پامال رستوں کا سفر

اشفاق اللہ جان ڈاگئی  جمعرات 19 دسمبر 2019

11دسمبر کو چشم فلک نے لاہور کی سڑکوں پر جو مناظر دیکھے شاید انسانی تاریخ کے جھروکوں میں ایسے مناظر دیکھنے کو نہ ملیں۔ اسے واقعہ کا نام دینا زیادتی ہوگی کیونکہ یہ تو سانحہ تھا ،جسے دیکھ کرانسانیت بھی شرما گئی۔

لاہور کی فضاؤں نے ظلمت کی اس داستان کو رقم ہوتے دیکھا اور آسمان خون کے آنسو روتا رہا۔ لاہور پر کئی بار بیرونی حملہ آوروں نے حملے کیے اور اسے تباہ و برباد کیا لیکن ایسا کام تو کسی حملہ آورنے بھی نہیں کیا جو معاشرے کے دو پڑھے لکھے طبقوں نے کردیا، ایک جانب قانون کی گتھیاں سلجھانے والے وکلاء اوردوسری جانب دم توڑتی انسانیت کی مسیحائی کرنے والے ڈاکٹر تھے،پھر لاہور کی جیل روڑ پر جو ادھم مچا اس سے ہر انسان رنجیدہ اور دل گرفتہ ہے، دنگا ، فساد اور جلاؤ گھیراؤمیں ناصرف قانون کی دھجیاں اڑتی نظر آئیں بلکہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا مریضوں سے سانسیں چھیننے کی ناپاک جسارت بھی ہوتی رہی۔

قصور وکلاء کا تھا یا مسیحاؤں کا ؟ اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں، سر دست جس اسپتال پر حملہ ہوا اس کی حساسیت پر بات کرلی جائے۔ ادارہ امراض قلب (پی آئی سی )پنجاب ہی نہیں ملک بھر میں اپنی ایک خاص شہرت رکھتا ہے، لاہور کے گردو نواح سے امراض قلب میں مبتلا مریضوں کو یہاں لایا جاتا ہے۔

50فیصد سے زائد مریضوں کو ہارٹ اٹیک کی صورت میں انتہائی ایمرجنسی کی حالت میں یہاں شفٹ کیا جاتا ہے جن کی جان بچانے کے لیے لمحہ لمحہ انتہائی قیمتی ہوتا ہے لیکن دو طبقوں کی انا کی جنگ نے ناصر ف اس عظیم علاج گاہ کے تقدس کو پامال کیا بلکہ ایمرجنسی کی حالت میں لائے جانے والے مریضوں کو بھی فوری طبی امداد کی فراہمی کا سلسلہ بند کیا گیا۔ دنیا کا کوئی مذہب ، کوئی قانون اور کوئی معاشرہ اسپتالوں پر حملوں کی اجازت نہیں دیتا، لیکن لاہور کے وکلاء اور ڈاکٹروں کے رویوں نے جہاں مذہبی اقدار کوپامال کیا وہاں قانونی پابندیوں کو بھی اپنے پاؤں تلے روند ڈالا ، ان کے اس عمل سے پورے معاشرے کا سر شرم سے جھکا دیا۔

اب ہم آتے ہیں اس سانحے کی اصل وجوہات کی طرف پرنٹ و الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے جو دکھایا جمہورِ پاکستان نے وہ دیکھا لیکن تصویرکا ایک رخ یہ بھی ہے کہ کہ تقریباً دو ہفتے قبل پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں اپنی والدہ کے علاج کے غرض سے آنے والے دو وکلاء بھائیوں کا ڈاکٹروں اور اسپتال انتظامیہ کے درمیان جھگڑا ہوا جو بدھ کو پیش آنے والے سانحے کا سبب بنا۔ دونوں وکلاء بھائی عارضہ قلب میں مبتلا اپنی والدہ کو پی آئی سی لے کر آئے۔

جہاں آنے والے ہر مریض کو ایک طے شدہ مراحل سے گزر کرمتعلقہ معالج تک پہنچنا پڑتا ہے لیکن مذکورہ وکیل بھائی براہ راست معالج تک رسائی کے لیے جذباتی ہوئے، ڈیوٹی پر موجو د ڈاکٹروں اور وکیل بھائیوں میں تلخ کلامی ہوگئی اور وہاں موجود اسپتال کے ملازم نے ایک وکیل کو تھپڑ دے مارا۔اس تھپڑ کی گونج کو پی آئی سی سے نکل کر بار روم تک پہنچنے میں دیر نہ لگی، وکلاء تحریک کے نتیجے میں ایک مضبوط طبقے کے طور پر آنے والے وکلاء کے لیے اس تضحیک آمیز رویے کو ہضم کرنا آسان کام نہ تھا۔

ان کا بس چلتا تو وہ حسب روایت ’’اپنی عدالت ، اپنا قانون اور اپنا انصاف ‘‘ کے مصداق کارروائی کرتے اور ڈاکٹروں کو نشان عبرت بنا دیتے لیکن اس بار مدمقابل کوئی انفرادی شخصیت نہ تھی بلکہ ایک ادارہ تھا۔ وکلاء کی جانب سے واقعہ پر کسی ردعمل کے آنے سے پہلے ہی پی آئی سی کے ڈاکٹروں کی جانب سے اس ساری کارروائی کی ریکارڈ شدہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی گئی جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور وکلاء اپنی اس تضحیک پر بپھر گئے ، وکلاء پی آئی سی کے ڈاکٹروں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایف آئی آر کے اندراج کے لیے سڑکوں پر آگئے۔

اس احتجاج کے بعد ایف آئی آر تو درج ہوگئی لیکن مبینہ طور پر اس میں اْن ڈاکٹروںکے نام شامل نہیں کیے گئے جنھیںوکلاء نے نامزد کیا تھا۔ وکلاء نے آئی جی آفس کے باہر دھرنا دے دیا اور ملزموں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ پولیس افسران ، سینئر وکلاء اور ڈاکٹروں کی کوششوں سے فریقین کے درمیان صلح کی کوشش کی گئی اور یہ طے پایا کہ مذکورہ ڈاکٹر حضرات بار کونسل میں آکر اپنے ناروا سلوک پر معافی مانگیں گے۔ وکلاء بار کونسل میں ڈاکٹروں کے منتظر تھے کہ پی آئی سی کے ڈاکٹروں کی جانب سے ایک بار پھر ایسی ویڈیو جاری کردی گئی جو وکلاء کی مزید تضحیک کا باعث بنی۔

بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر لاہور بار کا اجلاس ہوا جس میں فیصلے کے بعد وکلاء نے ہائی کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کردی لیکن وہ طبقہ جو لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے کوشاں رہتا ہے وہ بھی انصاف کے حصول کے لیے احتجاج پر مجبور ہوگیا۔ وکلاء اجتجاج کرتے ہوئے پی آئی سی کی جانب بڑھے۔  وکلاء کے اسپتال کے اندر داخل ہونے سے پہلے ہی مریضوں کی ٹریٹمنٹ کا سلسلہ روکنے کا عمل شروع ہوچکا تھا انھیں لگی ہوئی ڈرپس اتاری گئیں۔

اس ہنگامہ آرائی کی وجہ سے اسپتال میں داخل مریض بھی متاثر ہوئے اور حکام کے مطابق ہنگامہ آرائی کے دوران تین مریض طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ پولیس نے ہنگامہ آرائی کرنے والے وکلا کے خلاف تعزیراتِ پاکستان اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت دو مقدمات درج کیے ہیں۔

پہلا مقدمہ اسپتال کے عملے کے ایک رکن کی مدعیت میں 250 سے زیادہ وکلا کے خلاف قتلِ خطا، کارِ سرکار میں مداخلت، دہشت پھیلانے، ہوائی فائرنگ کرنے، زخمی اور بلوہ کرنے، لوٹ مار، عورتوں پر حملہ کرنے اور سرکاری مشینری اور نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہچانے کی دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔گزشتہ دو ہفتوں سے ڈاکٹروں اور وکلاء میں یہ کشیدگی چل رہی تھی لیکن اسے احسن انداز میں حل کرانے کے بجائے طول دیا گیا اور نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں اس سانحہ کے ذمے دار صرف وکلاء ہی نہیں بلکہ ڈاکٹرکمیونٹی بھی ہے، صلح ہونے کے بعد تضحیک آمیز ویڈیو وائرل کرکے وکلاء کو اشتعال دلانے کے پیچھے گہری سازش تھی۔لوگ صرف یہ باتیں کر رہے ہیں کہ ان تمام وکلا کا لائسنس معطل ہونا چاہیے جو کافی نہیں ہے، اس سانحہ میں ملوث تمام افراد کے خلاف قتل کے مقدمات بننے چاہئیں۔

مجرم وکلاء کے لائسنس معطل کیے جائیں اور ڈاکٹروں کی پی ایم ڈی سی رجسٹریشن ختم کردی جائے۔ ایک بہت بڑا سوال یہ بھی ہے کہ وکلاء اور ڈاکٹروں کی لڑائی کو طول دینے کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما تھے؟ واقفان حال جانتے ہیں کہ وکلاء کمیونٹی بہت طاقتور بن کر کھڑی تھی ، اس وقت عدالتوں میں اہم ترین کیسز زیر سماعت ہیں، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان فیصلوں پر وکلاء کے سخت ردعمل سے بچنے کے لیے جان بوجھ کر انھیں ٹارگٹ کیا گیا تاکہ ان کی طاقت کو کم کیا جاسکے۔

یہ واقعہ ریاست مدینہ کے دعویدار حکمرانوں کے لیے ٹیسٹ کیس ہے کیونکہ دنگا فساد اور جلاؤ گھیراؤ میں وزیر اعظم عمران خان کا حقیقی بھانجا حسان نیازی بھی پیش پیش رہا، بدقسمتی سے پہلی ایف آئی آر میں ملزم کا نام تک شامل نہیں کیا گیا لیکن جب سوشل میڈیا کے ذریعے دباؤ آیا تو دوسری ایف آئی آر میں اس کا نام شامل کیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان کو ریاست مدینہ کے اصول مدنظر رکھنا چاہئیں۔

نبی کریمﷺ کے زمانہ میں فتح مکہ کے موقع پر ایک عورت نے چوری کی اس عورت کی قوم والے گھبرا کر حضرت اسامہ بن زیاد ؓ کے پاس گئے تاکہ وہ نبی کریم ﷺ سے اس عورت کی سفارش کر دیں اور وہ سزا سے بچ سکے۔ جب حضرت اسامہ ؓ نے اس بارے میں نبی کریم ﷺ سے بات کی تو آپؐ کا چہرہ مبارک پر غصے کے آثار نمودار ہوگئے اور فرمایا کہ’’ اے اسامہ! تم مجھ سے اللہ کی حدود کے بارے میں بات کرتے ہو؟۔

تم سے پہلے لوگ صرف اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ جب ان کا طاقتور اور معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا ا ور جب کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد شرعی قائم کر تے۔ اْ س ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمدﷺ کی جان ہے اگر محمدﷺکی بیٹی بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹنے کی سزا دیتا‘‘۔قوم سانحہ پی آئی سی کے اہم ملزم حسان نیازی کو قانون کے کٹہرے میں دیکھنے کے لیے منتظر ہے اور یہ توقع کر رہی ہے کہ ریاست مدینہ کے دعویدار اس معاملے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔

اس سانحہ میں ملوث دوطبقے کے لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں جنہوں نے کسی مدرسے یا مسجد سے تعلیم حاصل نہیں کی اور شاید ان میں سے کوئی کسی مولوی کا بچہ ہو، یہ سبھی جدید تعلیم کی اعلیٰ یونیورسٹیوں کے ڈگری ہولڈر ہیں، دینی مدارس سے فارغ التحصل لوگوں نے کبھی اس نوعیت کا سانحہ برپا نہیں کیا ، حکومت میں شامل جو ذمے دار مدرسہ اصلاحات پر بڑی شد و مد کے ساتھ زور دیتے ہیں ، اب انھیں اتنی ہی شد و مد کے ساتھ عصری تعلیم کے ان اداروں کی اصلاحات کی بات کرنی چاہیے جہاں سے ایسے گریجویٹس تیار ہورہے ہیں جو معاشرے کے فیبرک کو ادھیڑنے کا سبب بن رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔