میں ہواؤں کا رخ بدل دوں گا

اقبال خورشید  جمعرات 19 دسمبر 2019

وہ ماضی کی غلام گردشوں سے ابھرتے ایک خستہ حال ہوٹل کے تاریک گوشے میں خاموش بیٹھا تھا۔ وہ، جس نے نوجوانی میں مجھے انقلاب کے لفظ سے آشنا کیا ، جس کے اشعار کی باز گشت سے میرا تحت الشعور بھرا ہوا تھا۔

میں نے ہوٹل میں جنم لیتی پر اسرار آوازوں اور جھٹ پٹے کی سی کیفیت میں عارف شفیق پر نگاہ ڈالی۔ ہواؤں کا رخ بدلنے لگا۔

اس روز ایم کیو ایم کی ہڑتال تھی ، تب یہ جماعت بے قیمت نہیں ہوئی تھی۔ ایک کال پر شہر خاموش ہو جاتا تھا ، دھوپ سمٹ رہی تھی۔ میں دفتر میں تھا کہ سیل فون پر نثری نظم کے بے بدل شاعر ، احسن سلیم کا نام جگمگایا۔

’’ ہم بلوچ کے ہوٹل پر بیٹھے ہیں ، ضیا الدین اسپتال کے پاس ، آپ بھی آ جائیں ‘‘ احسن سلیم کی آواز میں ’’ پتوں میں پوشیدہ آگ ‘‘ تھی۔ اس اطمینان کے باعث کہ محنت کشوں کی بستی میں موجود وہ ہوٹل ہمارے گھر سے زیادہ دُور نہیں ، اور اس تجسس سے مجبور ہو کر کہ ذرا دیکھا جائے ، بھائی کی کال کے باوجود کون سا ہوٹل کھلا ہے، ہم وہاں جا پہنچے۔۔۔ اور وہاں میں نے اُسے دیکھا ، جس نے کہا تھا۔

غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارف

امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی

میں مودب تھا ، اور ایسا بے سبب نہیں تھا۔ اپنے محسن پروفیسر یاسین شیخ کی لائبریری نے جہاں مجھے منٹو، عصمت اور واجدہ سے متعارف کروایا ، اور احمد ندیم قاسمی کے ’’ رئیس خانہ ‘‘ سے ملوا کر کہیںکا نہ چھوڑا ، تو اِسی لائبریری نے مجھے عارف شفیق کی بھی خبر دی۔ یہ ان کی کتاب ’’ احتجاج ‘‘ تھی۔ انقلابی آہنگ اور ایسے اشعار ، جو ایک نوجوان کے ذہن میں ، جو اقبالؔؔ ، غالبؔ اور فیضؔ کو سمجھنے سے ابھی قاصر تھا ، لاعلم اور کم عمر تھا۔۔۔اپنی سلطنت قائم کر سکتے تھے۔ انقلاب مجھے بھاتا گیا۔

پھر ان کا ضخیم مجموعہ ’’میں ہواؤں کا رخ بدل دوں گا ‘‘ ہاتھ لگا۔ اس کتاب کے اشعار اور غزلیں کتنے ہی برس ہم دوستوں کے درمیان (دوست ، جن میں کوئی بھی مستقبل میں میدانِ ادب میں قدم نہیں رکھنے والا تھا) زیر بحث رہے۔ تو عارف شفیق شاعری کے میدان میںمیرا پیارا عشق تھا۔

مگر جلد ہی اندیشوں ، خوف اور محبت جیسے جذبات کے باعث میں شاعری سے دُور ہوا۔ فکشن کی کائنات، اب میری کائنات تھی۔ تعلیم مکمل کی ، عشق لڑائے ، بیروزگاری بھگتی ، اور پیشہ ورانہ سفر شروع کیا اور پھر اچانک… بیس برس بعد عارف شفیق سے میری ملاقات ہو جاتی ہے۔ اس بار کتاب نہیں ، حقیقت کی دنیا میں۔ ایک پراسرار تاریک ہوٹل میں۔

تو میں مودب تھا ، مگر وہ بات کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اُنھوں نے میرے ہفتہ وار انٹرویوز کا ذکر کیا۔ انھیں سراہا۔ اور پھریہ کہہ کر مجھے چونکا دیا کہ ’’تمہارے محمد علی صدیقی والے سوال پر انتظار صاحب ناراض ہو گئے تھے۔‘‘

یہ انتظار حسین کے سہ ماہی اجرا میں شایع ہونے والے انٹرویو کا تذکرہ تھا۔ میرے لیے یہ امر حیران کن تھا کہ اُنھوں نے اتنی توجہ سے یہ انٹرویو پڑھا کہ انتظار حسین کی خفگی تک رسائی پا لی۔ مزید کہا ’’ ہاں ، مگر انتظار صاحب نے آل احمد سرور اور احتشام حسین کا ذکر کر کے توازن پیدا کر لیا۔‘‘

پہلے میں مودب تھا ، پھر حیران ہوا ، اور اب میرے جھینپنے کی باری تھی۔ اُنھوں نے ٹوٹے ہوئے کپ سے چائے کا گھونٹ لیا ، اور بولے ’’ لگتا ہے، منٹو کے بجائے بیدی کو پڑھ رہے ہو۔‘‘

وہ میرے افسانوں کا ذکر کر رہے تھے۔ احسن سلیم گویا ہوئے ’’ میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا ، اقبال کے ہاں بیدی کا اسلوب ہے۔‘‘

عارف شفیق کہنے لگے ’’ بیدی سے دوستی کر لو ، بے تکلفی پیدا کرو ، احترام سے کام نہیں چلے گا۔‘‘

میں اِس حد تک جھینپ چکا تھا کہ بے طرح کھانسنے لگا ، چائے خود پر گرا لی، اور موضوع بدلنے کو سیاست پر غیرضروری گفتگو شروع کر دی۔۔۔ اس شام جب میں اس پراسرار ہوٹل سے نکلا ، میرے بچپن کا عشق پھر عود آیا تھا۔ ایک انقلابی شاعر کے لیے نہیں ، بلکہ ایسے شخص کے لیے تھا ، جو نئی نسل کو حیران کن توجہ کے ساتھ پڑھ رہا تھا۔

اچھا ، اُس روز کچھ اور بھی ہوا۔ شاعر کے برعکس قاری نے ، یعنی میں نے ان کی چند نثری نظمیں، اور وہ اشعار اُن کی خدمت میں پیش کیے ، جو یکدم میرے ذہن کے دریچوں میں ہمکنے لگے تھے۔

نہ میری جستجو کر/ صدیوں کا فاصلہ ہوں

جو ہوا نہیں ابھی تک/میں ایسا حادثہ ہوں

ان اشعارکی بازیافت نے ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دی۔۔۔آنے والے دنوں میں کئی ملاقاتیں ہوئیں ، جن میں دو طویل انٹرویوز بھی شامل۔ یہ انٹرویوز دیگر شعرا سے ہونے والے مکالموں سے مختلف تھے کہ ان میں کراچی کی آواز سنائی دیتی ، اس کے ماضی ، حال اور مستقبل سے جڑے المیوں کا تذکرہ ہوتا۔ ساتھ ہی ان کی صحافتی زندگی ، وہ جھگڑے جو انھوں نے مول لیے ، ادبی اختلافات ، سب زیر بحث آئے۔ اور ساتھ ہی بات ہوئی ان کی آپ بیتی پر۔ کہنا تھا ، اِس میں انھوں نے کراچی کی ایک متوازی سیاسی ، ادبی تاریخ بیان کی ہے، کئی رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔

ان باتوں نے تجسس بڑھا دیا۔ ہم نے انتظار شروع کر دیا۔ انتظار طویل ہوتا گیا۔ وہ بیمار پڑ گئے۔14دسمبر کو اُن کے انتقال کی خبر ملی۔ لگا ، کراچی کی متوازی سیاسی و ادبی تاریخ گم ہو گئی ۔ ایک تحریر میں انھیں یاد کرتے ہوئے اِس آپ بیتی کا تذکرہ کیا، تو عقیل عباس جعفری نے خبر دی کہ وہ اس کا مسودہ پڑھ چکے ہیں۔ یہ بھی کہا ، کتاب اہم ہے، فوری شایع ہونی چاہیے۔ اس بیان نے تجسس کے لیے مہمیز کا کام کیا۔ امید ہے، یہ تاریخ جلد ہمارے سامنے آئے گی۔

صحافتی ’’ اسرار و رموز ‘‘ پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ یہ تاثر عام تھا کہ ان کا جھکاؤ ایم کیو ایم کی جانب ہے۔ اب ہوا یہ کہ ہمارے ایک سوال پر اُنھوں نے اُن شعرا پر کڑی تنقید کر دی ، جنھیں سیاسی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ ہم نے کھٹ سے اِس بیان کو سرخی بنانے کا ارادہ ظاہر کر دیا۔ وہ خاموش ہو گئے۔ کچھ دیر غور کیا۔ پھر کہنے لگے ، ٹھیک ہے، اچھا اینگل ہے، خبر اور انٹرویو میں اینگل ہی سب سے اہم ہوتا ہے۔

ان انٹرویوز میں جہاں انھوں نے خود کو ’’ عوامی شاعر‘‘ ٹھہرایا ، وہاں یہ بھی کہا کہ وہ اپنا مزید کلام منظر عام پر نہیں لانا چاہتے کہ قارئین میں اِسے ہضم کرنے کی صلاحیت نہیں۔ یہ کلام زمانے سے آگے ہے۔

انٹرویو کی اشاعت کے بعد ہمارے ایک سینئر ، جو خود بھی نفیس شاعر ، اِس بات پر خاصے ناراض ہوئے۔ اعتراض کیا کہ خود کو عوامی شاعر ٹھہرانا اور پھر یہ دعویٰ کہ قارئین میں سمجھنے کی صلاحیت نہیں ، دو متضاد باتیں ہیں۔ ہم نے کہا ، شاید اُنھیں اِس تضاد کا بہ خوبی علم تھا ، اِسی لیے اس کا اہتمام کیا ۔ (آخر اینگل اہم ہوتا ہے۔)

عارف شفیق چلے گئے۔ یہ کہنا کہ دبستان کراچی کی ایک توانا آواز خاموش ہوئی ، بڑا روایتی لگتا ہے، اور یہ دعویٰ بھی کہ ان کا کام ہمیشہ زندہ رہے گا ، مبالغہ آمیز معلوم ہوتا ہے ، لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ میرے الفاظ کے بازگشت میں عارف شفق کی آواز ، اولین محبت کی طرح ایک عرصے سنائی دیتی رہے گی۔

کیا ماتم، کیسا رونا مٹی کا

ٹوٹ گیا ہے ایک کھلونا مٹی کا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔