عاشقان اردو

نسیم انجم  ہفتہ 2 نومبر 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

اردو کے حوالے سے بڑا کام ہو رہا ہے ہر جگہ اور ہر ملک میں اہل ادب اردو کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آرٹس کونسل ہو یا ہمارا شاندار اور کامیاب ترین اخبار ایکسپریس ہو، کئی سال سے آرٹس کونسل میں احمد شاہ کی کاوشوں سے اردو کی محفلیں سجائی جاتی ہیں دور دراز سے مہمان تشریف لاتے ہیں، عاشقان اردو کا میلہ لگایا جاتا ہے اور اب یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ کی جانب سے بھی اردو زبان کی اہمیت کو اجاگر کیا جا رہا ہے اور اس بات کی بھی یاد دہانی کروائی گئی ہے کہ اردو پوری دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے جو کہ بہت بڑا اعزاز ہے ورنہ زبانیں تو بے شمار ہیں کچھ زبانیں تو ایسی ہیں جو علاقوں، قصبوں اور دیہات  تک ہی محدود ہیں جن سے عوام و خواص نا واقف ہیں جب کہ اردو بولنے، پڑھنے، لکھنے والے تمام بڑے ملکوں میں ادبی کام کر رہے ہیں۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ اردو کو اپنے ہی ملک میں وہ مقام و مرتبہ حاصل نہ ہو سکا جس کی وہ حقدار ہے قومی زبان ہونے کے باوجود اسے دفتری زبان قرار اب تک نہیں دیا جا سکا ہے۔ ہمارے ملک میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو انگریزی بولنا اپنی شان  سمجھتے ہیں اور اپنی ہی قومی زبان و ثقافت سے بیزار نظر آتے ہیں۔ خیر جانے دیجیے یہ تو قصہ پارینہ بن چکا ہے۔

اردو کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، اردو کے چاہنے والوں کی کمی نہیں، زبان کسی بھی فرد کے تشخص اور شناخت کا باعث ہوتی ہے اسی لیے علم و ادب کے چمن میں نت نئے پھول ہر روز کھلتے ہیں۔ سیکڑوں کتابیں، رسائل شایع ہوتے ہیں اور قارئین و ناقدین تک پہنچتے ہیں ان کو پڑھا جاتا ہے، رائے پیش کی جاتی ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ادب رو بہ زوال ہرگز نہیں ہے۔ ہر موضوع پر خواہ وہ مقامی حالات ہوں، ملکی یا غیر ملکی واقعات پر باقاعدگی کے ساتھ لکھا جا رہا ہے۔حال ہی میں ہندوستان ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے خواتین فنکاروں کے انٹرویوز کے حوالے سے ایک قابل ذکر کتاب شایع ہوئی ہے عنوان ہے ’’آبگینے‘‘ مولف  نثار احمد صدیقی ہیں، نثار احمد صدیقی صاحب کی یہ پہلی نہیں بلکہ چھٹی کتاب ہے، بچوں کے لیے بھی کہانیاں لکھی ہیں۔ افسانہ نگار بھی ہیں گویا ادب کی بڑی شخصیت ہیں۔’’شاعرات ارض پاک‘‘ مرتب شبیر ناقد ہیں۔ یہ کتاب ’’رنگ ادب‘‘ کراچی سے شایع ہوئی ہے۔ ٹائٹل پروین شاکر کی تصویر سے مزین ہے۔ نمبروں کی جگہ دائرے بنے ہیں25 دائرے ہیں تو گویا 25 شاعرات اپنی شاعری کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ فہمیدہ ریاض سے ابتدا ہوئی ہے اور آخر میں شبیر ناقد کا سوانحی اور فنی تعارف ہے۔ بسمل صابری، پروین شاکر، ڈاکٹر نزہت عباسی، حجاب عباسی اور دوسری کئی اہم شاعرات کا تعارف اور کلام پیش کیا گیا ہے۔ بسمل صابری کا ایک مشہور شعر:

وہ عکس بن کے مری چشم تر میں رہتا ہے

عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے

شبیر ناقد صاحب نے پروین شاکر کے بارے میں لکھا ہے ’’ محبت ہو یا رومان ان کے کلام کا مستقل حوالہ ہے۔ جابجا چاہتوں کے پھول بکھیرتی نظر آتی ہیں، ان کا اسلوب نہایت شستہ اور رواں دواں ہے، ان کے ہاں ایک خود کلامی کا سا انداز ہے، جذبوں میں شدت و حدت ہے، ان کے اشعار میں کرب و سوز کی کیفیت پائی جاتی ہے‘‘۔ بات سچی ہے اور دل کو لگتی ہے یقینا پروین شاکر کا شمار نابغہ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے۔

شعر و سخن کے حوالے سے اردو شاعری کا ایک معتبر مقام ہے انھیں جس قدر شہرت و عزت ملی، دوسرے لوگوں کو کم ہی کم نصیب ہوتی ہے۔ بے شک وہ خوشبو کی طرح ہر سو بکھر گئی ہیں وہ خود فرماتی ہیں کہ:

عکس خوشبو ہوں‘ بکھرنے سے نہ روکے کوئی

اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی

کانپ اٹھتی ہوں میں سوچ کے تنہائی میں

میرے چہرے پہ تیرا نام نہ پڑھ لے کوئی

امریکا سے حیدر قریشی کی دو کتابیں موصول ہوئیں عنوانات ’’قفس کے اندر‘‘ اور ’’کھٹی میٹھی گولیاں‘‘۔ ’’قفس کے اندر‘‘ اس کتاب میں شاعر نے چھ شعری مجموعوں کو شامل کیا ہے۔ اسی وجہ سے ایک ایک صفحے پر 2- 2 نظمیں، غزلیں اور ماہیے اپنی آب و تاب کے ساتھ چمک رہے ہیں۔ حیدر قریشی  کی میں نے شاعری پڑھی بے حد پر اثر اور معاشرتی سچائیوں کی عکاس ہے۔ شعر و سخن میں آپ بیتی بھی شامل ہے اور جگ بیتی بھی۔ دونوں کو خوبصورتی اور نفاست کے ساتھ ڈھالا گیا ہے۔ ان کی غزلوں کے چند اشعار:

بہت چالاک ہوتے جا رہے ہو

بڑے بے باک ہوتے جا رہے ہو

دلوں کا خون کرنے لگ گئے ہو

بڑے سفاک ہوتے جا رہے ہو

……………………….

اتنی محبت ہے کہ گماں جیسی لگتی ہے

ماں جائی ہے لیکن ماں جیسی لگتی ہے

دل میں ٹھہری ہوئی ہے میرے بچپن ہی سے

جس کی محبت آب رواں جیسی لگتی ہے

’’کھٹی میٹھی گولیاں‘‘ یہ کتاب حیدر قریشی کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ اپنوں کی یادیں، محبتوں اور قربتوں کی داستان بے حد خلوص خلوص کے ساتھ لکھی گئی ہے۔ اپنے خاندان، عزیز و اقارب اور اپنی اولاد اپنی منکوحہ کے حوالے سے یہ یادیں، مصنف اور ان کے دوست احباب اور چاہنے والوں کے لیے ایک سرمائے سے کم نہیں ہے۔ حیدر قریشی نے اپنے ہر دور اور ہر زمانے اور زمانے سے وابستہ یادوں کو اپنے کلام میں سمونے کی کوشش کی ہے یہ تحریریں دلچسپ بھی ہیں اور عقل و خرد سے آشنا لوگوں کے لیے سبق آموز بھی ہیں۔ کہ دوسروں کے تجربات سے صاحب بصیرت فیض حاصل کرتے ہیں۔

’’کھانس‘‘ انٹرنیشنل 18 اسلام آباد سے ہم تک پہنچا ہے، اس جریدے کے مرتب ارشد خالد اور امین خیال ہیں۔ یہ رسالہ حقیقتاً قابل تعریف اور قابل مطالعہ ہے ادب سے تعلق رکھنے والی نامور ہستیوں کی تحریروں نے اسے اعلیٰ معیار بخشا ہے۔ اس پرچے کے قلمکاروں میں جوگندر پال، منشا باد، مقصود الٰہی شیخ، حیدر قریشی، اے خیام، ڈاکٹر نذر خلق، پروین شیر، نجیب عمر، عامر سہیل وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

ارشد خالد صاحب کی ’’اپنی بات‘‘ بھی قابل توجہ ہے۔ پرچہ 168 صفحات پر مشتمل ہے اور انفرادیت میں اپنی مثال آپ نظر آتا ہے۔ ’’آئینہ باطن‘‘ جناب انور فخری کے دوسرے مجموعے کا نام ہے 1999ء میں ان کی پہلی کتاب ’’چہرے پر لکھ رہا ہوں‘‘ شایع ہو چکی ہے۔ کتاب کا دوسرا ایڈیشن 2001ء میں اشاعت کے مرحلے سے گزرا۔ بزرگ شاعر انور فخری خوبصورت لب و لہجے کے شاعر ہیں ان کی شاعری میں تازگی و شادابی کا احساس عیاں ہے۔ نہایت شائستگی اور سلیقے کے ساتھ اپنے افکار کو شاعری کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ان کی غزلیات ہوں یا نظمیں و قطعات قابل مطالعہ ہیں۔ معاشرے کے حقائق کو اشعار کے باطن میں فنی باریکیوں کے ساتھ سمویا گیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ شعر

میں خود سے دور ہوتا جارہا ہوں

بہت مجبور ہوتا جا رہا ہوں

اردو زبان کے چاہنے والے بے شمار ہیں، اللہ اس زبان اردو کو تا قیامت سلامت رکھے( آمین!)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔