملاقات کی اور پھر ون آن ملا قات کی تو اس کے بعد انہو ں نے کارگل سے فوجوں کی واپسی کے احکامات دئیے۔

یوں یہ جنگ لائن آٖف کنٹرول تک ہی محدود رہی ورنہ یہ جنگ سندھ اور پنجاب کی پاکستان اور بھارت کی انٹرنیشنل سرحدوں پر بھی بھرپور انداز سے لڑی جاتی اور بھارت اور پاکستان کے درمیان یہ فیصلہ کن ثابت ہوتی، جب کہ سوویت یونین کے 1979 میں افغانستان میں آنے کے بعد سے اور اس بعد کی تما م تر بدلتی ہوئی صورتحال میں پاکستان کو کسی نہ کسی انداز میں جنگوں کا حصہ بننا پڑا، یوں یہ تو تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کو بڑے جانی مالی بلکہ ناقابل تلافی نقصانات کو برداشت کرنا پڑے پھر معاشرتی سماجی طور پر صدیوں کی تہذیبی سماجی بنت کے اُدھڑنے سے جو سماجی اجتماعی یا اژدھامی انداز کے نفسیاتی مسائل پیدا ہوئے، ہمارے ہاں نوے لاکھ سے زیادہ افراد منشیات کے عادی ہوگئے، کلاشنکوف کلچر نے ڈاکہ زنی، اغوا برائے تاوان، قتل وغارت کی وارداتوں میںکئی گنا اضافہ کر دیا۔

نصف آبادی غربت و افلاس کی بھینٹ چڑھ گئی اسی دوارن یعنی افغان پاکستان سرحد وں اور پھر ہمارے شہروں میں یہ دہشت گردی کے واقعا ت جو پراکسی وار کی صورت میں رونما ہوئے اور شروع میں کئی مرتبہ ہمیں پسپائی بھی ہوئی، مگر اس دوران پاکستان کی فوج دنیا میں امریکہ کی فوج کے بعد مسلسل جنگوں سے گزرنے والی دوسری فوج بن گئی اور امریکی فوج کے مقابلے میں اِسے زمینی جنگ کا تجربہ اس لیے بھی زیادہ رہا کہ ہمارے سپاہی اور افسران چھوٹے ہتھیاروں سے محاذوں پر لڑتے رہے ، اگرچہ ہمارے سپاہی اور سویلین دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ اور لڑائیوں تقریباً 80000 کے قریب شہید ہوئے جو امریکیوںکے مقابلے تقریباً بیس گنا زیادہ ہیں لیکن دنیا یہ تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان کی فوج کو جتنا تجربہ ہے اتنا دنیا کی کسی اور فوج کو نہیں اور آج پاکستان کی فوج اس جنگ کو اپنے ملک سے 90 فیصد سے زیادہ باہر دھکیل چکی ہے جو 9 ستمبر 2001 کے بعد سے اب تک دنیاکی کوئی اور فوج نہیں کر سکی ہے۔   (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔